ای ڈبلیو ایس کے لیے 10 فیصد ریزرویشن کو برقرار رکھنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے کہا کہ ریزرویشن پر 50 فیصد کی حد کو بڑھانے کا وقت آ گیا ہے۔ یہ حد او بی سی اور معاشی طور پر کمزور طبقات کو ان کی آبادی کے تناسب میں مواقع سے محروم کر رہی ہے۔
نئی دہلی: بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے منگل کو ریزرویشن پر 50 فیصد کی حد کو ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے ملک گیر ذات پر مبنی مردم شماری کی اپنی مانگ کونئے سرے سے دہرایا۔
جنتا دل (یونائیٹڈ) کے لیڈراقتصادی طور پر کمزور طبقات (ای ڈبلیو ایس) کے لیے 10 فیصد ریزرویشن کو برقرار رکھنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلے میں تعلیمی اداروں اور سرکاری نوکریوں میں ای ڈبلیو ایس کے لیے 10 فیصد ریزرویشن کا اہتمام کرنے والی 103ویں آئینی ترمیم کو 3:2 کے اکثریتی فیصلے سے برقرار رکھا ۔ عدالت نے کہا کہ یہ کوٹہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔
نتیش کمار نے کہا، ‘سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا ، وہ مناسب تھا۔ ہم ہمیشہ ریزرویشن کی حمایت میں تھے۔ لیکن، اب وقت آگیا ہے کہ ریزرویشن پر 50 فیصد کی حد کو بڑھایا جائے۔ ریزرویشن کی یہ حد دیگر پسماندہ طبقات (اوبی سی) اور اقتصادی طور پر کمزور طبقات (ای بی سی) کو ان کی آبادی کے تناسب میں مواقع سے محروم کر رہی ہے۔
غور طلب ہے کہ نتیش کمار خود ایک او بی سی لیڈر ہیں، جنہوں نے منڈل کمیشن کی سفارشات کے بعد سیاست میں اپنی جگہ بنائی۔
انہوں نے مختلف سماجی گروہوں کی متعلقہ آبادی کے تازہ تخمینے کی ضرورت کو بھی دہرایا اور کہا کہ انہوں نے اسے گزشتہ سال بھی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ اٹھایا تھا۔
نتیش کمار نے کہا، ہمیں بتایا گیا تھاکہ ریاستیں اس طرح کی مردم شماری کر سکتی ہیں۔ ہم نے وہ مشق کی ہے۔ لیکن اسے قومی سطح پر بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ ذات پر مبنی مردم شماری کے معاملے پر دوبارہ غور کیا جائے۔
جے ڈی یو کی سابق اتحادی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے وزیر اعلیٰ کو ان کے بیان کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
بی جے پی کے ترجمان اروند کمار سنگھ نے الزام لگایا،معزز وزیر اعلیٰ غریب اشرافیہ طبقے کو ان کا حق ملنے کی وجہ سے واضح طور پر ناخوش ہیں۔ وہ اپنے موجودہ اتحادی پارٹی راشٹریہ جنتا دل کی زبان بول رہے ہیں۔
معلوم ہوکہ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کئی مواقع پر ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
گزشتہ سال مرکز نے اپنے حلف نامے میں ایک طرح سے ذات پر مبنی مردم شماری کو مسترد کر دیا تھا۔ مرکز نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ پسماندہ طبقات کی ذات پر مبنی مردم شماری ‘انتظامی طور پر مشکل اور بوجھل’ ہے اور مردم شماری کے دائرہ سے ایسی معلومات کو الگ کرنا ایک ‘احتیاطی پالیسی فیصلہ’ ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں