رشی سنک کے برطانیہ کے وزیر اعظم بننے پر ہندوستانیوں کو خوش ہونے کے بجائےحقیقت میں سنجیدگی سےاپنا جائزہ لینا چاہیے کہ ہزاروں سال سے ہماری معاشرت میں شامل ہمارے مذہبی تنوع اور ثقافتی تکثیریت کا کیا ہوا۔
میں 1979 سے 1986 تک لندن میں مقیم تھا – کسی تارکین وطن کے طور پر نہیں ، بلکہ ایک طالبعلم کے طور پر–لیکن اس مدت میں برطانوی زندگی اور اس کی معاشرت کا میں نے اس قدر مشاہدہ کر لیا تھا کہ آج اس کو چھوڑنے کے 36 سال بعد بھی اس ملک نے کتنی ترقی کی ہے، اس کو بہتر طریقے سےسمجھ پاتا ہوں۔
میں 14 سال کا تھا، جب میرے والد لندن میں پوسٹیڈ تھے اور جب میں نیویارک گیا، تب میں 21 سال کا تھا۔ میں نے ان سات سالوں میں ساؤتھ لندن کے ورکنگ کلاس ایریا کے ایک کمپریہنسو اسکول سے اپنا او اور اے لیول مکمل کیا، اور لندن اسکول آف اکنامکس (ایل ایس ای) میں پڑھنےگیا۔ اس دوران مارگریٹ تھیچر انگلینڈ کی وزیر اعظم تھیں۔ اس وقت نیشنل فرنٹ اور برٹش نیشنل پارٹی کے فاشسٹ غنڈوں کے نسل پرستانہ تشدد کے واقعات عام تھے، اس کے ساتھ ہی پولیس کے نسل پرستانہ رویے – بالخصوص سیاہ فام کمیونٹی کے نوجوانوں کے ساتھ – زندگی کی ایک کھلی حقیقت تھی۔
مجھے کبھی کسی طرح کے جسمانی تشدد یا ذلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور نہ ہی نسل پرستانہ تبصروں سے میرا زیادہ سابقہ پڑا ۔ اسکول میں میرے پہلے یا دوسرے ہفتے میں لنچ بریک کے دوران فٹ بال کھیلتے ہوئے میرےپالے کاایک برطانوی بچہ مجھ پر چلایا، ‘پاس دی بال، اسٹین!’ (بال پاس کرو، اسٹین)۔ کھیل کے اختتام پر میں نے اسے بتایا کہ میرا نام اسٹین نہیں ہے، اوراس کے جواب پر میں قہقہہ لگائےبغیر نہیں رہ سکا، اس نے کہا تھا، ‘میرا مطلب پاکسٹین کے اسٹین تھا’۔ مجھے یاد آتا ہے کہ اس کے جواب میں توہین کا ذرا سا بھی شائبہ نہیں تھا–اس نے ‘پاکی’ والے حصے پر زور نہیں دیا تھا۔اس نے اور اس کے دوستوں نے میرا نام پوچھا اور کہا، اگر وہ مجھے ‘سڈ’ کہہ کر مخاطب کریں ،تو مجھے کوئی اعتراض تونہیں ہوگا!
