‘وکاس’ کا یہ کون سا ماڈل ہے، جو جوشی مٹھ ہی نہیں بلکہ پورے ہمالیائی خطہ میں دراڑیں پیدا کر رہا ہے اور انسانوں کے لیے خطرہ بن رہا ہے؟ سرکاری ‘وکاس’ کی اس وسیع ہوتی دراڑکو اگر اب بھی نظر انداز کیا گیا تو پوری انسانیت ہی اس کی بھینٹ چڑھ سکتی ہے۔
جوشی مٹھ ان دنوں سرخیوں میں ہے، اتراکھنڈ کے پہاڑ موضوع بحث ہیں، ہمالیہ سرخیوں میں ہے۔ جوشی مٹھ میں دراڑیں پڑ رہی ہیں، وہاں رہنے والے لوگ خطرے میں ہیں اور جان و مال کے ساتھ اپنا آبائی شہر چھوڑنے کو مجبور ہیں۔ تہذیب کی ابتدا میں انسان وہاں آباد ہوئے، جہاں ان کے لیے خوراک اور پانی موجود تھا اور جہاں وہ محفوظ تھے۔ اتراکھنڈ کا جوشی مٹھ، جسے بدری ناتھ دھام کا داخلی دروازہ ہونے کی وجہ سے ‘سورگ کادوار’ بھی کہا جاتا ہے، ایسی ہی ایک محفوظ جگہ تھی۔ کیونکہ یہ ‘جنت کا دروازہ’ تھا، اس لیے اس کا ‘وکاس’ ہونے لگا اور اس میں دراڑیں پڑنے لگیں۔
‘وکاس’ کا یہ کون ساماڈل ہے، جو جوشی مٹھ ہی نہیں بلکہ پورے ہمالیائی خطہ میں دراڑیں پیدا کررہا ہے اور انسانوں کے لیے خطرناک بن رہا ہے، یہ ماڈل ندیوں اور سمندروں کو آبی مخلوق اور ماہی گیروں کے لیے خطرناک بنا رہا ہے، جنگلات کو آدی واسیوں کے لیے خطرناک بنا رہا ہے۔گاؤں کو گاؤں والوں کے لیے اور شہرکو شہریوں کے لیے خطرناک بنا رہا ہے۔
سال 1976 میں ہی ‘جیولوجیکل سروے آف انڈیا’ نے اتراکھنڈ کے پہاڑوں،بالخصوص جوشی مٹھ کی حساسیت کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ انتباہ کی ایک بڑی وجہ تھی اس کا ہندوؤں کے تیرتھ استھل( زیارت گاہ) بدری ناتھ اور سیاحتی مقام اولی کے قریب ہونا ۔ ان دونوں کی وجہ سے اس علاقے میں سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر تعمیراتی کام کا ہونا ۔ لیکن اس کے بعد بھی دائیں بائیں کرکے سرکاریں یہاں ہوٹل اور عمارت سے لے کر ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کو آنے کی اجازت دیتی رہیں۔ جبکہ ماہرین ماحولیات ہر بار حکومتوں کو آگاہ کرتے رہے، عدالت جاتے رہے۔ آنکھیں بند کرکے موجودہ حکومت نے چاردھام پروجیکٹ کو ان نازک پہاڑوں پر تھوپ کراس کے خطرے کو اچانک کئی گنا بڑھا دیا۔
المیہ یہ ہے کہ دسمبر 2016 میں اس پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے اسے 2013 کے کیدارناتھ سیلاب کے سانحہ میں ہلاک ہونے والوں کومعنون کیا گیا، جبکہ کیدارناتھ کا سیلاب بذات خود اسی طرح کی ماحولیاتی چھیڑ چھاڑ کا نتیجہ تھا۔
اس پروجیکٹ کے تحت نریندر مودی کی حکومت نے اتراکھنڈ کے چار ہندودھاموں– بدری ناتھ، کیدارناتھ، گنگوتری اور یمونوتری کو جوڑنے کا اعلان کیا تھا۔ 2017 کے اتراکھنڈ اسمبلی انتخابات سے ٹھیک پہلے شروع کیے گئے اس بارہ ہزار کروڑ کے پروجیکٹ کی تکمیل کی تاریخ کا اعلان اگلے لوک سبھا انتخابات یعنی 2024 سے پہلے کیا گیا تھا۔ کچھ دن پہلے وزیر داخلہ امت شاہ نے رام مندر کی تکمیل کی تاریخ بھی یکم جنوری 2024 بتائی ہے۔ ظاہر ہے دونوں ہی موجودہ حکومت کے انتخابی ایشوز ہیں، جن میں سے ایک میں 2023 کے آغاز سے ہی دراڑیں نظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔
یہ وہی حکومت ہے جس نے بلڈوزر کو اپنی علامت بنا رکھا ہے۔ اسی علامت والی سرکاری کے ذریعے کیا جارہا وکاس کا یہ وہ ماڈل ہے، جس میں بلڈوزر ہرطرف، ہر وقت کسی نہ کسی چیز کو گرا رہا ہے۔ یہ بلڈوزر سامراجی سرمایہ داروں کے ہیں اور ان پر سوار ڈرائیورایک فاشسٹ حکومت ہے۔ وکاس کا یہ ماڈل سامراجی سرمایہ داری اور فرقہ وارانہ جاگیرداری کی پیروکار حکومت کی خواہشات کا ماڈل ہے۔ حقائق کا تھوڑا سا جائزہ لینے سے آسانی سے اس کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔
اپنی کساد بازاری سے نکلنے کے لیے سامراجی ممالک کے سرمایہ دار گھرانوں نے لالچ سے ہندوستان جیسے ممالک کی طرف دیکھا، جہاں ابھی بھی منڈی کے پھیلاؤ کے بہت زیادہ امکانات موجود ہیں۔ تعمیراتی سیکٹر ان سرمایہ داروں کو کساد بازاری سے نکالنے کا سب سے بڑا شعبہ ہے۔ اسی لیے ہندوستان کی سرزمین پر سامراجی بلڈوزر تیزی سے دوڑ رہا ہے۔
یہ یوں ہی نہیں تھا کہ 22 اپریل 2022 کو اس وقت کے برطانیہ کے وزیر اعظم ہندوستان آئے اور نہ صرف ایک بلڈوزر فیکٹری کا افتتاح کیا بلکہ اس پر سوار ہو کر تصویر بھی بنوائی۔ یہ تصویر میڈیا میں خوشی خوشی نشر بھی کی گئی۔
توجہ فرمائیں، اس وقت پورے ملک میں تعمیراتی منصوبوں کا شور ہے، ہر شہر میں سڑک، ایکسپریس وے، اوور برج، ہائی وے بن رہے ہیں۔ اس پر سوار جاگیردارانہ حکومت کے لیے ‘مذہب’ صرف سیاست کا ہی نہیں، اپنے سامراجی آقاؤں کو کساد بازاری سے نکالنے کا ذریعہ بھی ہے۔ اسی لیے میدانوں میں بڑے بڑے مندر بنائے جا رہے ہیں، جو پہلے سے موجود ہیں، ان کو بڑھایا جا رہا ہے، سمندر پاٹ کر ‘رام سیتو’ بنانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، کلپاواس سیاحت کے لیے عالیشان ‘ٹینٹ سٹی’ بنائی جا رہی ہے۔ گنگا درشن کے لیےندی کو روند تا ‘ولاس کروز’ چلایا جا رہا ہے اور پہاڑوں کودھنسا دینے والی ‘چاردھام یاترا’ جیسا روڈ پروجیکٹ لایا جا رہا ہے۔
ایک تیر سے دو شکار–سامراجی آقا بھی خوش اور مذہب کی سیاست کے زیر اثر آنے والوں کا ووٹ بینک بھی پکا۔ درحقیقت یہ ہندوتوا کے وکاس کا ایک فسطائی ماڈل ہے اس کی مخالفت کرنےوالے ماہرین ماحولیات اور عوام کو ‘اربن نکسل’ قرار دے کر ان کے سامنے مذہبی خوف رکھنے والے لوگوں کو کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ بلڈوزر کو پہاڑ پر چلتا ہوا کبھی کسی میڈیا نے نہیں دکھایا، لیکن مسلمانوں کے گھروں اور بستیوں پر چلتا ہواضرور دکھایا جاتا ہے، تاکہ ہندو آبادی کا اپیزمنٹ ہوتا رہے اور ان کی توجہ اس ترقی کی تباہی کی طرف نہ جائے،جائے بھی تو اس جانب کہ ان کی آستھا کا وکاس ہو رہا ہے۔
یہ حیرت کی بات ہے کہ جب اتراکھنڈ میں چاردھام روڈ پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا گیا تو ماہرین ماحولیات نے 2018 میں اس کے خلاف سپریم کورٹ کا رخ کیا۔ اور سپریم کورٹ نے ہمالیہ پر خطرے کے پیش نظر سڑک کی چوڑائی 20 فٹ کے بجائے 5 فٹ کرنے کی اجازت دی۔ لیکن مودی حکومت نے اس فیصلے کو تبدیل کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کی۔
اس بار دلیل مذہبی کے بجائے ‘راشٹر وای ‘ تھی۔ حکومت کا کہنا تھا کہ پڑوسی ملک چین کے خلاف جنگ کے لیے چوڑی سڑک کی ضرورت ہے، تاکہ چین کے حملے کے وقت اس سڑک کے ذریعے ٹینکوں کو سرحد تک لے جایا جا سکے۔ سپریم کورٹ بھی اس ‘قوم پرستی’ کے نیچے دب گئی اور 14 دسمبر 2022 کو اس نے سڑک کو 12.5 میٹر چوڑا بنانے کی اجازت دے دی، جس کے بعد جنگی بنیادوں پر کام شروع کیا گیا، کیونکہ 2024کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے اس کا افتتاح کرکے اس ‘راشٹروادی ‘وکاس کا مظاہرہ بھی کرنا ہے۔
جوشی مٹھ، جو بدری ناتھ کا گیٹ وے ہے، لیکن ایک سال کے اندر ہی اس کا قہر نظر آگیا، اور ایسا نظر آیا کہ کچھ بھی سنبھالےنہیں سنبھل رہا ہے۔ حکومت خود اس قدر بدحواس ہے کہ اس نے سائنسدانوں اور سائنسی اداروں کو منع کر دیا کہ وہ میڈیا کے ساتھ کوئی بھی معلومات شیئر نہ کریں۔ لیکن اس بار ہمالیہ نے خود اس وکاس کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ یہ جوشی مٹھ نہیں، ‘وکاس ‘ کا فاشسٹ ماڈل تباہ ہو رہا ہے۔
سرکاری وکاس کے اس وسیع دراڑ کواگر اب بھی نظر انداز کیا گیا تو پوری انسانیت اس کی بھینٹ چڑھ سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اتنے خطرناک طریقے سے پہاڑوں میں شگاف پڑنے سے میدانی علاقوں یا ملک کے دیگر حصوں پر بلکہ دنیا کے دیگر حصوں پر اس کااثر نہیں پڑے گا۔ اس کے خطرناک اثرات ہر جگہ مرتب ہوں گے اور اس دھرتی کو بچانے کے لیے اس بلڈوزر ‘وکاس’ کو روکنا ضروری ہے۔ نامور فلسفی فریڈرک اینگلز کا کہنا ہے کہ ‘ ہر نسل کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس زمین کو تباہ کیے بغیر اپنی اگلی نسل کو سونپے’۔
(سیما آزاد سماجی کارکن ہیں۔)
Categories: فکر و نظر