چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور ملٹری طاقت کی وجہ سے بیجنگ کے گریٹ ہال میں منعقد چینی کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں کانگریس پر سب کی نگاہیں ٹکی ہوئی تھیں۔ اس طرح کی کانگریس پانچ سال کے بعد ہوتی ہے، اس میں حکومت کی کارکردگی پر بحث و مباحثہ کیا جاتا ہے اور مستقبل کے لیے پالیسی ڈائریکشن دی جاتی ہے۔
چند سال قبل تین سینئرہندوستانی صحافیوں کی معیت میں مجھے چین کے دورہ کے دوران تبت اور اس کے متصل یوننان صوبوں کے دو ردراز دیہی علاقوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔ بلند و بالا پہاڑوں میں واقع دیہاتوں میں ضرورت کی ہر چیز اور جدید وسائل سے مالا مال اسکول و دیگر ادارے وغیرہ دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ ترقی بس پچھلی ایک دہائی کی دین ہے۔
تقریباً ہر دیہات کے کمیونٹی سینٹر میں اس علاقے کی پرانی تصویریں اور ماڈل رکھے ہوئے ہیں، تاکہ یہ سند رہے کہ ایک یا دو دہائی قبل اس گاؤں کی تصویر کیسی تھی۔ چین کی اس بے مثال ترقی کی وجہ سے کروڑوں افراد غربت کی لکیر سے نکل کر مڈل کلاس کے زمرے میں آگئے ہیں۔
اگر بتایا جائے کہ ان دور دراز علاقو ں میں سڑکوں پر سونا بچھایا گیا ہے، تو بے جا نہ ہوگا۔ ہندوستان کے دور افتاد ہ اور پسماندہ اروناچل پریش کے توانگ علاقہ کی سرحد کے دوسری طرف چین کا زڈانگ شہر خوبصورتی، جدید وسائل اور بلند و بالا عمارتوں کے معیارکو لےکر کسی بھی یورپی شہر کو شرمند ہ کرسکتا ہے۔
تبت کے دارلحکومت لہاسہ کی دو پہاڑیوں کے درمیان ایک مصنوعی جھیل بنائی گئی ہے۔ بلندی پر واقع دلائی لامہ کی سابق رہائش گاہ پوٹالہ پیلس سے اس کا نظارہ نہایت ہی خوش نما ہے۔ اس جھیل کے کنارے اس کا انچارج انجینئرمترجم کے ذریعے ہمیں بتا رہا تھا کہ اس جھیل کو بنانا سول انجینئرنگ کے نقطہ نظر سے نہایت ہی مشکل کام تھا، کیونکہ دریائے لہاسہ کا لیول اس کے نیچے تھا، اس لیے دریا کے بیڈ کو بلاسٹ کرناپڑا۔
جب میرے ایک ساتھی نے سوال کیا کہ اس پروجیکٹ کی تعمیر میں کتنا وقت لگا، تو اس چینی انجینئر نے نہایت ہی ندامت اور پشیمانی کے ساتھ جواب دیاکہ اس جھیل کو بنانے میں ڈیڑھ سال کا وقفہ لگا۔ اس کے خیال میں یہ بہت زیادہ وقت تھا۔ ہم ہنس پڑے۔ جنوبی ایشیاء میں ہمارے ملکوں میں تو پروجیکٹ رپورٹ بنانے میں ہی کئی دہائیاں بیت جاتی ہیں۔
چین اور ترکی دو ایسے ممالک ہیں، جو 70 اور 80ء کی دہائیو ں میں زندگی کے معیار کے حوالے سے ہندوستان اور پاکستان سے بھی گئے گزرے تھے۔ گو کہ یہ بحث طلب امرہے کہ کیا اقتصادی ترقی و خوشحالی،آزادی اظہار کا نعم البدل ہوسکتی ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ چند دہائیوں میں ہی ایک مؤثر، پر خلوص اور سنجیدہ لیڈرشپ کی بدولت یہ ممالک ترقی کی منزلیں طے کرتے گئے اور ا ن کا ہر شہر یا گاؤں اس وقت ٹکنالوجی پر مبنی ضروریات زندگی، بنیادی ڈھانچہ، وسائل اورعوام کو سوشل سیکورٹی کور دینے کے اعتبار سے یورپ یا امریکہ سے کہیں آگے ہیں۔
سال 1978میں چینی لیڈر دنگ زیاو پنگ نے معاشی اصلاحات کو جو بیڑا اٹھایا اور جس طرح اب موجودہ سربراہ شی جن پنگ نے ان کو آگے بڑھایا، اس نے چاہے ملٹری ہو یا اقتصادی وسائل، چین کو تقریباً امریکہ کے برابر کھڑا کر دیا ہے۔دنگ زیا و پنگ نے جس وقت آہنی دیوار میں شگاف کرکے معاشی لبرلائزیشن کا اعلان کرکے مارکیٹ اکانومی کو اپنایا، تو تب تک چینی کمپنیاں اس لیول تک پہنچ چکی تھی کہ وہ مغربی دنیا کی مسابقت کر سکیں۔
مغربی کمپنیوں کو چین جیسی وسیع مارکیٹ تو ملی، مگر اس سے بڑی مارکیٹ چینی کمپنیوں کو حاصل ہوگئی۔ اس کے برعکس ہندوستان نے جب 1991میں معاشی لبرلائزیشن کا اعلان کیا، تو اس کی کمپنیاں مسابقت کے لیے تیار ہی نہیں تھیں۔ جس کی وجہ سے ملک میں مینوفیکچرنگ تقریباً منجمد ہو گئی ہے۔ ہندوستان کی اپنی ایمبسڈر کار، جس کی مارکیٹ پر اجارہ داری تھی، لبرلائزشن کے بعد نظر ہی نہیں آرہی ہے۔ ہاں انگریزی زبان سے واقفیت کی وجہ سے سروس سیکٹر میں ہندوستان کو برتری مل گئی۔
امریکہ کی 19.4ٹریلین ڈالر کے مقابلے چین کی اکانومی کا حجم 12.2ٹریلین ڈالر ہے۔ دس سال قبل یہ تین ٹرلین ڈالر سے بھی کم تھی۔ 2011میں ہوجن تاؤ کے اقتدار کے آخری مہینوں کی سب سے بڑی خبر تھی کہ چین نے جاپان کی اکانومی جو ان دنوں تین ٹریلین ڈالر کے لگ بھگ تھی، کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
جاپا ن اس وقت چار ٹریلین ڈالر کی اکانومی کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے اور چین سے کوسوں پیچھے ہے۔ لگ بھگ چین کی ہی جتنی آبادی والے ملک ہندوستان کی اکانومی کا حجم بس 2.6ٹریلین ڈالر ہے۔ الیکٹرک کاریں بنانے میں چین اس وقت ورلڈ لیڈر ہے۔
چین کی اسی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور ملٹری طاقت کی وجہ سے بیجنگ کے گریٹ ہال میں منعقد چینی کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں کانگریس پر سب کی نگاہیں ٹکی ہوئی تھیں۔ اس طرح کی کانگریس پانچ سال کے بعد ہوتی ہے، اس میں حکومت کی کارکردگی پر بحث و مباحثہ کیا جاتا ہے اور مستقبل کے لیے پالیسی ڈائریکشن دی جاتی ہے۔
اس کانگریس کے اختتام پر فیصلہ کیا گیا کہ جنگی جذبے کے ساتھ اندرونی چیلنجز کا مقابلہ کیا جائےگا اور دنیا میں طاقت کے بدلتے توازن کا بھر پور فائدہ اٹھاکر دنیا کے سامنے ایک نیا تزویراتی وژن رکھا جائےگا۔ یہ اشارہ اقوام عالم میں امریکہ کی گرتی ہوئی ساکھ اور چین کی طرف سے اس خلا کو پر کرنے کے عزم کا اظہار تھا۔ جس نے امریکہ اور مغربی ممالک میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔
بیجنگ میں ملک بھر سے آئے 2300ڈیلی گیٹس نے طویل مدتی اثرات کے حامل فیصلے کرتے ہوئے پارٹی کے ایک ڈھانچے کو بھی منظوری دی۔ یعنی ایک نئی 24رکنی پولٹ بیورو اور اس کے اند ر سات رکنی پولٹ بیورو اسٹینڈنگ کمیٹی (پی ایس سی)جو ایک طرح سے سپر کیبنٹ کاکام کرتی ہے، کا قیام عمل میں لایا۔
اس میں چار نئے چہروں، لی کیانگ، کائی کیو، ڈنگ زوکسیانگ، اور لی ڑی کو جگہ مل گئی اور ظاہر ہے کہ یہ چین کے مسقبل کے لیڈران ہوں گے۔ پرانے لیڈران میں ڑاؤ لیجی اور وانگ ہننگ نے اپنی رکنیت برقرار رکھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ 69 سالہ صدر شی جن پنگ، جن کو تیسری بار کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر کے طور پر اگلے پانچ سال کیلئے پھر منتخب کیا گیا، نےپی ایس سی کو اپنے وفاداروں سے بھر دیا ہے۔ جن اراکین کی طرف سے موہوم سی بھی اختلاف رائے کا خدشہ تھا، ان کو باہر کا راستہ دکھایا گیا ہے۔
اسی قد م نے مغربی ممالک کے تجزیہ کاروں کی نیندیں حرام کر کے رکھ دی ہیں۔ ان کے مطابق اس کا مقصد یہ ہے کہ ملک کی تاریخ کے سب سے زیادہ بااثر حکمران کے طور پراپنے آ پ کو منوانے کے بعد اب شی جن پنگ اب کوئی اہم قدم اٹھانے والے ہیں، جس کو منوانے اور عملی جامہ پہنانے کے لیے پارٹی اور حکومت کے اندر انہوں نے راستے صاف کر دیے ہیں۔ وہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی سیاست میں اتنی طاقت حاصل کرنے والے پہلے شخص بن گئے ہیں۔
اننت کرشنن، جو بیجنگ سے ہندوستان کے معروف اخبار دی ہندو کے لیے لکھتے ہیں،کا کہنا ہے کہ ماضی میں اختیارات عام طور پر مختلف پارٹیوں کے دھڑوں کے درمیان بٹتے تھے، مگر یہ شاید پہلی بار ہے کہ جب پوری طاقت شی نے اپنے ہاتھوں میں مرکوز کی ہے۔ صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے علاوہ، شی اب چینی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری،پی ایس سی اور پولیٹ بیورو دونوں کے سربراہ، چینی کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی فوجی کمیشن کے چیئرمین، اور عوامی جمہوریہ چین کے مرکزی فوجی کمیشن کے چیئرمین ہیں۔ تکنیکی طور پر یہ ایک ہی نام کے دو دفاتر ہیں۔ اگلے پانچ سالوں میں پارٹی کے اندر وہ اب اپنے سیاسی اور معاشی نظریہ کو وہ بہت آسانی کے ساتھ آگے بڑھاسکیں گے۔
دیگر تقرریوں میں، وزیر خارجہ وانگ یی (69) کو پولٹ بیورو میں ترقی دی گئی، جس کا مطلب ہے کہ وہ ریٹائر ہونے والے یانگ جیچی سے عہدہ سنبھالیں گے، جو اس وقت سنٹرل فارن افیئر کمیشن کے جنرل آفس کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ چینی ڈپلومیسی کا سب سے اونچا عہدہ ہے۔ وزیر خارجہ ان کو ہی رپورٹ کرتا ہے۔
امریکہ میں موجودہ سفیر کن گینگ کو سنٹرل کمیٹی کا ممبر بناکر ترقی دی گئی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اب اگلے سال مارچ سے ملک کے نئے وزیر خارجہ ہوں گے اور اسی کے ساتھ ہندوستان کے ساتھ سرحدی تنازعات پر بات چیت کے لیے خصوصی نمائندے کا عہدہ بھی سنبھالیں گے۔ پولٹ بیورو میں ایک اور تقرری لیو ہائیکسنگ کی ہے، جو معاون وزیر خارجہ تھے اور یورپی امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ روس یوکرین جنگ اور یورپ پر سفارتی توجہ کے تناظر میں یہ ایک اہم تقرری ہے۔
اسی کے ساتھ جنرل ہی ویڈونگ (65) کو سینٹرل ملٹری کمیشن کا نیا نائب چیئرمین نامزد کیا گیاہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ انہیں سخت تناؤ کے دوران بھارت کی سرحد سے متصل مغربی تھیٹر کمانڈ میں فوج کی قیادت کرنے کے لیے یہ صلہ ملا ہے۔پولٹ بیورو میں کسی بھی خاتون کی عدم موجودگی اور نائب وزیر اعظم ہو چنہوا، سنکیانگ ریجن میں کمیو نسٹ پارٹی کے سابق سکریٹری چن کوانگو ا، لی کی چیانگ اور وانگ یانگ جیسے اعتدال پسند چہروں کے اخراج نے سبھی کو حیران کرکے رکھ دیا ہے۔ لی اور وانگ کو اپنی کم عمری کی وجہ سے کمیونسٹ پارٹی کے اعلیٰ اداروں میں لمبی اننگز کھیلنے کے لیے سمجھا جاتا تھا۔ دونوں نے کمیونسٹ یوتھ لیگ میں خدمات انجام دی تھیں، جو ایک زمانے میں ایک بااثر گروپ تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سپر کیبنٹ یا پی ایس سی نے نئے اراکین میں سب سے اہم تقرری شی جی پنگ کے 60 سالہ پرائیویٹ سکریٹری ڈنگ زوکسیانگ کی ہے۔ وہ اس وقت پولٹ بیورو کے سب سے کم عمر ممبر ہیں۔ ان کو ایک گیٹ کیپر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کیونکہ شی سے ملاقات سے قبل کسی کو بھی ڈنگ کی جانچ پڑتال سے گزرنا پڑتا تھا – وہ اس وقت مرکزی کمیٹی کے طاقتور ترین جنرل آفس کے سربراہ ہیں، جو اعلیٰ قیادت کے انتظامی امور کی دیکھ بھال کرتا ہے۔
اگرچہ، درجہ کے لحاظ سے وہ چھٹے نمبر پرہیں، مگر بتایا جاتا ہے کہ مستقبل میں بیجنگ میں اقتدار کی راہداریوں میں اہم کردار ادا کریں گے۔ وہ ایک ایسے شخص ہیں، جن کے اوپر دنیا بھر کے تجزیہ کاروں کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ وہ مستقبل میں چین میں کوئی اہم رول ادا کرسکتے ہیں اور شاید عنقریب میں ہی شی کے جانشین کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔ 2012 میں وہ 18ویں پارٹی کانگریس میں شنگھائی میونسپل پارٹی کمیٹی کی سیاسی اور قانونی کمیٹی کے سکریٹری بنائے گئے تھے اور مرکزی کمیٹی کے لیے منتخب ہوئے۔
اسی طرح 63 سالہ لی کیانگ، جنہوں نے زرعی مکینکس کے ساتھ ساتھ سماجیات کی تعلیم بھی حاصل کی ہے، کو بھی چینی سیاست میں ایک ابھرتے ہوئے ستارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ شنگھائی میں لاک ڈاؤن نے ان کی شبیہ کو نقصان پہنچایا ہے۔
وہ نہ صرف پی ایس سی کے دوبارہ ممبر منتخب ہوئے ہیں، بلکہ ان کو وزیر اعظم کے لیے بھی نامزد کیا گیا ہے۔ وہ مارچ 2023 میں عہدہ سنبھالنے والے ہیں۔65سالہ ڑاؤ لیجی پی ایس سی کے تیسرے نمبر کے رکن ہیں اور ان کے مارچ 2023 میں پی ایس سی کے چیئرمین بننے کی امید ہے۔ وہ 2017 سے ہی اس اعلیٰ ادارے کے رکن ہیں۔ وہ مرکزی کمیشن برائے نظم و ضبط کے سیکرٹری بھی ہیں۔ وہ پارٹی کے سب سے اعلیٰ داخلی کنٹرول ادارے جسے شی نے بدعنوانی کے خلاف مہم چلانے کے لیے بنایا تھا، کی سربراہی کرتے ہیں۔
انہوں نے پچھلے پانچ سالوں میں پارٹی اور حکومت کے 400اعلیٰ عہدیداروں کو سخت سزائیں دیکر کورپشن کے خلاف ایک طرح سے اعلان جنگ کیا ہوا تھا۔ 67سالہ وانگ ہننگ بھی 2017 سے پی ایس سی کے رکن تھے۔ انہیں کمیونسٹ پارٹی کے چیف نظریہ ساز کے طور پر جانا جاتا ہے اور ان کا پالیسی اور فیصلہ سازی پر خاصا اثر و رسوخ رہا ہے۔
ایک خاص بات یہ ہے کہ اگلے پانچ سال تک چونکہ فیصلہ سازی کا کلی اختیار شی کے پاس رہے گا، اس کا مطلب ہے کہ فیصلے زیادہ تیزی کے ساتھ ہوں گے۔ مگر اگر ان فیصلوں میں غلطی ہوتی ہے،تو اس کو ٹھیک کرنے کا کوئی نظام واضح نہیں ہے۔ چونکہ یہ فیصلے نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، اس لیے شاید مغربی ممالک یہ خدشات بجا ہیں کہ کہیں شی پاور مرکو زکرکے روسی صدر ولادیمیر پوتن کا رویہ نہ اختیار کریں۔ جنہوں نے یوکرین پر فوج کشی کرکے اس وقت مغربی دنیا کا ناطقہ بند کیا ہوا ہے۔
چین میں روایتی طور پر پارٹی اور حکومت کے اندر لیڈرشپ کو سخت احتساب کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ گو کہ فیصلہ سازی کے عمل کی خبریں باہر نہیں آتی ہیں، مگر اس پر خاصا بحث و مباحثہ ہوتا ہے اور صدر یا پارٹی سربراہ کو دیگر لیڈران کو قائل کرنے میں دانتوں پسینہ آتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق شی نے اس چیک اور بیلینس سسٹم کو کمزور کردیا ہے۔ مگر شاید شی کو چین کو فوجی فیلڈ اور ٹکنالوجی کے سیکٹر میں امریکہ کی برابری کرنے کی سخت جلدی ہے۔ اس لیے وہ کوئی اہم ٖ اور سخت فیصلے کرنا چاہتے ہیں، جو اسی صورت میں ممکن ہیں، جب ان کی اندر سے مخالفت نہ ہو اور پوری لیڈرشپ اس کے حق میں ہو۔
اس خدشہ کا سد باب کرنے کے لیے امریکہ نے چین کے خلاف مختلف بہانو ں کو لےکر کئی اقتصادی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا ہے، جس میں سب سے اہم چین کو سیمی کنڈکٹرز کی فراہمی روکنا ہوگا۔ امریکی کمپنیوں کے لیے چین سیمی کنڈکٹرز کی سب سے بڑی منڈی تھی۔ یہ کنڈکٹرز جدید خود کار ہتھیاروں، روبوٹ، سپر کمپوٹرز اور دیگر اعلیٰ تکنیکی اشیاء کے بنانے میں استعمال کی جاتی ہیں۔ مختصر مدت کے لیے شاید چین کی ترقی کی رفتار تھم تو سکتی ہے، مگر ماہرین کے مطابق اس کو روکنا مشکل ہے۔ ان سیمی کنڈکٹرز کو بنانے کے لیے نایاب زمینی معدنیات کا 80فیصد مارکیٹ چین کے پاس ہے۔
افغانستان میں بھی اس کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں، جو چین کی دہلیز پر ہی ہے۔ ماضی میں جب بھی چین پر پابندیا ں لگی ہیں، تو اس نے وہ اشیاء خود ہی بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
شاید اسی لیے اس 20 ویں کانگریس نے نئی لیڈرشپ میں انجینئر نگ بیک گراؤنڈ والے افراد کو کلیدی ذمہ داریاں دی ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ ملٹری کی جدید کاری اور تکنیکی ترقی پر شی کی پوری توجہ مرکوز ہوگی، تاکہ چین کو دنیا میں تکنیکی اعتبار سے بھی امریکہ کے ایک معتبر متبادل کے بطور پیش کیا جاسکے۔
Categories: عالمی خبریں, فکر و نظر