اس دن سے مجھے کبھی بھی (ان گوروں سے بھرے) اسکول میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ لیکن یہ واضح تھا کہ برطانوی معاشرے کو نسل پرستی سے مسئلہ تھا، جسے آبادیاتی خوف دکھا کر اور برطانیہ کے تارکین وطن اور ان کے اولادوں کی حب الوطنی/وفاداری کے بارے میں بے بنیاد سوال (دائیں بازو کے سیاست دانوں کی طرف سے) اٹھا کر طول دیا گیا تھا۔
جب میں انگلینڈ پہنچا تو عوامی زندگی میں سیاہ فام اور جنوب ایشیائی زیادہ نظر نہیں آتے تھے، لیکن جب میں یہاں سے نکل رہا تھا،اس وقت تک حالات بدلنا شروع ہو چکے تھے۔ ہندوستانی نژاد کمیونسٹ شاپور جی سکلت والا کی1929 میں بیٹرسی سیٹ پر شکست کے بعد سے کوئی بھی جنوب ایشیائی یا سیاہ فام شخص ہاؤس آف کامنس میں نہیں پہنچا تھا۔ لیکن 1987 میں ڈاین اباٹ، پال بوٹینگ اور کیتھ واز اس کے لیے منتخب کیے گئے اور جلد ہی ایک سلسلہ چل نکلا۔
Thirty years ago today Paul Boateng, Keith Vaz, the late great Bernie Grant & myself elected to the British parliament #stillstanding pic.twitter.com/tEEZWD0MCN
— Diane Abbott MP (@HackneyAbbott) June 11, 2017
ایک ہندوستانی نژاد رکن پارلیامنٹ کے انگلینڈ کے وزیر اعظم کے عہدے تک کے غیرمعمولی سفر سے پہلے یہ میری مختصر سی روداد ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ رشی سنک کی زندگی کا تجربہ اکثر تارکین وطن خاندانوں کی نمائندگی نہیں کرتا ہے، لیکن کسی کے پاس بھی انگلینڈ کا وزیر اعظم بننے والے مردوں یا عورتوں (تمام سفید فام) کی زندگی کا تجربہ نہیں ہے۔ برطانیہ میں زندگی کا ایک پہلو کئی دہائیوں سے نہیں بدلا ہے، اور وہ یہ ہے کہ یہاں کلاس (طبقہ) نسل کے نہلے پر دہلے کا کام کرتا ہے۔ لیکن یہ قصہ پھر کبھی۔
ہندوستان میں ہندوستانیوں نے سنک کی تاج پوشی کی خبر کا خوشگوار حیرت اور فخر کے ساتھ خیر مقدم کیا۔ سنک کے لیے یہ ایک غیر معمولی شخصی حصولیابی ہے۔ لیکن اس عظیم الشان علامتی لمحے پر فخر کرنے کا سب سے زیادہ حق برطانوی عوام کو ہے۔ انہوں نے اپنے تنوع اور بوقلمونی کو قابل ذکر طریقے سے قبول کیا اوراس کا جشن منایا اور وہ ایسا کرنے والا واحد یورپی ملک نہیں ہے۔
آئرلینڈ اور پرتگال دونوں کے وزرائے اعظم ہندوستانی نژاد رہے ہیں۔ لیکن ہندوستان میں ہندوستانیوں کو خوشی منانے کے بجائے حقیقت میں سنجیدگی سے اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ ہزاروں سال سے ہماری زندگی کا اٹوٹ حصہ ر ہے ہمارے مذہبی تنوع اور ثقافتی تکثیریت کا کیا ہوا؟ اس کے ساتھ ہی ذات پات کی بنیاد پر بہت سی برادریوں کے حقیقی یا علامتی بائیکاٹ کی اپنی تاریخ پر بھی غور کرنا چاہیے۔
پچھلی بار جب سنک وزیر اعظم کے عہدے کے بڑےدعویداروں میں سے ایک تھے (جس میں وہ اس وقت کامیاب نہیں ہوئے تھے) تب کانچہ ایلیا نے اس ‘عیسائی’ برطانیہ کے ذریعے، ان کے لفظوں میں، اب کے ‘ہندو’ ہندوستان کو رواداری کے بارے سکھائے جا رہے سبق کی جانب ہماری توجہ مبذول کرائی تھی:
