فکر و نظر

رویش کمار کا بلاگ: یہ دور صحافت کی سیاست زدگی اور سیاست کی صحافت کاری کا ہے

گودی میڈیا بی جے پی کا جنرل سکریٹری سا بن گیا ہے۔ پورا گودی میڈیا پارٹی میں بدل چکا ہے۔ گودی میڈیا کے باہر میڈیابہت کم بچاہے۔ اسی لیےکئی  لوگ صحافت چھوڑ کر پارٹیوں کا کام کر رہے ہیں۔ آئی ٹی سیل اور سروے میں کیریئر بنا رہے ہیں۔

عام آدمی پارٹی نے گجرات کے آئندہ اسمبلی انتخابات میں سابق ٹی وی صحافی ایسودان گڑھوی کو وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے طور پر میدان میں اتارا ہے۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک)

عام آدمی پارٹی نے گجرات کے آئندہ اسمبلی انتخابات میں سابق ٹی وی صحافی ایسودان گڑھوی کو وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے طور پر میدان میں اتارا ہے۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک)

سیاست اور صحافت کے مابین کوئی باؤنڈری لائن نہیں رہ گیا ہے۔ گودی میڈیاایک  پارٹی کا بھونپو بن گیا ہے۔ اس پیشے میں بنے رہنے کے لیے کسی صحافی کو ذاتی سطح پر مالی، ذہنی اور قانونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

اطلاعات ہیں نہیں۔ ان کا حصول ناممکن بنا دیا گیا ہے، اطلاعات ہوتی ہیں تب بھی شائع نہیں ہوتیں۔ اوپر سے کبھی جیل، تو  کبھی ٹرول تو کبھی چھاپہ۔

دی وائر کے ساتھ کیا ہوا، آپ نے دیکھ کر بھی ان دیکھا کر دیا۔ وائر نے اپنی رپورٹ واپس لے لی، غلطی تسلیم کر لی، لیکن یہاں دو ہزار روپے کے نوٹ میں چپ بتانے والوں نے آج تک نہیں بتایا کہ وہ اطلاعات  کہاں سے ملی تھی؟ کس نے دی تھی؟

دی وائر کے دفتر اور مدیران  کے گھروں پر چھاپہ پڑتا ہے  اور لوگ ڈر سے اس خبرکو شیئر تک نہیں کرتے۔ پیغام جاتا ہے کہ عوام کو صحافت سے کوئی مطلب  نہیں ہے۔ اطلاعات کی صحافت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ بیانات کے حوالے سے تجزیہ کا ہی  میدان سب کے لیے بچا ہے۔

ایسودان گڑھوی نے صحافت چھوڑ کر سیاست کا راستہ کیوں اختیار کیا، یہ تو معلوم نہیں، لیکن انہوں نے یہ راستہ اختیار کیا۔ اس سے پہلے بھی لوگ صحافت چھوڑ کر سیاست میں گئے اور وہاں سے لوٹ کر صحافت کرتے رہے ہیں۔

گودی میڈیا بی جے پی کے جنرل سکریٹری سا بن گیا ہے۔ پورا گودی میڈیا پارٹی میں بدل چکا ہے۔ گودی میڈیا کے باہر میڈیا بہت کم بچا ہے۔ اسی لیے کئی  لوگ صحافت چھوڑ کر پارٹیوں کا کام کر رہے ہیں۔ آئی ٹی سیل اور سروے میں کیریئر بنا رہے ہیں۔

یہ دور صحافت کی سیاست  زدگی کا ہے اور سیاست کی صحافت  کاری کا۔

سیاسی جماعتوں کے بھی اپنے چینل ہو چکے  ہیں۔ ان کے ویڈیو بھی بدلنے لگے ہیں۔ کئی طرح کے کیمرے سے شوٹ ہوتا ہے، شاندار ایڈیٹنگ ہوتی ہے اور اب تحقیقی مواد بھی ہوتا ہے۔ کئی ترجمان  اینکر کی طرح ویڈیو بنانے لگے ہیں۔

ہم نے صحافت چھوڑ کر کانگریس کی ترجمان بنیں سپریا سرینیت کی مثال دی تھی۔ پارٹیوں کے اندر پروپیگنڈہ صحافت پہلے سےکہیں زیادہ فروغ پا چکی  ہے۔ اب یہ پارٹی میڈیا کو بھی حقائق اور اس کی خاموشی پر چیلنج دیتی ہیں۔

سیاسی جماعتوں کے ماؤتھ پیس  ان کے ہی رہنماہوتے تھے،  لیکن اب ان کے ساتھ پیشہ ورانہ تجربہ اور مہارت رکھنے والے لوگ بھی کام کر رہے ہیں۔

ایسودان گڑھوی کے بارے میں کوئی بحث نہیں ہے۔ کون کرے گا؟ گودی میڈیا یہ سوال اٹھائے گا تو اپنے ہی اسٹوڈیو میں ذلیل ہونے لگ جائے گا۔

حال ہی میں، اروند کیجریوال نے الزام لگایا تھا کہ وزیر اعظم کے دفتر سے گودی میڈیا کو ہدایات دی جاتی ہیں کہ کس کو دکھایا جائے اور کس کو نہیں۔

اس کے بعد نیوز لانڈری نے ہیرین جوشی پر ایک رپورٹ کی، لیکن مرکزی دھارے اور وسائل سے مالا مال میڈیا نے ڈھنگ  کی پروفائل تک نہیں کی۔ کی ہوگی تو آپ  تلاش کریں اور ضرور پڑھیں۔ اس سوال پرگودی میڈیا ایسودان سے بحث نہیں کر پائے گا۔

سال 2017 میں جب یوگی آدتیہ ناتھ پہلی بار وزیر اعلیٰ بنے تو شلبھ منی ترپاٹھی ان کے میڈیا ایڈوائزر بنے۔ 2022 کے الیکشن میں شلبھ انتخاب بھی لڑے اور جیتے بھی۔ مشیر بننے اور الیکشن لڑنے کی روایت پرانی ہے۔ شلبھ نے شروع نہیں کیا۔

ایم جے اکبر نے کانگریس سے انتخاب لڑا۔ پھر سیاست چھوڑ کر صحافی بن گئے اور اب تو بی جے پی میں جا کر وزیر بھی  بن گئے۔ صحافی بھی سیاست میں آکر  پارٹیاں بدلتے ہیں۔

اب  توصحافی انفارمیشن کمشنر  بھی بنائے  جانے لگے ہیں۔ کیسے صحافی بنائے جاتے ہیں، یہ الگ بات ہے لیکن اس عہدے پر تقرری بھی سیاسی ہو چکی ہے۔

ایسودان گڑھوی شاید پہلے صحافی ہوں گے، جو اپنے پیشہ سے نکل کر وزیر اعلیٰ کے امیدوار بنائے گئے ہیں۔ یہ ایک بڑا خطرہ ہے۔ صحافی عام طور پر راجیہ سبھا کے راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔

اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ مجھے بھی رائے دینا شروع کر دیں۔ کئی  لوگ مذاق کرتے کرتے سنجیدہ ہوجاتے ہیں کہ سیاست میں آ جائیےاور الیکشن لڑلیجیے۔ میں سن کر خاموش ہو جاتا ہوں! اڈانی جی اپنا جہاز تو دیں گے نہیں، جس میں بیٹھ کر مودی جی کی طرح انتخابی مہم سے واپس آتے ہوئے فوٹو کھنچا سکیں۔ جب یہی نہیں کیا تو پھر الیکشن لڑنے کا کیا فائدہ! ایک فوٹو گھومتا ہے نہ ایسا، کیا آپ نے نہیں دیکھا؟

(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)