الزام ہے کہ انجینئرنگ کے 21 سالہ طالبعلم فیض رشید نے دہشت گردانہ حملے کا جشن مناتے ہوئے فوج کا مذاق اڑایا تھا اور مختلف میڈیا اداروں کی پوسٹ پر 23 تبصرے کیے تھے۔ عدالت نے رشید کو آئی پی سی کی دفعہ 153 اے کے تحت بھی قصوروار پایا۔
نئی دہلی: جموں و کشمیر کے پلوامہ ضلع میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) پر 2019 میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کا مبینہ طور پر جشن منانے کے معاملے میں کرناٹک کی راجدھانی بنگلورو کی ایک اسپیشل این آئی اے عدالت نےانجینئرنگ کے 21 سالہ طالبعلم کو پانچ سال قید کی سزا سنائی اور 25000 روپے کا جرمانہ عائد کیا۔
فیض رشید نے دہشت گردانہ حملے کے بعد کئی فیس بک پوسٹ پر توہین آمیزتبصرے کیے تھے۔
ایڈیشنل سٹی سول اینڈ سیشن جج [قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) سے متعلق مقدمات کی سماعت کرنے والے خصوصی جج] گنگادھر سی ایم نے یہ فیصلہ سنایا۔
فیض رشید 2019 میں طالبعلم تھے اور اس وقت ان کی عمر 19 سال تھی۔ وہ تقریباً ساڑھے تین سال سے حراست میں ہیں۔
عدالت نے رشید کو دفعہ 153اے (مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) اور 201 (شواہد کومٹانا) کے تحت مجرم قرار دیا۔ تاہم، سپریم کورٹ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے، ان کے خلاف دفعہ 124اے (سیڈیشن) کے تحت مقدمہ نہیں چلایا گیا۔
انہیں تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 153اے کے تحت جرم کے لیے تین سال قید اور 10000 روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ دوسری جانب تعزیرات ہند کی دفعہ 201 کے تحت اسے تین سال قید اور پانچ ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔
رشید کو غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کی دفعہ 13 کے تحت پانچ سال قید اور 10 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ تمام سزائیں ایک ساتھ چلیں گی۔
رشید نے دہشت گردانہ حملے پر جشن مناتے ہوئے فوج کا مذاق اڑایا تھا اور مختلف میڈیا آؤٹ لیٹس کی پوسٹ پر 23 تبصرے کیے تھے۔
الزام ہے کہ فیض رشید نے پلوامہ حملے کے حوالے سے نیوز چینلوں کی طرف سے کی گئی کئی فیس بک پوسٹ پر تبصرہ کیا تھا۔ ان تبصروں میں حملے کا جشن منایا گیا تھا۔ فوجیوں کا مذاق اڑایا گیا تھااور حملہ آوروں کی تعریف کی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ہندو کمیونٹی کو ‘آنے والی چیزوں’ کی وارننگ دی گئی تھی۔
نیوز ویب سائٹ لائیو لا کی ایک رپورٹ کے مطابق، اس شخص نے نہ صرف حملے کا جشن منایا، بلکہ اس نے وزیر اعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دیگر رہنماؤں کی توہین آمیز تصویریں بھی پوسٹ کیں۔ اس نے دہشت گردانہ حملے کے ذمہ دار خودکش حملہ آور کی ایک تصویر بھی پوسٹ کی تھی۔
اس کے بعد رشید کے خلاف از خود نوٹس لے کر معاملہ درج کیا گیا اور اس پرآئی پی سی کی دفعہ 153اے (مذہب وغیرہ کی بنیاد پر گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 124اے (سیڈیشن) اور یو اے پی اے کی دفعہ 13 کے تحت الزام لگایا گیا تھا۔
رشید کے وکیل نے دلیل دی کہ اس کی عمر 21 سال سے کم تھی اور اس نے کوئی اور جرم نہیں کیا ہے۔ اسے پروبیشن پر رہا کیا جانا چاہیے۔ تاہم عدالت نے ان کی دلیل کو مسترد کر دیا۔
عدالت نے کہا کہ چونکہ جرم کے وقت اس کی عمر 19 سال تھی اس لیے رشید پروبیشن کا حقدار نہیں ہے۔ رشید نے جان بوجھ کر ایسا کیا۔
استغاثہ کی جانب سے عدالت کے سامنے الزامات کے ثبوت اور ملزم کے جرح کے دوران اپنا اعترافی بیان پیش کرنے کے بعد عدالت نے کہا:
ملزم نے ایک یا دو بارتوہین آمیز تبصرہ نہیں کیا ہے۔ انہوں نے فیس بک پر تمام نیوز چینلوں کی تمام پوسٹ پر تبصرے کیے۔ اس کے علاوہ وہ کوئی ان پڑھ یا عام آدمی نہیں تھے۔ جرم کے وقت وہ انجینئرنگ کے طالبعلم تھے اور اس نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر جان بوجھ کر پوسٹ اور تبصرے کیے۔
انہوں نے عظیم روحوں کے قتل پر خوشی محسوس کی اور عظیم روحوں کی موت کا جشن ایسے منایا جیسے وہ ہندوستانی نہیں تھے۔ لہٰذا ملزم نے جو جرم کیا ہے وہ اس عظیم ملک کے خلاف اور گھناؤنا ہے۔
عدالت نے مزید کہا کہ ملزم کی کارروائیوں سے ملک میں مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان ہم آہنگی کو خطرہ ہوا اور اس سے عوامی امن کی خلاف ورزی کا خدشہ تھا۔
اس کے علاوہ دفعہ 153اےکے تحت، عدالت نے پایا کہ کس طرح مسلم کمیونٹی کے کچھ ممبران نے رشید کے تبصرے کی حمایت کی اور ہندو برادری کے کچھ ممبران نے مسلمانوں کے بارے میں توہین آمیز تبصرے کر کے ان کی پوسٹ کا جواب دیا تھا۔
عدالت نے کہا:
ملزم نے اپنے ریمارکس میں رام مندر کا مسئلہ اٹھایا، جس سے ہندو برادری کے مذہبی جذبات بھڑکتے ہیں۔ انہوں نے یہ تبصرہ بھی کیا ہے کہ ایک مسلمان 40 آدمیوں کے برابر ہوتا ہے اور مسلمان لڑکے ہمیشہ مذاقیہ ہوتے ہیں۔ آگے یہ دکھانے کے لیے شواہد ہیں کہ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ملزم کے ریمارکس پر مشتعل ہوکر توہین آمیز تبصرے کیےتھے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں