سپریم کورٹ نے ٹی وی خبروں کے مواد پر ریگولیٹری کنٹرول کی کمی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہیٹ اسپیچ ایک ‘بڑا خطرہ’ ہے۔ ہندوستان میں ‘آزاد اور متوازن پریس’ کی ضرورت ہے ۔ عدالت نے کہا کہ آج کل سب کچھ ٹی آر پی سے چلتا ہے۔ چینل ایک دوسرے سے مقابلہ کر کے معاشرےکو تقسیم کر رہے ہیں۔
نئی دہلی: ملک بھر میں ہیٹ اسپیچ کے واقعات کو روکنے اور قصورواروں کے خلاف کارروائی کامطالبہ کرنے والی عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے نیوز چینلوں پر بحث کے دوران بدسلوکی کرنے والے ٹیلی ویژن اینکروں کے خلاف کارروائی کی حمایت کرتے ہوئے جاننا چاہا کہ کسی پروگرام کو لے کر کتنی بار اینکر کو آف ائیر کیا گیا ہے؟
جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس بی وی ناگ رتنا کی بنچ نے نیوز براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈز اتھارٹی (این بی ایس اے) کی طرف سے پیش ہونے والی ایڈوکیٹ نشا بھمبانی سے پوچھا، کتنی بار آپ لوگوں نےاینکروں کو آف ایئر کیا ہے؟ کیا آپ نے اینکروں کے ساتھ اس طرح کا کوئی سلوک کیا ہے کہ وہ سبق سیکھیں؟
حکومت کی طرف سے پیش ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹ راج نے ٹی وی پر دکھائے جانے والے مواد کو متوازن کرنے کے مطالبات کا جواب دیتے ہوئے بنچ کو بتایا کہ اس سلسلے میں خاطر خواہ چیک اینڈ بیلنس موجود ہیں۔
اس پر جسٹس جوزف نے کہا کہ یقینی طور پر چیک اینڈ بیلنس کا استعمال اس طرح سے نہیں ہو رہا کہ کوئی اثر نظر آئے۔
ٹی وی نیوز مواد پر ریگولیٹری کنٹرول کی کمی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بنچ نے کہا کہ ہیٹ اسپیچ ایک ‘بڑا خطرہ’ ہے اور ہندوستان کو ‘آزاد اور متوازن پریس’ کی ضرورت ہے۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ آج کل ہر چیز ٹی آر پی (ٹیلی ویژن ریٹنگ پوائنٹ) سے چل رہی ہے اور چینل ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہیں اور معاشرے کو تقسیم کر رہے ہیں۔
اس نے کہا کہ اگر کوئی ٹی وی نیوز اینکر نفرت پھیلانے والے اسپیچ کے مسئلے کا حصہ بنتا ہے تو اسے نشریات سے کیوں نہیں ہٹایا جا سکتا۔
عدالت نے کہا کہ پرنٹ میڈیا کے برعکس، نیوز چینلوں کے لیے کوئی پریس کونسل آف انڈیا نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ ‘ہم اظہار رائے کی آزادی چاہتے ہیں، لیکن کس قیمت پر۔
بنچ نے کہا، ‘اس طرح کی تقاریر ایک بڑا خطرہ بن گئی ہیں۔ اس کو روکنا ہو گا۔’
جسٹس جوزف نے کہا کہ ٹی وی چینل ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہیں، کیونکہ خبروں کی کوریج ٹی آر پی سے ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے آپ اس کے بارے میں کچھ نہیں کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘وہ ہر چیز کو سنسنی خیز بناتے ہیں۔ آپ کو سمجھنا چاہیے کہ اخبارات پڑھنے والے لوگوں کے برعکس، کوئی شخص جوٹیلی ویژن دیکھتا ہے ، اس کے ذہن میں وہ فوراً اپیل کرتے ہیں۔ خاص طور پر نوجوان، وہ اس (ٹی وی) سے چپک جاتے ہیں۔ آپ معاشرے کوتقسیم کرتے ہیں یا آپ جو بھی رائے قائم کرنا چاہتے ہیں وہ کسی بھی دوسرے میڈیم کے مقابلے میں بہت تیزی سے قائم کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ناظرین اس طرح کے مواد کو دیکھنے کے لیے پختہ ذہن نہیں ہیں۔
جسٹس ناگ رتنا نے کہا کہ اگر ٹی وی چینل نفرت انگیز تقاریر کی تشہیر میں ملوث ہو کر پروگرام کے ضابطہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں تو ان کی انتظامیہ کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘ہم ہندوستان میں آزاد اور متوازن پریس چاہتے ہیں۔’
نیوز براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ ایک سال میں ہزاروں شکایات موصول ہوئی ہیں اور چینلوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس جوزف نے کہا کہ اینکر بعض اوقات لوگوں کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے روک دیتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے ٹی وی شوز میں آپ لوگوں کو برابری کی بنیاد پر بات کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ آپ نہیں چاہتے کہ شرکاء اپنے خیالات کا اظہار کریں، آپ یا تو انہیں خاموش کر دیں گے یا دوسرے شخص کو بغیر کسی رکاوٹ کے لگاتاربولنے دیں گے۔’
انہوں نے کہا، ‘تو بات یہ ہے کہ یہ براڈکاسٹر یا پینلسٹ کا حق نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کا حق ہے، جو متعلقہ پروگرام کودیکھ رہے ہوتے ہیں۔
جسٹس جوزف نے کہا، ‘اگر آپ کے پاس کوئی غلط اینکر ہے، تو کنجی دراصل اینکر کے کنٹرول میں ہوتی ہے۔ ایک لائیو پروگرام کے منصفانہ ہونے کا دارومدار آخر کار اینکر پر ہوتا ہے، اگر اینکر منصفانہ طریقے سے کام نہیں کر رہا … اگر آپ اینکروں کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہیں تو کیا ہوگا… انہیں فوراً پتہ چل جائے گا کہ مجھے بھاری قیمت چکانی پڑے گی،مجھے آف ایئر کردیا جائے گا… ٹی وی اینکروں کو بھی ہٹانے کی طاقت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘اینکر کے خلاف کتنی بار کارروائی ہوئی؟ میڈیا کے لوگوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ وہ بڑے اختیارات والے عہدوں پر بیٹھے ہیں اور معاشرے پر ان کا اثر ہے۔ وہ مسئلے کا حصہ نہیں بن سکتے۔
جسٹس جوزف نے کہا کہ اگر نیوز اینکر یا ان کی انتظامیہ کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تو سب لائن میں آ جائیں گے۔
اظہار رائے کی آزادی کے حق میں توازن قائم کرتے ہوئے ٹی وی کو کیسے ریگولیٹ کیا جائے اس پر غور کرتے ہوئے جسٹس جوزف نے کہا کہ ‘ایک طرف یہ بولنے کی آزادی ہے، آزادی جتنی زیادہ ہوگی، نظریات کے اصول کی مارکیٹ اتنی ہی بہتر ہوگی، لیکن نظریات کے بازار میں لوگوں کو بھی دیکھنا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا، ‘آزادی کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ واقعی ناظرین پر منحصر ہے۔ کیا وہ اس قسم کی معلومات یا غلط معلومات حاصل کرنے کے اہل ہیں جو سامنے آتی ہیں۔ اگر آزادی کو کسی ایجنڈے کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے، اگر آپ کسی خاص ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں، تو آپ واقعی عوام کی خدمت نہیں کر رہے ہیں۔ آپ کسی اور کے مقصد کی خدمت کر رہے ہیں۔ پھر آپ کو اس سے نمٹنا ہوگا۔
‘میڈیا ٹرائل’ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئےبنچ نے ایئر انڈیا کی پرواز میں ایک شخص کے خاتون ساتھی مسافر پر مبینہ طور پر پیشاب کرنے کے حالیہ واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، اس کا (ملزم) نام لیا گیا تھا۔ اس کے لیے جس قسم کے الفاظ استعمال کیے گئے ۔ میڈیا والوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کے خلاف تحقیقات ابھی جاری ہیں اور اس کو بدنام نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہرانسان کا وقار ہوتا ہے، یہ آرٹیکل 21 کا حصہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ‘جب آپ آزادی صحافت وغیرہ کے اپنے آئینی حق کا استعمال کر رہے ہیں، تو آپ کو ایسا کام کرنا چاہیے جیسا کہ آپ اس کے مستحق ہیں۔ حق کو صحیح طریقے سے استعمال کرنا چاہیے۔ نہیں تو ملک کی کیا عزت رہ جاتی ہے؟
جسٹس ناگ رتنا نے کہا، ‘اس لیےیہ درخواستیں حقیقت میں 19(2) کے حوالے سے نہیں ہیں، یہ 19(1)(اے) حقوق کا استعمال ہے اور کس طرح ان حقوق کے استعمال میں آرٹیکل 21 یا دوسرے شخص کے آرٹیکل 19(1) (اے) کے حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔’
گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے دہلی، اتراکھنڈ اور اتر پردیش کے ڈی جی پی سے کہا تھا کہ وہ رسمی شکایتوں کا انتظار کیے بغیر فوجداری مقدمات درج کرکے ہیٹ اسپیچ میں ملوث افراد کے خلاف از خود کارروائی کریں۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، جمعہ کو اتراکھنڈ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ حکم کے مطابق ریاست نے 118 مقدمات درج کیے، جن میں سے 23 ازخود اور باقی شکایات کی بنیاد پر ہیں۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ کچھ عملی مسائل ہیں۔ جب کوئی پولیس افسر از خود مقدمہ درج کرتا ہے تو افسر شکایت کنندہ بن جاتا ہے اور پھر تفتیش معروضی ہونے کے بجائے موضوعی ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب پولیس افسر ہی شکایت کنندہ ہے تو پولیس کے یہ کہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ الزامات درست نہیں ہیں۔
اتر پردیش نے عدالت کو مطلع کیا کہ اس نے 2021 اور 2022 میں 581 مقدمات درج کیے تھے اور ان میں سے 160 از خود نوٹس میں لیے گئے تھے۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ 2022 کے اعداد و شمار 2021 میں درج اس طرح کے مقدمات کی تعداد سے تقریباً 2.5 گنا زیادہ تھے۔
عدالت نے مرکز کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹ راج سے کہا کہ اظہار رائے اور اظہار رائے کی آزادی ایک بہت اہم اور نازک چیز ہے اور حکومت کو اس میں مداخلت کیے بغیر کچھ کارروائی کرنی ہوگی۔
نٹ راج نے کہا کہ مرکز اس مسئلے سے واقف ہے اور نفرت انگیز تقاریر کے خطرے سے نمٹنے کے لیے کوڈ آف کریمنل پروسیجر (سی آر پی سی) میں ترمیم پر غور کر رہا ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں