تین سال قبل 2020 میں شمال–مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ دنگے ہوئے تھے، جن میں 53 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اب قومی راجدھانی کے اسی حصے کے برہم پوری علاقے میں ایسے پوسٹر لگائے گئے ہیں، جن پر لکھا ہے کہ تمام ہندو مکان مالکوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ کوئی بھی اپنا مکان مسلمانوں کو فروخت نہیں کرے گا۔ اگر فروخت کیا تو اس کی رجسٹری نہیں ہونے دی جائےگی۔
نئی دہلی: تین سال قبل 2020 کے دنگوں میں شمال–مشرقی دہلی میں53 افراد مارے گئے تھے۔ ان میں دو تہائی لوگ مسلمان تھے اور اس دوران سینکڑوں افراد زخمی ہوئے تھے، ساتھ ہی ہزاروں کروڑ کی املاک کا نقصان ہوا تھا۔
اسی شمال– مشرقی دہلی میں شاہدرہ کے برہم پوری علاقے کے کچھ حصوں میں ایسے ہی پوسٹرپائے گئے ہیں، جن میں ہندوؤں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی جائیداد مسلمانوں کو فروخت نہ کریں اور دھمکی دی گئی ہے کہ اس طرح کی رجسٹری کی مخالفت کی جائے گی۔
برہم پوری کے گلی نمبر 13میں رہنے والے ایڈوکیٹ پردیپ شرما کے نام سے جاری کیے گئے ان پوسٹروں میں یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ اس علاقے میں آئندہ تمام لین دین صرف ہندوؤں کے درمیان ہوں گے۔
The tweet👇🏾reports a hateful notice that reads:
"Hindu house owners in the Brahmapuri area are notified not to sell their house to Muslims. Sell at your own risk, for street residents shall not allow such sales to be registered. All future transactions must be between Hindus." https://t.co/PcdqJJ5CPF— @tarunkhaitan@mastodon.lawprofs.org (@tarunkhaitan) January 12, 2023
‘مسلمانوں نے ہندوؤں کی املاک کی حفاظت کی تھی، اس لیے برہم پوری میں تشدد نہیں ہوا تھا’
المیہ ہی ہے کہ یہ پوسٹر ایسے علاقے میں لگائے گئے ہیں، جہاں فسادات کے دوران تشدد نہیں ہوا تھا، اور یہ مسلمانوں کی اکثریت کی وجہ سے ہوا تھا۔
برہم پوری کے گلی نمبر 13 میں کلینک چلانے والے امراض اطفال کے ماہر نفیس احمد نے دی وائر کو بتایا کہ تین سال قبل جب شمال–مشرقی دہلی کے کچھ حصوں میں فسادات پھوٹ پڑے تھے تب یہاں کے لوگوں کی کوششوں کی وجہ سے برہم پوری علاقے میں تشدد نہیں ہوا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ اس سڑک (گلی نمبر 13) کے ایک طرف زیادہ تر دکانیں مسلمانوں کی ہیں، جبکہ دوسری طرف زیادہ تر دکانیں ہندوؤں کی ہیں۔ تاہم اگر آپ مجموعی آبادی کو دیکھیں تو اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ 2020 کے فسادات کے دوران مسلمانوں نے یہاں ہندوؤں کی دکانیں بچائی تھیں۔ انہوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔
ان کے مطابق، ‘بہت سے مسلمان باشندوں نے کھلے عام اپنے ہندو بھائیوں کو یقین دلایا تھا کہ انہیں ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے رات کے وقت علاقے میں گشت بھی کیاتھا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ شرپسندکوئی نقصان نہ پہنچا پائیں۔
ڈاکٹر احمد نے کہا، ‘اس علاقے میں اس طرح کی فرقہ وارانہ کشیدگی کبھی نہیں ہوئی ہے۔ ایسے میں یہ پوسٹر صرف ماحول کو فرقہ وارانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسا بھی لگتا ہے کہ اس کے پیچھے حکمران جماعت کا ہاتھ ہوسکتا ہے، تاکہ وہ اپنے حق میں ووٹ فیصد بڑھا سکے۔
انہوں نے کہا، ‘جو بھی ان کو لگا رہا ہے وہ واضح پیغام دے رہا ہے کہ وہ ایک شدت پسند ہندو ہے اور کسی کو اپنی جائیداد مسلمانوں کو فروخت کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ لیکن مجموعی طور پر اس وقت علاقے میں زیادہ کشیدگی نہیں ہے۔
مسلمانوں کو جائیداد خریدنے سے روکا
اس علاقے میں فی الحال جو جائیدادیں فروخت ہو رہی ہیں ان کے بارے میں ڈاکٹر احمد نے کہا کہ زیادہ تر مسلمان انہیں خرید رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، غیر مسلم آہستہ آہستہ باہر جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اپنی جائیداد مسلمانوں کو نہ بیچو۔
ڈاکٹر احمد نے مزید کہا کہ یہ صرف برہم پوری میں ہی نہیں بلکہ شمال–مشرقی دہلی کے کئی حصوں میں ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا، اگر آپ یمنا وہار جاتے ہیں، جہاں میں رہتا ہوں، تو آپ کو وہاں بھی یہ رویہ اور ذہنیت نظر آئے گی۔ چند بلاکوں کے علاوہ دیگر جگہوں پرمسلمانوں کو خریداری کی اجازت نہیں ہے۔ میں بھی ایک پراپرٹی خریدنا چاہتا تھا، لیکن صاف صاف انکار کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ ہندو علاقوں میں مسلمانوں کو کرایہ پر مکان نہیں دیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جہاں برہم پوری میں اس سلسلے میں پوسٹر لگائے گئے ہیں، وہیں کئی دیگر علاقوں میں ایک غیر تحریری فرمان ہے، جس کے تحت ہندوؤں کو اپنی جائیداد مسلمانوں کو فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا، یہ پچھلے چار پانچ سالوں سے بہت ہو رہا ہے اور فروری 2020 کے فسادات کے بعد صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے۔
دریں اثنا، برہم پوری سے عام آدمی پارٹی کے رہنما گورو شرما، جن کی بیوی چھایا اس بار پارٹی کے ٹکٹ پر وارڈ سے کارپوریٹر بنی ہیں، انہوں نے کہا کہ پوسٹر اس علاقے میں لگائے گئے تھے، جو گوتم پوری وارڈ کا حصہ ہے۔
انہوں نے کہا، ‘2020 کے فسادات کے بعد سے دونوں طرف کے لوگ حالات کو بہتر بنانے اور باہمی اعتماد پیدا کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ لیکن درمیان میں کچھ ایسے لوگ آجاتے ہیں جو پھر سے کشیدگی پیدا کردیتے ہیں۔ وہ صرف ماحول کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔
شرما نے کہا کہ کسی کو بھی اس طرح کے پوسٹر لگانے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر انہیں کوئی شکایت ہے تو انہیں ریذیڈنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن (آر ڈبلیو اے) یا آس پاس کے دیگر لوگوں سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا، ‘جب مجھے معلوم ہوا کہ برہم پوری میں پوسٹر لگائے گئے ہیں تو میں نے علاقے کے مکینوں سے دریافت کیا۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ گوتم پوری علاقے میں پوسٹر لگائے گئے ہیں۔ میں نے مقامی باشندوں سے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہم تین سال پہلے والی صورتحال میں واپس نہ جائیں۔ یہ وہ وقت تھا جسے بھولنا اور اس سے نکلنا ہمارے لیے ابھی بھی مشکل ہے۔
انہوں نے کہا، ‘کچھ علاقائی باشندوں نے بھی حالات کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے، لیکن معاشرے میں ہر طرح کے لوگ موجود ہیں۔ بہت سے لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں جبکہ دوسرے نہیں مانتے۔ لوگ روزگار کی تلاش اور روزی کمانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، کس کے پاس ایسی بکواس کرنے کا وقت ہے۔ اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ پردیپ شرما، جو ایک وکیل ہیں، نے یہ پوسٹر لگوائے ہیں۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Categories: خبریں