خبریں

کالجیم نے مالیگاؤں بلاسٹ کے ملزم کے وکیل کو ہائی کورٹ جج بنانے کی سفارش کی

چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی والی  سپریم کورٹ کالجیم نے بامبے ہائی کورٹ کی وکیل نیلا گوکھلے کو بامبے ہائی کورٹ کی جج کے طور پر تقرری کو منظوری دی ہے۔ نیلا گوکھلے 2008 کے مالیگاؤں بم دھماکہ کیس کے ملزم لیفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت کی وکیل ہیں۔

بامبے ہائی کورٹ کی وکیل نیلا گوکھلے۔ (فوٹوبہ شکریہ: لنکڈ ان)

بامبے ہائی کورٹ کی وکیل نیلا گوکھلے۔ (فوٹوبہ شکریہ: لنکڈ ان)

نئی دہلی: 2008 کے مالیگاؤں بم بلاسٹ کیس کے ملزم لیفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت کی نمائندگی کرنے والی ایڈوکیٹ نیلا گوکھلے کو سپریم کورٹ کالجیم نے بامبے ہائی کورٹ کے جج کے طور پر تقرری کو منظوری دی ہے۔

دی ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق، چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی  کالجیم کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ‘سپریم کورٹ کالجیم نے 10 جنوری 2023 کو اپنی میٹنگ میں بامبے ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ نیلا کیدار گوکھلے کی تقرری کی تجویز کو منظوری دے دی ہے۔

واضح ہو کہ اب مرکزی وزارت قانون و انصاف اس سفارش کو حتمی شکل دے گی۔ ہائی کورٹ میں اس وقت 94 ججوں کے منظور شدہ عہدے کے برعکس  65 جج ہیں۔

چھ  جنوری 2023 کو مرکز کی طرف سے کالجیم کو بھیجے گئے ناموں پر تبصرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس ایس کے کول نے کہا، حکومت نے آخر میں کچھ ایسے  نام واپس بھیجے جو زیر التوا تھے۔ صحیح یا غلط، ہمیں اس سے نمٹنا ہے۔ 22 نام ایسے ہیں جنہیں واپس بھیج دیا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں، جن کی کالجیم نے سفارش کی تھی، انہیں واپس بھیج دیا گیا ہے۔ کچھ دہرائے گئے  نام واپس بھیجے گئے ہیں۔ تیسری بار بھیجے گئے کچھ نام بھی واپس  بھیجے گئے ہیں ۔ اور کچھ نام ایسے ہیں جن کی وضاحت کالجیم نے نہیں کی ،لیکن حکومت کو سمجھداری سے غور کرنا  چاہیے۔ اس لیے کالجیم کو حکومت کے خیالات پر غور کرنا ہو گا کہ جن ناموں کو پہلے ہم نے منظور نہیں کیا تھا، انہیں اب منظوری دینے کی ضرورت ہے یا نہیں۔ ان تینوں کیٹیگریز کی مجموعی تعداد زیر التوا ہے۔ کالجیم میں دیگر زیر التوا اب کم سے کم ہے۔

نیلا گوکھلے نے دہشت گردانہ  بلاسٹ کیس میں مقدمہ چلانے کی منظوری کو چیلنج دیتے ہوئے ہائی کورٹ کے سامنے پروہت کو بری کرنے کے لیے ایک درخواست دائر کی ہے۔

گزشتہ 2 جنوری کو ہائی کورٹ نے پروہت کی جانب سے گوکھلے کی دائر کردہ درخواست کو اس بنیاد پر مسترد کر دیا تھا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 197 (ججوں اور سرکاری ملازمین کے خلاف استغاثہ) کے تحت مقدمہ چلانے کے لیےکوئی مناسب منظوری نہیں لی گئی تھی۔

تاہم، عدالت نے کہا، اس سوال کا جواب دیا جانا باقی ہے کہ انہوں نے مالیگاؤں کے شہری علاقے میں بم دھماکے کو کیوں نہیں ٹالا، جس میں 6 بے گناہ لوگوں کی جانیں چلی گئیں اور تقریباً 100 لوگ شدید زخمی ہوئے۔یہاں تک کہ دوسری صورت میں، بم دھماکے کی کسی بھی سرگرمی میں ملوث ہونا، جس سے چھ افراد کی موت ہو جاتی ہے، اپیل کنندہ کے اپنے سرکاری فرض کے تحت کیا گیا کام نہیں ہے۔’

معلوم ہو کہ پروہت کی وکیل نیلا گوکھلے نے سماعت کے دوران کہا تھا کہ این آئی اے کے مطابق پروہت نے اپنے اعلیٰ افسران کو ہندو راشٹرکے قیام کے لیے کام کرنے والی تنظیم ‘ابھینو بھارت’ کی میٹنگوں میں شرکت کے بارے میں مطلع کیا تھا۔ وکیل نے دعویٰ کیا تھا کہ اس لیے وہ (پروہت) میٹنگوں میں شرکت کرکے ہندوستانی فوج کے لیےخفیہ جانکاری جمع کرنے کی ڈیوٹی پر تھے۔

نیلا گوکھلے نے مزید کہا تھاکہ جس دن یہ مبینہ جرم ہوا، وہ ایک سرکاری اہلکار تھے اور اپنی ڈیوٹی قانونی طریقے سے کر رہے تھے۔ اس لیے پراسیکیوٹنگ ایجنسی کو ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لیے مجاز اتھارٹی سے اجازت لینی  چاہیے۔

اس پر، عدالت نے کہا تھا کہ استغاثہ کے ذریعہ جمع کرائے گئے دستاویزات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پروہت کو کبھی بھی حکومت کی طرف سے مسلح افواج میں کام کرنے کے باوجود  ‘ابھینو بھارت’ میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی  گئی تھی۔ بنچ نے کہا کہ اپیل کنندہ (پروہت) کو مذکورہ تنظیم کے لیے فنڈز جمع کرنے اور اس کی غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد کی خریداری کے لیے مذکورہ رقم تقسیم کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اپیل کنندہ موجودہ جرم کا کلیدی سازش کار ہے۔

عدالت نے کہا کہ پروہت نے سرگرم ہوکر دیگر ملزمان کے ساتھ حصہ لیا اور غیر قانونی سرگرمیوں کی مجرمانہ سازش کرنے کے لیےبیٹھکیں کیں۔

پروہت ہائی نے اس بنیاد پر الزامات سے بری کرنے کی درخواست کی تھی  کہ انہوں نے سینئر افسران کی ہدایت پر’ابھینو بھارت’ کی میٹنگوں میں حصہ لیا، جس میں مالیگاؤں دھماکے کی سازش رچی گئی تھی۔ تاہم، ہائی کورٹ نے پروہت کی عرضی کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ ان کے ذریعے کیے گئے مبینہ جرم کا ان کی سرکاری ڈیوٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

پروہت ضمانت پر باہر ہیں،قتل، خطرناک ہتھیاروں سے شدید چوٹ پہنچانے، مذہب، نسل، جائے پیدائش، رہائش، زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے کے لیے متعصبانہ کام کرنے کا الزام ہے۔ ان کے خلاف آرمز ایکٹ، انڈین ایکسپلوسیو سبسٹنس ایکٹ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ کی متعلقہ دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں۔

دھماکے کے مقدمے میں اب تک 297 گواہوں سے پوچھ گچھ ہو چکی ہے اور ان میں سے 25 گواہوں کو اپنے بیان سے پلٹنے والا قرار دیا گیا ہے۔

معلوم ہو کہ مہاراشٹر کے ناسک ضلع کے مالیگاؤں کی ایک مسجد کے پاس 29 ستمبر، 2008 کو ایک موٹر سائیکل پر بندھے دھماکہ خیزاشیا میں دھماکہ ہوا تھا، جس میں چھ لوگوں کی موت ہو گئی تھی اور 101 سے زیادہ  لوگ زخمی ہو گئے تھے۔

مہاراشٹرا پولیس کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق حملے میں استعمال ہونے والی موٹرسائیکل اس وقت بھوپال سے بی جے پی کی رکن پارلیامنٹ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے نام پر رجسٹرڈ تھی، جس کی بنیاد پر انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کیس کی تحقیقات بعد میں این آئی اے نے اپنے ہاتھوں  میں لی اور فی الحال تمام ملزم ضمانت پر باہر ہیں۔ اس کیس کے دیگر ملزمان میں ریٹائرڈ میجر رمیش اپادھیائے، اجے رہیرکر، سدھاکر دویدی اور سدھاکر چترویدی شامل ہیں۔