اتر پردیش کے مظفر نگر ضلع میں 2013 کے فرقہ وارانہ فسادات میں 60 سے زیادہ افراد ہلاک اور 40000 سے زیادہ نقل مکانی کو مجبور ہوئے تھے۔ اسپیشل ایم پی/ایم ایل اے عدالت نے بی جے پی ایم ایل اے وکرم سینی اور دیگر 11 کو قصوروار ٹھہرایا اور انہیں دو سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی۔ تاہم سبھی کو نجی مچلکے پر رہا بھی کردیا گیا۔
نئی دہلی: اتر پردیش کے مظفر نگر میں 2013 کے فرقہ وارانہ فسادات کی جڑ کہے جانے والے کوال کیس میں ایک اسپیشل ایم پی/ایم ایل اے عدالت نے منگل کو بی جے پی ایم ایل اے وکرم سینی اور 11 دیگر کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے دو–دوسال قید اور جرمانے کی سزا سنائی۔ تاہم سزا سنائے جانے کے فوراً بعد سب کو نجی مچلکے پر رہا بھی کر دیا گیا۔
اسپیشل ایم پی/ایم ایل اے عدالت کے جج گوپال اپادھیائے نے کھتولی حلقہ سے بی جے پی ایم ایل اے وکرم سینی اور دیگر 11 ملزمین کو تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 336 (زندگی کو خطرے میں ڈالنا)، 353 (سرکاری کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے مجرمانہ حملہ)، 147 (فساد) ، 148 (مہلک ہتھیاروں سے دنگا پھیلانا)، 149 (بھیڑ کا غیر قانونی اجتماع) اور فوجداری قانون ترمیمی ایکٹ کے سیکشن 7 کے تحت مجرم قرار دیتے ہوئے دو–دو سال قید اور 10-10 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔
عدالت نے کیس کے 15 ملزمین کو ثبوت کے فقدان میں بری کر دیا۔
تاہم، سزا سنائے جانے کے بعد بی جے پی ایم ایل اے سینی اور دیگر مجرموں کو 25000 روپے کے دو مچلکوں پر رہا کر دیا گیا۔ ان تمام لوگوں کو ضمانت ملنے سے پہلے کئی گھنٹے تک عدالتی حراست میں رکھا گیا۔ ضمانت ملنے کے بعد اب وہ عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر سکیں گے۔
مظفر نگر فسادات کی اہم وجہ سمجھے جانے والے کوال واقعہ میں بی جے پی ایم ایل اے وکرم سینی اور 26 دیگر کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
All have been granted bail.
— Piyush Rai (@Benarasiyaa) October 11, 2022
انڈین ایکسپریس کے مطابق، اس معاملے میں 12ویں ملزم کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ مظفر نگر کا یہ دوسرا کیس ہے، جو سزا کے ساتھ ختم ہوا ہے۔
سینی کھتولی سے بی جے پی کے ایم ایل اے ہیں۔ ان کے وکیل بھرت ویر اہلوت نے کہا کہ فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جائے گی۔
اہلوت نے کہا، عدالت نے قتل کی کوشش کے الزام سے تمام ملزمین کو بری کر دیا ہے۔
سرکاری وکیل نریندر شرما نے کہا کہ 12ویں ملزم کو آرمس ایکٹ کے تحت سزا سنائی گئی ہے۔ شرما نے کہا، بعد میں عدالت نے وکرم سینی سمیت تمام 12 ملزمین کو ضمانت دے دی۔ انہیں پچیس پچیس ہزار روپے کی دو ضمانتیں جمع کرانے کے بعد رہا کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ کیس میں شواہد کے فقدان میں 15 دیگر کو بری کر دیا گیا۔ عدالت نے استغاثہ کے کل نو گواہوں سے پوچھ گچھ کی تھی۔
استغاثہ کے مطابق، یہ مقدمہ 28 اگست 2013 کا ہے، جب شاہنواز، سچن اور گورو کو مظفر نگر کے قصبہ کوال میں قتل کر دیا گیا تھا۔ پولیس نے بتایا کہ شاہنواز کےقتل کے کلیدی ملزم سچن اور گورو کو گاؤں والوں نے ہی قتل کر دیا تھا۔ ان ہلاکتوں نے مظفر نگر اور آس پاس کے اضلاع میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑکا دیے تھے۔