‘برطانیہ نے ایک عیسائی نوآبادیاتی سامراج چلایا، پھر بھی آج وہی برطانیہ سنک کو اعلیٰ عہدے کے لیے مقابلہ کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔ برطانیہ میں اپوزیشن کے کسی رہنما حتیٰ کہ ان کی اپنی پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے دیگر امیدواروں نے بھی ان کے مذہب پر سوال نہیں اٹھایا ہے۔ ان کے دولت کے بارے میں، ہاں۔ محنت کش طبقے کے ساتھ ان کے رویے کے بارے میں، ہاں۔ اور ان کی بیوی کے ذریعےٹیکس چوری کے بارے میں، ہاں۔ کسی جمہوریت کے لیے یہ سب بہت اچھے سوال ہیں۔ (یہ الگ بات ہے کہ ہندوستان میں یہ سوال شاید ہی کبھی پوچھے جاتے ہیں)’
اس صورتحال کا موازنہ ہندوستان سے کیجیے، جہاں حکومت میں ایک بھی مسلم وزیر نہیں ہے اور جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار نےہندوستان کو مذہب، بالخصوص اسلام کے سوال پر پولرائز یشن کو اپنا مشن بنا لیا ہے۔ پارٹی لیڈر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے اور اپنے ہندوتوا کا دعویٰ کرنے سے پہلے ایک پل کے لیے بھی نہیں سوچتے۔ برطانیہ کے برعکس، ہندوستان کے حکمران نظام کی سیاسی بحث میں مذہب کا سوال سب سے اہم ہو گیا ہے۔
حتیٰ کہ وزیر اعظم مودی بھی اس سیاست میں شامل ہونے سے گریزنہیں کرتے۔ نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری کی الوداعی تقریب میں ان کی تقریر کو یاد کیجیے، جس میں انہوں نے ایک کامیاب کیریئر والے سفارت کار اور سیاستدان کو ایک ایسے شخص میں محدود کر دیا جن کا کیریئر اسلام سے متعلق پوسٹنگ کی ایک ‘منڈلی’ (سرکل ) تک محدود تھا۔
یا پھر شہریت (ترمیمی) ایکٹ کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے بارے میں ان کا یہ بیان کہ کچھ لوگوں کو ان کے کپڑوں سے پہچانا جا سکتا ہے۔ 2019 کے عام انتخابات کے وسط میں اپنی ایک تقریر میں انہوں نے وایناڈ، جہاں اقلیت زیادہ ہیں، سے انتخاب لڑنے کے لیے راہل گاندھی کا مذاق اڑایا۔
یوگی آدتیہ ناتھ جیسے دیگر بی جے پی لیڈر اپنی تقریروں میں اس سے کہیں زیادہ بیہودہ زبان استعمال کرتے ہیں،جیساکہ مودی اپنے وزیر اعلیٰ کے دور کے ابتدائی دنوں میں کیا کرتے تھے۔ لیکن ایک بڑی تصویر یہ ہے کہ ہندوستان کی اقلیتیں،بالخصوص مسلمان ہر محاذ سے ہورہے حملوں کے بیچ خود کو گھرا ہوا پاتا ہے- ہندوستان کے ساتھ ان کے رشتے پر اسی طرح سے حملہ کیا جاتا ہے، جس طرح برطانیہ میں کئی دہائیوں تک نسل پرستوں نے سیاہ فام اور ایشیائی لوگوں پر کیا۔
شہروں،محلوں، ٹرینوں کے ‘مسلمان لگنے والے ‘ ناموں کو بدلا جا رہا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کو نیچا دکھانے یا خاموش کرنے کے لیے اسکول کی نصابی کتابوں میں تبدیلی کی جارہی ہے۔ غیر قانونی کام کرنے کے الزام میں کسی بھی مسلمان کے گھر عدالت میں کسی بھی سماعت سے قبل سزا کے طور پر گرائے جا رہے ہیں اور عدالت اس پر کوئی نوٹس لینا ضروری نہیں سمجھتی۔
ہندوستان کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کاخواب دیکھنے کی جگہ، مسلمان ہر جگہ روپوش رہنے میں ہی حکمت دیکھتے ہیں۔ تنوع کی علامتوں کا پوشیدہ رہنا ہی سب سے اچھا سمجھا جاتا ہے ورنہ انہیں سزا ہو سکتی ہے۔ یہ جدید ہندوستان کی کریہہ سچائی ہے اور جتنی جلدی ہم اس کو سمجھ لیں اور اسے بدلنے کے لیے کام شروع کریں اتنا ہی بہتر ہوگا۔
(اس مضمون کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر