خبریں

منی پور: حکومت نے فرقہ وارانہ کشیدگی کا حوالہ دیتے ہوئے ریاست کی تاریخ پر مبنی کتاب پر پابندی عا ئد کی

منی پور حکومت نے آنجہانی بریگیڈیئر سشیل کمار شرما کی کتاب ‘دی کمپلیکسٹی کالڈ منی پور: روٹس، پرسیپشنز اینڈ ریئلٹی’ میں  درج معلومات کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی لگا دی ہے۔ کتاب میں منی پور ریاست کے ہندوستان میں الحاق سے متعلق تاریخ بیان کی گئی ہے۔

(فوٹوبہ شکریہ: سوشل میڈیا)

(فوٹوبہ شکریہ: سوشل میڈیا)

نئی دہلی: منی پور حکومت نے سوموار کو دی کمپلیکسیٹی کالڈ منی پور: روٹس، پرسیپشنز اینڈ ریئلٹی نامی کتاب پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ‘بالکلیہ گمراہ کن اور قابل مذمت’ مواد ہے جو فرقہ وارانہ تعصب  کو ہوا دے سکتا ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، آنجہانی بریگیڈیئر سشیل کمار شرما کی یہ کتاب ریٹائرڈ سی آر پی ایف افسر کے پی ایچ ڈی کے مقالے پر مبنی تھی، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ریاست منی پور میں ہندوستان سے الحاق کے وقت وادی کے صرف 700 مربع میل پر محیط تھی، جس کا مطلب یہ تھا کہ پہاڑی علاقے – جو نگا، کوکی اور دیگر قبائل کے  کے ذریعے آباد ہوئے – اس کا حصہ نہیں تھے۔

محکمہ داخلہ کی طرف سے جاری کردہ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ‘منی پور مرجر ایگریمنٹ’ سے متعلق تاریخ ریاست کے باشندوں کے لیے انتہائی حساس اور جذباتی موضوع ہے۔ یہ معلومات ریاست میں رہنے والی مختلف برادریوں کے درمیان امن اور ہم آہنگی کو بگاڑ سکتی ہے، جس کے باعث قومی سلامتی اور سالمیت پر اثر پڑ  سکتا ہے۔

اس نے واضح کیا کہ وائیوا بکس  کی طرف سے شائع کی گئی کتاب میں دی گئی معلومات 1950 میں ‘ہندوستانی ریاستوں پر وہائٹ پیپر’ کے عنوان کے تحت  وزارتِ مملکت (اب وزارتِ داخلہ) کی طرف سے سے شائع کیے گئے گزٹ کے برعکس  ہے۔ آرڈر میں کہا گیا ہے کہ 15 اکتوبر 1949 کو انضمام کے وقت منی پور کا رقبہ 8620 مربع میل اور کل آبادی 512000 تھی۔

واضح ہو کہ اس کتاب پر تنازعہ چند ماہ قبل شروع ہوا تھا، جب مقامی تنظیموں نے اس پر پابندی عائد کرتے ہوئے مصنف اور اس کے ریسرچ گائیڈ ، جس میں  منی پور یونیورسٹی کے ایک ریٹائرڈ پروفیسر بھی شامل ہیں ،سے معافی مانگنے کو کہا تھا۔

آرڈر میں کہا گیا ہے کہ ‘انتہائی گمراہ کن، غلط معلومات اور قابل مذمت بیانات’ پر مشتمل کتاب  کی وجہ سےوادی اور پہاڑی علاقوں میں رہنے والی برادریوں کے درمیان غلط فہمی اور تناؤ پیدا ہوگا، جو تشدد کا باعث بن سکتا ہے۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ کتاب کو حکومت کو ضبط کر لینا چاہیے۔

اس کتاب کو لے کر مئی کے مہینے سے تنازعہ چل رہا تھا اور ستمبر کے مہینے میں ریاست کی بی جے پی حکومت نے حکم دیا تھا کہ اب سے ریاست کی تاریخ، ثقافت، روایت اور جغرافیہ کی تمام کتابوں کو اشاعت سے پہلے ریاست کی طرف سے مقرر کردہ کمیٹی  کی منظوری لازمی طور پر لینی  ہو گی۔