شرما کے مطابق، 28 اگست 2013 کو اس وقت فرقہ وارانہ تصادم ہوا جب سچن اور گورو کے اہل خانہ آخری رسومات ادا کرنے کے بعد گھر واپس جا رہے تھے۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر نو افراد کو حراست میں لیا تھا۔
کوال واقعے کے بعد ستمبر 2013 میں مظفر نگر اور کچھ ملحقہ اضلاع میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے، جن میں کم از کم 62 لوگ مارے گئے تھے اور 40000 سے زیادہ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر جانا پڑا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ 28 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی اور بعد میں پولیس نے چارج شیٹ داخل کی۔ سرکاری وکیل شرما نے کہا کہ سماعت کے دوران ایک شخص کی موت ہوگئی۔ تمام ملزمین ضمانت پر باہر تھے۔ اس معاملے میں سینی کے خلاف نیشنل سیکورٹی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت کارروائی کی گئی تھی۔
بتادیں کہ گزشتہ سال اکتوبر میں دہلی کی ایک عدالت نے اتر پردیش کے 2013 کے مظفر نگر فرقہ وارانہ فسادات کے دوران ہوئے تشدد میں ملزم بی جے پی ایم ایل اے وکرم سینی اور دیگر 11 ملزمین کو بری کر دیا تھا۔
اس کیس میں، استغاثہ کے پانچ گواہوں کے مکرجانے کے بعد دوسروں کو شک کا فائدہ دے کر چھوڑ دیا گیا تھا۔
اتر پردیش حکومت نے 77 مقدمات واپس لے لیے تھے، جن میں سے کچھ کو اگست 2021 میں عمر قید کی سزا بھی سنائی گئی تھی، جس کے بعد ایم ایل اے سینی اور دیگر کو بری کر دیا گیا تھا۔
دی وائر نے اس سے قبل اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ کل 510 کیسز میں سے صرف 164 کیسز میں ہی حتمی رپورٹ پیش کی گئی، جبکہ 170 کو ہٹادیا گیا ہے۔ اس کے بعد سی آر پی سی کی دفعہ 321 کے تحت ریاستی حکومت نے بغیر کوئی وجہ بتائے 77 مقدمات واپس لے لیے تھے۔
معاملے میں امیکس کیوری سینئر ایڈوکیٹ وجئے ہنساریانے اس قدم کی تنقید کی تھی۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی بی جے پی حکومت نے اس فیصلے کی کوئی وجہ نہیں بتائی تھی، صرف اتنا کہا تھاکہ انتظامیہ نے ان مقدمات کو واپس لینے سے پہلے اس پر غور کیا تھا۔
سال 2019 میں مظفر نگر کی ایک عدالت نے سچن اور گورو کے قتل سے متعلق ایک معاملے میں سات لوگوں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
جسٹس وشنو سہائے کمیشن آف انکوائری، جو 2013 کے مظفر نگر فسادات کی تحقیقات کے لیے 2016 میں بنائی گئی تھی، نے انٹلی جنس کی ناکامی اور کچھ اعلیٰ حکام کی لاپرواہی کو تشدد کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
پچھلے سال ایس آئی ٹی نے کہا تھا کہ فسادات کے دوران قتل، ریپ ، ڈکیتی اور آتش زنی کے 97 معاملوں میں 1117 لوگوں کو شواہد کے فقدان میں بری کر دیا گیا تھا۔ ایس آئی ٹی کے حکام کے مطابق، پولیس نے 1480 لوگوں کے خلاف 510 مقدمات درج کیے تھے اور 175 مقدمات میں چارج شیٹ داخل کی تھی۔
ایس آئی ٹی 20 مقدمات میں چارج شیٹ داخل نہیں کر سکی، کیونکہ اسے ریاستی حکومت سے مقدمہ چلانے کی اجازت نہیں ملی۔ فسادات سے متعلق ان 20 معاملوں میں ایم ایل اے اور ایم پی بھی ملزمین کی فہرست میں شامل ہیں۔
اتر پردیش حکومت نے فسادات سے متعلق 77 مقدمات واپس لینے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن عدالت نے اتر پردیش کے وزیر سریش رانا، بی جے پی ایم ایل اے سنگیت سوم سمیت 12 بی جے پی ایم ایل اے کے خلاف صرف ایک کیس واپس لینے کی اجازت دی تھی۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں