خبریں

فرضی ’آسٹن یونیورسٹی‘ کے ساتھ معاہدے پر یوپی حکومت کی تنقید، اپوزیشن کا وہائٹ پیپر کا مطالبہ

گزشتہ 18 دسمبر کو اتر پردیش حکومت نے ایک بیان میں کہا  تھاکہ اس نے آسٹن یونیورسٹی کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ اس کے تحت تقریباً 35000 کروڑ روپے کی لاگت سے 5000 ایکڑ اراضی پر ایک ‘سمارٹ سٹی آف نالج’ بنایا جانا ہے، جس میں دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کے کیمپس ہوں گے۔ اب پتہ  چلا ہے کہ یہ ‘یونیورسٹی’ ٹیکساس آسٹن کی ممتاز یونیورسٹی نہیں ہے۔

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

نئی دہلی: مبینہ طو رپرغیر موجود ‘آسٹن یونیورسٹی’ کے ساتھ ایک معاہدے (ایم او یو) پر دستخط کرنے کے لیے تنقید کا سامنا کرنے کے بعد اتر پردیش حکومت نے جمعرات کو واضح کیا کہ اس نے ریاستہائے متحدہ امریکہ (یو ایس اے)کے آسٹن کنسلٹنگ گروپ اے سی جی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا پر دستخط کیے تھے۔

اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے یہ بیان اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے غیر ملکی سرمایہ کاری پر وہائٹ پیپر جاری کرنے کے مطالبات کے درمیان جاری کیا ہے۔

دی ہندو سے بات کرتے ہوئے اتر پردیش حکومت کے ایک سابق وزیر اوراور معاہد ہ پر دستخط کیے جانے وقت  امریکہ گئے  وفد کا حصہ رہےسدھارتھ ناتھ سنگھ نے کہا کہ ایم او یو پر آسٹن کنسلٹنگ گروپ کے ساتھ دستخط کیے گئے تھے، نہ کہ آسٹن یونیورسٹی کے ساتھ ۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ایم او یو غیر پابند ہیں، اس لیے ہم پابند نہیں ہیں۔ ایم او یو حاصل کرنے کے بعدحکومت اتر پردیش آگے بڑھنے سے پہلے اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کرتی ہے۔

اتر پردیش حکومت کی طرف سے 18 دسمبر کو جاری کردہ بیان کے مطابق، اس نے آسٹن یونیورسٹی کے ساتھ ایک معاہدے(ایم او یو) پر دستخط کیے ہیں۔ ایہ ایم  او یو وزیر خزانہ سریش کھنہ، سابق وزیر سدھارتھ ناتھ سنگھ، انفراسٹرکچر اور صنعتی ترقی کے ایڈیشنل چیف سکریٹری اروند کمار کی موجودگی میں ہوا تھا۔

اس معاہدے کے تحت 42 بلین ڈالر (تقریباً 35000 کروڑ روپے) کی لاگت سے  5000 ایکڑ اراضی پر ایک ‘سمارٹ سٹی آف نالج’ بنایا جانا ہے، جس میں دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کے کیمپس ہوں گے۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، اتر پردیش کی حکومت کواس وقت  شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا، جب میڈیا رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی کہ امریکہ کیلی فورنیا ریاست نے پہلے ہی اس یونیورسٹی کے خلاف کارروائی کی ہے اور ‘غیر تسلیم شدہ ادارے’ کے طور پر اس کی حیثیت نومبر 2022 میں رد کردی گئی تھی، کیونکہ ایک معائنہ کے دوران یہ پایا گیا تھا یونیورسٹی کی عمارت خالی تھی۔

اس معاملے کو لے کر شروع ہوئے تنازعہ کے درمیان سماج وادی پارٹی کے صدر اور ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے الزام لگایا کہ سرمایہ کاری کا ایک پیسہ بھی بیرون ملک سے نہیں آیا ہے۔ انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی بی جے پی حکومت سے کہا ہے کہ وہ ‘سرمایہ کاری کے نام پر لوگوں کو گمراہ نہ کریں’۔

اکھلیش نے کہا، ‘بی جے پی حکومت کو بتانا چاہیے کہ پچھلی سرمایہ کاری کانفرنس میں اتر پردیش میں کتنا سرمایہ لگایا گیا اور کتنے لوگوں کو روزگار ملا؟ سچ تو یہ ہے کہ بی جے پی حکومت کے دور میں ایک بھی صنعت زمین پر نظر نہیں آتی۔ ہم وہائٹ پیپر کا مطالبہ کرتے ہیں۔

انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا، ‘یوپی میں سرمایہ کاری لانے کے نام پر وزیروں کو عوام کے پیسے پر بیرون ملک لے جایا جا رہا ہے اور فرضی معاہدہ کر کے جھوٹا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ بی جے پی حکومت کو بتانا چاہیے کہ پچھلی بار جو  سرمایہ کاری کے معاہدے ہوئے تھے، ان  کا حساب و کتاب کب دے گی یا وہ بھی ‘پندرہ لاکھی جملہ ‘ کی طرح کھوکھلے تھے۔

یوپی کانگریس نے ٹوئٹ کیا، ‘گول مال ہے بھائی سب گول مال ہے! یا بابااور  صاحب کےوزیر ہوں یا افسر، ان کے گھپلے باز ی کے لیے سب جگہ  ایک برابر  ہے۔ کیا انڈیا، کیا امریکہ؟ ویسے اس بار انویسٹر میٹنگ کے نام پر تو بڑا ہاتھ مارا ہے۔ سرکاری خرچ پر گھوم بھی آئے اور اپنی کارستانی بھی امریکہ تک دکھا دی۔

ادھر، نئی دہلی میں وزارت خارجہ نے کہا کہ اس نے ایم او یو تنازعہ کے بارے میں رپورٹس دیکھی تھی، لیکن کہا کہ وہ وفد کے دورے کے نتائج کے لیے ذمہ دار نہیں ہے اور یہ کہ ایم او یو پر ریاستی حکومت نے ‘براہ راست’ بات چیت کی تھی۔

نئی دہلی میں ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا،ہاں، ہمارے قونصل خانے (امریکہ میں) نے (یوپی حکومت) کے وفد کے ساتھ تعاون کیا تھا، لیکن ایم او یو پر تفصیلات کے لیے میں آپ کو ریاستی حکومت  سے رجوع کرنے کے لیے کہوں گا۔

ایک اور سوال پر کہ کیا چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کے دورہ امریکہ کے لیے منظوری مانگی گئی تھی، ایم ای اے کے ترجمان نے کہا کہ ان کو اس کی جانکاری نہیں ہے۔

غورطلب ہے کہ یہ ‘یونیورسٹی’ ٹیکساس آسٹن کی ممتاز یونیورسٹی دی یونیورسٹی آف ٹیکساس آسٹن سےالگ ہے۔ یونیورسٹی آف ٹیکساس امریکہ میں اعلیٰ تعلیم کا ایک باوقار ادارہ ہے، جہاں ہندوستان سمیت تمام ممالک کے ہزاروں بین الاقوامی طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، یوپی حکومت نے جس یونیورسٹی کے ساتھ ایم او یو پر دستخط کیے تھے، اس کے پاس اس کے لیے اتنے وسائل نہیں ہیں۔

اس ‘یونیورسٹی’ کی حیثیت سے متعلق تنازعہ پر انڈر چیف سکریٹری اروند کمار نے واضح کیا کہ ایم او یو آسٹن یونیورسٹی کے ساتھ نہیں ‘آسٹن کنسلٹنگ گروپ’ کے ساتھ کیا گیا ہے اور ایسے میں  یونیورسٹی کے وسائل کی چھان بین کی ضرورت نہیں ہے۔

ایم او یو سے متعلق تنازعات پر کمار نے جمعرات کو کہا، ‘یہ صرف ایک تجویز ہے اور اس مرحلے پر تفصیلی چھنٹنی نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔ ابھی تک ہم نے نہ تو زمین الاٹ کی ہے اور نہ ہی سبسڈی اور دیگر سہولیات کے حوالے سے کوئی وعدہ کیا ہے۔ جب بھی وہ ہمیں تفصیلات فراہم کرائیں گے، ہم اس کی سرمایہ کاری کی تجویز کو آگے بڑھائیں گے۔

انہوں نے کہا، ‘انہوں نے ریاست میں ‘اسمارٹ سٹی آف نالج’ پروجیکٹ کی ذمہ داری لینے کی تجویز پیش کی ہے اور ہم نے اسے شکریہ کے ساتھ قبول کر لیا ہے۔’

اتر پردیش میں سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے امریکہ کے دورے پر گئے ریاستی حکومت کے وفد کا حصہ رپے کمار نے کہا،یہ (ایم او یو) تجویز کو قبول کرنے کا ایک رسمی خط ہے، تاکہ انہیں حکومت کی طرف سے حمایت کا یقین دلایا جائے۔

پی ٹی آئی کے مطابق، ‘ انٹرنل ریونیو سروسز (آئی آر ایس ) کی تسلیم شدہ یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کی فہرست میں آسٹن یونیورسٹی’ کا نام شامل نہیں ہے۔ ایسا  کوئی ریکارڈ بھی  نہیں ہے کہ یونیورسٹی میں کوئی طالبعلم، اساتذہ یا تنخواہ دار ملازم ہوں۔

امریکی محکمہ تعلیم کی تسلیم شدہ یا رجسٹرڈ یونیورسٹیوں کی فہرست میں بھی آسٹن یونیورسٹی کا نام نہیں ہے۔

کارپوریشن وکی پر عوامی طور پر دستیاب معلومات کے مطابق، اس کی ویب سائٹ پر یونیورسٹی کا جو  ایڈریس دیا گیا ہے وہ  درجن دیگر کمپنیوں کا ایڈریس ہے۔

اسٹوڈنٹ ہینڈ بک کے مطابق، ‘اس ادارے کو یو ایس امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) نے ‘اسٹوڈنٹ اینڈ ایکسچینج وزیٹر پروگرام’ میں حصہ لینے کے لیے تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی یہ آئی –20 ویزا جاری کرنے کا مجاز ہے، اس لیے یہ ادارہ ایف–1 یا ایم –1 ویزا پرآنے والےغیر ملکی طلبہ کو قبول نہیں کرسکتا۔ یہ انسٹی ٹیوٹ کوئی ویزا سروس فراہم نہیں کراتا ہے اور طلبا کی حیثیت کے بارے میں کوئی عہد نہیں کرتا ہے۔

 (خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)