گزشتہ دنوں نریندر مودی حکومت نے سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے ایک حلف نامے میں کہا ہے کہ ‘مذہب کی آزادی کے حق میں دوسرے لوگوں کو کسی خاص مذہب کے اختیار کرنے کا بنیادی حق شامل نہیں ہے’۔
حال ہی میں سپریم کورٹ میں تبدیلی مذہب کے ایک مقدمے کی کارروائی کے دوران نریندر مودی حکومت نے ایک رسمی حلف نامہ پیش کیا ہے، جس کےآزادیٴ ضمیراور آزادی سے مذہب قبول کرنےکی آئینی ضمانت پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ حکومت کے حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ ‘مذہب کی آزادی کے حق میں دوسرے لوگوں کو کسی خاص مذہب کے اختیار کرنے کا بنیادی حق شامل نہیں ہے’۔
یہاں المیہ یہ ہے کہ حکومت نے اپنی بات کہتے ہوئے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 25 کی بات کی ہے، جو ملک کےتمام افراد (صرف شہری ہی نہیں)کو صوابدید کی آزادی (آزادیٴ ضمیر) اور مذہب پر آزادانہ عمل اور تبلیغ کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ تاہم، اس کو تیار کرنے والے وزارت داخلہ کے عملے نے اسے رائٹ ٹو کانشینس کے بجائے کانشیس لکھ دیا ہے، مگر اس بات سےبھی صرف نظر کرتے ہیں۔
حکومت کی طرف سے پیش کی جانے والی سب سےبڑی دلیل یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے 1977 کے اپنے اسٹینسلوس فیصلے میں پہلے ہی کہا ہے کہ آرٹیکل 25 کے تحت ‘مذہب کی تبلیغ’کے حق میں مذہب تبدیل کرنے کا حق شامل نہیں ہے، بلکہ ایسا’کسی مذہب کے اصولوں کی تشریح نشر کرنے کے مثبت حق کے تناظر میں کہا گیا ہے۔
اس دلیل کا سیاق و سباق علمی نہیں ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی والی کئی ریاستوں نے کسی بھی مذہبی تبدیلی – اور خاص طور پر بین مذہبی شادیوں سے متعلق تبدیلی مذہب – کو جرم قرار دینے کے لیے سخت قوانین بنائے ہیں یااس کو پاس کرنے کی مانگ کر رہے ہیں،جنہیں حکومت کی منظوری حاصل نہیں ہے۔ گویا یہ کافی نہیں تھا کہ بی جے پی کے ایک عادی مقدمے باز نے اب سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے، اور ایک عرضی دائر کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ مرکزی حکومت اور تمام ریاستوں کو ہدایات دی جائیں جائے کہ وہ ‘دھوکہ دہی سےسے کی گئی تبدیلی پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کریں۔
مودی سرکار کے استدلال کی بنیادی خامی یہ ہے کہ کسی شخص ،مان لیں کہ ایکس کا اپنی پسند کے مذہب پر عمل کرنے، یا کسی بھی مذہب پر عمل نہ کرنے اور اسے اپنی مرضی سے تبدیل کرنے کا حق،ایکس کی صوابدید کی آزادی کے تحت آتا ہے اور اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ کسی شخص وائی کے مذہب کی تبلیغ کے حق میں دوسرے شخص کومذہب تبدیل کرنے کا حق شامل ہے یا نہیں۔
یہ دیکھتے ہوئے کہ ضمیر کی آزادی میں سیاسی افراد سمیت ہر طرح کا عقیدہ اور یقین شامل ہے، یہ ایکس کے کسی بھی سیاسی نقطہ نظر کی پیروی کرنے کے حق سے مطابقت رکھتا ہے۔ وائی کو حق حاصل ہے کہ وہ ایکس کو اپنی پارٹی میں شامل ہونے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کرے، لیکن وائی کے پاس ایکس کو ممبر کے طورپرشامل کرنے کا کوئی بنیادی حق نہیں ہے۔ آئین ایکس کو اپنے ضمیر کی آزادی کی بنیاد پر فیصلے کرنے کا حق دیتا ہے اور اس میں یہ طے کرنا بھی شامل ہے کہ کس مذہب کی پیروی کرنی ہے اور کس سیاسی جماعت کی حمایت کرنی ہے۔ ایک بار جب ایکس کسی خاص مذہب کو اختیار کرنے یا کسی خاص پارٹی میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیتا ہے، تو یقیناً یہ اس مذہب یا جماعت کے عہدیداروں پر منحصر ہے کہ وہ اسے اپنے رسم و رواج کے مطابق اپنے ساتھ شامل کریں۔
مذہب تبدیل کرنے والوں کا یا تو بپتسمہ ہوسکتا ہے یا ان کی ‘شدھی’ کی جا سکتی ہے، جبکہ سیاسی نظریات کو تبدیل کرنے والوں کی گلپوشی کی جا سکتی ہے اور ان کو لڈو کھلائے جا سکتے ہیں۔اب یہاں یہ مطالبہ کرنا کہ ایکس مقامی حکام کو مطلع کرے(وہ بھی پیشگی) کہ وہ کس پارٹی میں شامل ہونا چاہتا ہے، اسٹیٹ کے لیے آئین اور بنیادی جمہوری اخلاقیات کی خلاف ورزی ہوگی۔ ٹھیک اسی طرح ڈی ایم کو ان کے مذہبی عقیدے میں کسی تبدیلی کے بارے میں مطلع کرنے کی ضرورت بھی خلاف ورزی کے دائرے میں آئے گی۔
مذہب کی تبدیلی کو ریگولیٹ کرنے والے قوانین، مثلاً مدھیہ پردیش کے1968 کے مذہبی آزادی سے متعلق ایکٹ میں مذہب تبدیل کرنے والے کو حکومت کو پیشگی طور پرمطلع کرنے کو لازمی بنانے کے اہتمام کو لےکر ہچکچاہٹ تھی، لیکن گجرات اور مدھیہ پردیش میں نئے قوانین ایک قدم آگے بڑھ گئے ہیں، جہاں مذہب تبدیل کرنے والے شخص کو سب سے پہلے لازمی طور پر حکومت کی منظوری حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے پچھلے مہینے نئے مدھیہ پردیش فریڈم آف ریلیجن ایکٹ، 2021 کے آپریشن پر اس بنیاد پر روک لگا دی تھی کہ یہ پروویژن 2017 میں سپریم کورٹ کے ذریعے برقرار رکھے گئے پرائیویسی کے بنیادی حق کے خلاف ہے۔ عدالت نے جسٹس دیپک گپتا کے 2011 کے تاریخی فیصلے کا بھی حوالہ دیا (جب وہ ہماچل ہائی کورٹ کے جج تھے)، جس میں یکساں لفظوں والے ریاستی قانون کے حصوں کو ضمیر کی آزادی کی بنیاد پررد کیا گیا تھا:
‘ایک شخص کو نہ صرف صوابدید کی آزادی کا حق، عقیدے کا حق، اپنا عقیدہ بدلنے کا حق ہے، بلکہ اپنے عقیدے کو خفیہ رکھنے کا حق بھی ہے۔ بلاشبہ، پرائیویسی کا حق، کسی دوسرے حق کی طرح امن عامہ، اخلاقیات اور ریاست کے وسیع تر مفاد کے ماتحت ہے… تاہم، اس کا یہ مطلب نہیں کہ اکثریت کا مفاد ہی وسیع تر عوامی مفاد ہے۔ وسیع تر عوامی مفاد کا مطلب ملک کی سالمیت، اتحاد، خودمختاری اور عوامی امن و امان کو برقرار رکھنا ہے۔ صرف اس لیے کہ اکثریت کی رائے الگ ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہےکہ اقلیتوں کی رائے کو قتل کر دیا جا نا چاہیے…’
‘کسی آدمی کا گھر اس کی اپنی جگہ ہوتی ہے اور اس کے گھر میں کسی بھی طرح کی گھس پیٹھ کی اجازت نہیں ہے جب تک کہ کوئی آئینی بنیاد نہ ہو۔ انسان کا ذہن ایک ناقابل تسخیر قلعہ ہے جس میں وہ سوچتا ہے اور اس کے سوچنے کے حق پر اس وقت تک حملہ نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ وہ اپنے خیالات کو اس طرح پیش یا مشتہر نہ کر رہا ہو کہ اس سے عوامی انتشار پیدا ہو یا ملک کی سالمیت یا خودمختاری متاثر ہو۔’
‘کسی بھی انسان کو یہ بتانے کے لیے کیوں کہا جانا چاہیے کہ اس کا مذہب کیا ہے؟ کسی شخص سے یہ کیوں کہا جائے کہ وہ حکام کو بتائے کہ وہ اپنا عقیدہ بدل رہا ہے؟ اسٹیٹ کو کیا حق ہے کہ وہ مذہب تبدیل کرنے والے کو ہدایت دے کہ وہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو اس کے بغاوتی خیالات کی تبدیلی کے بارے میں پیشگی اطلاع دے؟’
‘کسی شخص کا عقیدہ یا مذہب اس کے لیے بے حدذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ اسٹیٹ کو کوئی حق نہیں کہ وہ کسی شخص سے پوچھے کہ اس کے شخصی عقائد کیا ہیں۔’
جسٹس دیپک گپتانے 11 سال پہلے جو بات کہی تھی اس کو پٹوسوامی فیصلے نے تقویت بخشی ہے۔ ضمیر کی آزادی پر اس خطرناک حملے کو آگے بڑھانے کی بی جے پی کی ریاستی حکومتوں کی کوششیں اور آرٹیکل 25 کو کمزور کرنے کی مودی حکومت کی کوششوں کی سختی سے مخالفت کرنے کی ضرورت ہے۔
(اس مضمون انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر