اپوزیشن کی طرف سے اٹھائے گئےاقتصادی اور سماجی سروکاروں نے بی جے پی کو اس کے ‘گجراتی گورو’ پر بھروسہ کرنے کے لیے مجبور کر دیا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کی انتخابی مہم کا رخ ہندوتوا سے ترقیاتی اسکیموں کی جانب موڑ دیا ہے۔
یہ دیکھتے ہوئے کہ گجرات اسمبلی انتخابات کے مدنظر وزیر اعظم نریندر مودی اب تک 16 انتخابی ریلیاں کیں اور ہزاروں کروڑ کے ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کر چکے ہیں، یہ واضح ہے کہ برسراقتدار بی جے پی نے 2017 میں اپنا سبق سیکھ لیا ہے۔ اس کے بعد سے اس نے لگاتار 20 سال تک اقتدار میں رہتے ہوئےالیکشن جیتا تھا، لیکن پاٹیدار تحریک اور ریاستی سطح پر زرعی بحران سمیت متعدد تحریکوں سے ملی کڑی ٹکر سےیہ 182 سیٹوں میں 99 سیٹوں کے ساتھ نچلے پائیدان پر پہنچ گئی تھی۔
اس بار بھی بی جے پی کوئی کورکسر نہیں چھوڑ رہی ہے۔ ایک سال پہلے اس نے پوری کابینہ میں ردوبدل کرتے ہوئے وجے روپانی کی جگہ بھروسے مند لیکن ناتجربہ کار بھوپیندر پٹیل کو وزیر اعلیٰ بنایا۔ 2017 سے 2022 تک اس نے کچھ آدی واسی اور پاٹیدار ایم ایل ایےسمیت بااثر اپوزیشن لیڈروں، جنہوں نے بی جے پی مخالف جذبات کو ہوا دی تھی— کو بھی اپنے ساتھ جوڑا۔ پارٹی نے کئی تجربہ کار ایم ایل اے کے ٹکٹ کاٹ کر نئے چہروں کو میدان میں اتارا۔ وزیر اعظم، جن کی موجودگی 2017 کی مہم میں بین تھی، 2022 میں پارٹی کااصل سہارا ہیں۔
ان کی ریلیوں اور تقریروں میں چالاکی سے آدی واسی بیلٹ اور سوراشٹر کے علاقوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، جہاں 2017 میں بی جے پی کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ کانگریس اور اس کی اتحادی بھارتیہ ٹرائبل پارٹی نے ریاست کے شمالی کنارے سے پھیلےمدھیہ پردیش اور مہاراشٹر کی سرحد سے متصل جنوبی علاقوں میں آدی واسی بیلٹ میں 27 میں سے 18 سیٹیں جیتی تھیں۔ اسی طرح بی جے پی کو اپنے روایتی گڑھ سوراشٹر اور کچھ میں 54 حلقوں میں جھٹکا لگا تھا۔
وزیر اعظم کو ان انتخابات میں خصوصی دلچسپی نہ صرف اس لیے ہے کہ گجرات ان کی آبائی ریاست ہے اور یہ ان کی پارٹی کے لیے وقار کا مسئلہ ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی (اے اے پی) ریاست میں پہنچ چکی ہے۔عآ پ نے ریاست کے روایتی طور پر دو قطبی سیاسی مساوات کو بدل دیا ہے، جہاں وہ نہ صرف کانگریس بلکہ بی جے پی کے لیے بھی بنیادی چیلنج بن کر ابھری ہے۔
عآپ بھلے ہی اس میدان میں نئی کھلاڑی ہے، لیکن یہ کمزور حریف نہیں ہے۔ اس نے اپنے تمام وسائل ریاست میں لگا دیے ہیں اور دہلی کے سرکردہ رہنماؤں ستیندر جین، منیش سسودیا اور راجندر پال گوتم پر بی جے پی کے حملوں کے بیچ بھی جوش و خروش کے ساتھ انتخابی مہم چلا رہی ہے ۔ شہری نوجوانوں میں اس کا کریز بڑھ رہاہے۔
دو مہینے پہلے عآپ پر مودی کا’ریوڑی باٹنے’ کا طنز اس بات کا ثبوت تھا کہ کیجریوال کی پارٹی نے بی جے پی کے لیے خطرہ پیدا کیاہے۔ پہلی بار ایک قبائلی صدر بننے والی دروپدی مرمو کی حمایت کرنے سے کانگریس کے انکارکو لے کر راہل گاندھی کو تنقیدکا نشانہ بنایا، بھارت جوڑو یاترا کو نرمدا ڈیم مخالف کارکن میدھا پاٹکر کی حمایت یا مسلمانوں کے اپیزمنٹ کی سیاست کرنے والے کے طور پر کا مذاق اڑانا بی جے پی لیڈروں کی تقریروں کے مرکز میں ہیں۔
تاہم، عآپ کوکنارے کرنا مشکل ہو گیا ہے، جس نے بی جے پی کو کیجریوال اور دیگر کے خلاف زورو شور سے فیک نیوز کی مہم چلانے پر مجبور کر دیا ہے۔ گجرات کی سڑکوں پر بی جے پی کارکنوں کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ کیجریوال کی جڑیں اسلامی ہیں؛ یا وہ ہندو مخالف ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں؛ یا کرپٹ ہیں۔
عآپ نے بی جے پی کو مجبور کیا کہ وہ اپنی مہم کو ہندوتوا سے موڑ کر’وکاس’ کی جانب لے جائے، جیسا کہ اس کے انتخابی وعدوں سے ظاہر ہے۔ ایک حالیہ تقریر میں مودی نے کہا کہ انتخاب ایم ایل اے کو منتخب کرنے کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ گجرات کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے بارے میں ہے۔ موجودہ گجرات کے لیے کریڈٹ لیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گجرات کے لیے’بڑی چھلانگ’ لگانے کا وقت ہے، یہ طے کرنے کا وقت ہے کہ یہ اگلے 25 سالوں میں کیسا ہوگا۔ عام آدمی پارٹی کے فلاحی ماڈل کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں ان کی تقاریرمیں بی جے پی حکومت کی تعلیمی اور سماجی شعبوں میں حصولیابیوں پر زور رہتا ہے۔
زیادہ تر سروےنے بی جے پی کی ایک اور جیت کی پیش گوئی کی ہے، لیکن یہ آسان نہیں ہوگا۔ اگرچہ اس نے 2017 میں اس کے خلاف صف آرا بااثر پاٹیدار برادری کو 10فیصد ای ڈبلیو ایس ریزرویشن اور چیف منسٹر کے طور پر ایک ایک پٹیل لیڈر دے کر مطمئن کیا ہے، پھر بھی اسے ریاست بھر میں مختلف ذاتوں اور برادریوں کی طرف سے کم از کم 32 حالیہ احتجاجی تحریکوں سے نمٹنا ہوگا۔
ایک حالیہ سی ایس ڈی ایس–لوک نیتی پری پول سروے سے پتہ چلتا ہے کہ کانگریس اور عآپ کے درمیان اپوزیشن کے ووٹوں کی تقریباً مساوی تقسیم کے ساتھ، عام آدمی پارٹی بی جے پی کو 2017 کے مقابلے زیادہ سیٹیں جیتنے میں مدد کر سکتی ہے، لیکن اس کا ووٹ شیئر گر سکتا ہے۔
تاہم، بہت سے عآپ لیڈروں کو یہ تجزیہ بہت آسان لگتا ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ان کی پارٹی 48 شہری سیٹوں، جو کانگریس نے کبھی نہیں جیتی ہے، پر بی جے پی کے امکانات کو نقصان پہنچائے گی۔ عآپ شاید جیتنے کی پوزیشن میں نہ ہو، لیکن یہ بی جے پی کے روایتی ووٹ شیئر کا ایک اہم حصہ چھین سکتی ہے، جبکہ کانگریس کی شہری موجودگی میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
سی ایس ڈی ایس–لوک نیتی سروے کے مطابق،عآپ کو 20فیصد سے زیادہ ووٹ ملنے، خود کو مضبوط کرنے اور مستقبل میں بی جے پی کے لیے ایک بڑا چیلنج پیش کرنے کا امکان ہے۔
کانگریس نے راہل گاندھی کی ایک زبردست ریلی کے ساتھ اچھی شروعات کی تھی، جس میں انہوں نے اہم وعدے کیے، لیکن یہ پھیکا پڑ گیا۔ اس کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ پارٹی نے پچھلے ایک سالوں میں ڈورٹو ڈور مہم پر زیادہ توجہ دی ہے اور یہ جتنا نظر آ رہی ہے اس سے کہیں زیادہ مضبوط پوزیشن میں ہو سکتی ہے۔ کانگریس نے اپنی بنیاد، جس میں او بی سی، دلت، مسلمان اور قبائلیوں کا ایک حصہ شامل ہے، کو کو مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے اٹھائے گئے اقتصادی اور سماجی سروکار نے بی جے پی کو اپنے ‘گجراتی گورو’ کی مہم پر بھروسہ کرنے کے لیے مجبور کر دیا ہے۔ یہ زور دے کر کہہ رہی ہے کہ ہندوستان کے سرکردہ دو رہنما گجرات سے ہیں اور انہوں نے گجراتیوں (اور ہندوستانیوں) کو بین الاقوامی سطح پر اپنا سر بلند رکھنے میں مدد کی ہے۔ ریاست کے 46فیصد شہری متوسط طبقے کے لیے یہ سب سے اہم پہلو معلوم ہوتا ہے۔
(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر