انٹرنیٹ آرکائیودنیا بھر کے صارفین کے ذریعےویب پیج کے مجموعوں اور میڈیا اپ لوڈ کا ایک ذخیرہ ہے۔ بی بی سی کی ڈاکیومنٹری ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ کی پہلی قسط کے بارے میں اس کی ویب سائٹ پر لکھا ہوا نظر آرہا ہے کہ ‘یہ مواد اب دستیاب نہیں ہے’۔
نئی دہلی: انٹرنیٹ آرکائیو،جو دنیا بھر کے صارفین کی طرف سے ویب پیج کے مجموعوں اور میڈیااپ لوڈ کا ایک امریکی ذخیرہ ہے ، جس نے بی بی سی کی ‘انڈیا: دی مودی کویسچن‘ڈاکیومنٹری کے پہلے ایپی سوڈ کے بڑے پیمانے پرنشر ہونے والے اپ لوڈ کو ہٹا دیا ہے۔
دی ہندو نے اپنی رپورٹ میں یہ جانکاری دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اپ لوڈ میں ایک پیغام نظر آرہا ہے، جس میں لکھا ہے، ‘یہ مواد اب دستیاب نہیں ہے۔ مواد کو مختلف وجوہات کی بنا پر ہٹایا جا سکتا ہے،جس میں اپ لوڈ کرنے والے کا فیصلہ یا ہماری شرائط کی خلاف ورزی شامل ہے۔
غور طلب ہے کہ اس سے قبل مرکزی حکومت نے یوٹیوب اور ٹوئٹر کو اس ڈاکیومنٹری کو ہٹانے کی ہدایت دی تھی۔
انٹرنیٹ آرکائیو نے اتوار کو دی ہندو کی طرف سے بھیجے گئے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ اگر اس ڈاکیومنٹری کو ہٹانے کے لیے کہا جاتا ہے تو اس کا ردعمل کس طرح کا ہو گا۔
یہ سائٹ ان اہم ذرائع میں سے ایک کے طور پر سامنے آئی جہاں ڈاکیومنٹری کو ہندوستانی صارفین کے دیکھنے کے لیے شیئر کیا گیا تھا، جبکہ بی بی سی کاپی رائٹ کی بنیاد پر یوٹیوب پر اس پر پابندی لگانے کے لیے کارروائی کر رہا ہے، وزارت اطلاعات و نشریات نے الگ سےاس ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ کےساتھ ساتھ ٹوئٹر کوڈاکیومنٹری کے اپ لوڈ اور لنک کو ہٹانے کی ہدایت دی ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس مخصوص اپ لوڈ کو ہٹانا حکومت ہند یا بی بی سی کی درخواست کا نتیجہ ہے۔ بی بی سی نے ہندوستان میں دو حصوں پر مشتمل اس سیریز کے نشریاتی حقوق نہیں دیے ہیں، پھر چاہے بات اس کی اپنی آئی پلیئر اسٹریمنگ سروس کی کریں یا یوٹیوب کی ، جہاں یہ ہٹائے جانے سے پہلے نجی صارفین کے ذریعے اپ لوڈ کیے جانے کی وجہ سےوائرل ہو گئی تھی۔
غورطلب ہے کہ ڈاکیومنٹری میں برطانوی حکومت کی ایک کمیٹی کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے 2002 کے گجرات فسادات کے لیےاس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو پوری طرح سے ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ حکومت ہند نے اس ڈاکیومنٹری کی مذمت کرتے ہوئے اسے ہندوستان کے خلاف ‘پروپیگنڈہ’ قرار دیا ہے۔
غور طلب ہے کہ 2017 میں ہندوستان میں انٹرنیٹ آرکائیو کو کچھ وقت کے لیے بلاک کر دیا گیا تھا۔
بی بی سی کے ایک ترجمان نے کہا: ‘بی بی سی دنیا بھر میں اہم مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ دستاویزی سیریز ہندوستان کی ہندو اکثریت اور مسلم اقلیت کے درمیان تناؤ کی پڑتال کرتی ہے اور اس کشیدگی کے سلسلے میں ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاست کو کھنگالتی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘اعلیٰ ادارتی معیارات کے مطابق ,ڈاکیومنٹری پر کافی سخت تحقیق کی گئی تھی۔ کئی طرح کی آوازوں، گواہوں اور ماہرین سے رابطہ کیا گیا اور ہم نے بی جے پی کے لوگوں کے ردعمل سمیت مختلف آراء پیش کی ہیں۔ ہم نے سیریز میں اٹھائے گئے معاملات پر حکومت ہند کو اپنا جواب دینے کی پیش کش کی تھی، اس نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔
برطانیہ کی آن لائن پٹیشن میں مودی پر بی بی سی ڈاکیومنٹری کے لیے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ
اس کے ساتھ ہی، ایک آن لائن پٹیشن میں دستاویزی سیریز کے سلسلے میں برطانیہ میں ایک عوامی نشریاتی ادارے کے طور پر بی بی سی کی جانب سے اپنے فرائض کی سنگین خلاف ورزی کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
‘چینج ڈاٹ او آر جی’ پر’مودی سے متعلق ڈاکیومنٹری کے بارے میں بی بی سی سے ایک آزادانہ انکوائری کی اپیل’ کے ساتھ ادارتی غیر جانبداری کے اعلیٰ ترین معیار پر پورا اترنے میں ناکامی پر برطانوی نشریاتی کارپوریشن (بی بی سی) کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ اتوار کی رات آن لائن ہونے کے بعد سے اس پٹیشن پر 2500 سے زیادہ دستخط ہو چکے ہیں۔
درخواست میں ڈاکیومنٹری ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’کو اپنے ناظرین کو جان بوجھ کر غلط معلومات فراہم کرنے والی بی بی سی کی ڈس انفارمیشن جرنلزم کا حصہ قرار دیا گیا ہے اور اس کی تنقید کی گئی ہے۔
درخواست میں لکھا گیا ہے، ہم دو حصوں پر مشتمل ڈاکیومنٹری ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ میں ادارتی غیر جانبداری کے اعلیٰ ترین معیار پر پورا اترنے میں ناکام رہنے پر بی بی سی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
درخواست میں مطالبہ کیا گیا کہ ،ہم بی بی سی بورڈ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ عوامی نشریاتی ادارے کے طور پر اپنے فرائض کی اس سنگین خلاف ورزی کی آزادانہ طور پر تحقیقات کرے اور نتائج کو شائع کرے۔
برطانیہ میں میڈیا پر نظر رکھنے والے ادارے دی آفس آف کمیونی کیشن (او ایف سی او ایم) سے بی بی سی کو جوابدہ ٹھہرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
پٹیشن میں کہا گیا کہ ،مواد کے معیارات کو محفوظ بنانے میں متعدد ناکامیاں سامنے آئی ہیں اور ضروری اصلاحات اور وضاحتوں کے لیے براڈکاسٹر کے ساتھ ضروری بات چیت کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
درخواست کے منتظمین کا دعویٰ ہے کہ یہ ڈاکیومنٹری ‘ایجنڈہ پر مبنی رپورٹنگ اور ادارہ جاتی تعصب کی ایک مثال ہے جو عالمی سطح پراب اس معزز تنظیم کی خصوصیت بن چکی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ‘تقریبا 21 سال بعد نام نہاد تحقیقاتی رپورٹ نشر کرنے کا وقت بھی بہت کچھ بتاتا ہے۔ رپورٹ میں کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ پرانے الزامات کے بارے میں طے شدہ نتائج بذات خود کافی کچھ کہتے ہیں۔
اس میں کہا گیا، ‘یہ بے وجہ ہے۔ یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سپریم کورٹ آف انڈیا نے ایک طویل تحقیقات اور مناسب عمل کے بعد وزیر اعظم مودی کو 2002 کے فسادات میں ملوث ہونے کے الزامات سے مکمل طور پر بری کر دیا ہے، جنہیں بی بی سی اب دو دہائیوں سے زائد عرصے کے بعد اٹھانا چاہتا ہے۔’
کئی دستخط کنندگان نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اسے ‘پروپیگنڈہ’ قرار دیا اور ‘بد نیتی پر مبنی ایجنڈہ’ چلانے پر بی بی سی کی مذمت کی۔
دستاویزی فلم پر ‘سینسر شپ’ کے لیے اپوزیشن نے مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا
حزب اختلاف کی جماعتوں نے مرکزی حکومت کی جانب سے ہندوستان میں بی بی سی کی ڈاکیومنٹری کو روکنے کو ‘سینسرشپ’ قرار دیا ہے۔
کچھ رہنماؤں نےڈاکیومنٹری کو دوبارہ پوسٹ کرکے احتجاج کیا، جس کو اب بھی وی پی این کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ دوسروں نے کہا کہ اس قدم سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2002 کا فرقہ وارانہ تشدد اب بھی مودی اور بی جے پی کے لیے درد سر بنا ہواہے۔
ترنمول کانگریس کی ایم پی مہوا موئترا نے حکومت کے اس قدم کی سخت مخالفت کرتے ہوئے الزام لگایا کہ مودی حکومت عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہے۔
ان تمام 50 ٹوئٹ کی فہرست پوسٹ کرنے سے پہلے جنہیں مرکزی حکومت نے ٹوئٹر کو بلاک کرنے کے لیے کہا تھا، انھوں نے لکھا، شرم کی بات ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے بادشاہ اور درباری اتنے غیر محفوظ ہیں۔
اپنے دوسرے ٹوئٹ میں ڈاکیومنٹری کے لنک کودوبارہ ٹوئٹ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا، ‘معذرت، (میں) سینسر شپ کو قبول کرنے کے لیے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی نمائندگی کے لیے منتخب نہیں ہوئی ہوں۔یہاں لنک ہے۔ جب تک دیکھ سکتے ہیں دیکھیے۔
Sorry, Haven’t been elected to represent world’s largest democracy to accept censorship.
Here’s the link. Watch it while you can.
(Takes a while to buffer though) https://t.co/nZdfh9ekm1
— Mahua Moitra (@MahuaMoitra) January 22, 2023
شیوسینا لیڈر پرینکا چترویدی نے ڈیجیٹل دور میں پابندیاں لگانے کے حکومت کے بڑھتے ہوئے رجحان پر سوال اٹھایا۔
انہوں نے ٹوئٹ کیا، ‘وی پی این کے دور میں، ایمرجنسی والی کارروائیوں کے تحت لگائی گئی اس طرح کی پابندیاں کتنی مؤثر ہیں۔ وہ اس سے جتنی زیادہ نفرت کریں گے، احتجاج میں خط لکھیں گے، لوگ اس کو دیکھنے کے لیے اتنے ہی بے تاب ہوں گے۔
In the age of VPN, how impactful are these bans under emergency clauses cited by the I&B Ministry to ban a BBC documentary. The more they pour scorn on it, write protest letters, the more people would be curious to watch. https://t.co/vBgfo0EeEZ
— Priyanka Chaturvedi🇮🇳 (@priyankac19) January 22, 2023
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے رہنما تھامس نے اشارہ کیا کہ بی بی سی کی ڈاکیومنٹری ‘یک طرفہ’ کہانی نہیں تھی جیسا کہ حکومت نے الزام لگایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق ایم پی سوپن داس گپتا کو بی جے پی کا رخ پیش کرنے کے لیے کافی جگہ دی گئی ہے، اور حکومت کا یہ قدم صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ دو بار کے وزیر اعظم نریندر مودی کو ابھی بھی گجرات میں 2002 کے تشدد کا خیال ڈراتا ہے۔
BBC video on Gujarat 2002 is not a one sided story as alleged by GOI. Swapan Das Gupta is speaking from BJP side.Excerpts from interview with Modi in 2002 has also been included.Let public judge. Banning the video on social media only reveals how much 2002 is still haunting Modi.
— Thomas Isaac (@drthomasisaac) January 22, 2023
قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل کانگریس جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے اس پیش رفت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ٹوئٹر پر کہا، ‘وزیراعظم اور ان کے پیچھے ڈرم بجانے والے کہتے ہیں کہ ان (مودی) کے بارے میں بی بی سی کی نئی ڈاکیومنٹری بدنام کرنے والی ہے۔ (اس پر) سینسر شپ لگا دی گئی ہے۔
اسی طرح، ایک پریس بریفنگ میں کانگریس کے رہنما گورو ولبھ نے مودی حکومت پر طنز کرتے ہوئے کہا، ‘ہندوستانی حکومت کے پاس ‘بلاک ان انڈیا’ نامی اسکیم ہے، جیسے ‘میک ان انڈیا’ اور ‘اسٹارٹ اپ انڈیا’ ہے۔ حکومت نہیں چاہتی کہ مشکل سوالات پوچھے جائیں۔ اگر بی بی سی کا ہیڈکوارٹر دہلی میں ہوتا تو ای ڈی (انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ) اب تک ان کے دروازے پر ہوتا۔
اس سے قبل حکومت نے کہا تھا کہ بی بی سی کی ڈاکیومنٹری کو بلاک کرنے کا فیصلہ اس لیے لیا گیا کیونکہ اس نے سپریم کورٹ آف انڈیا کی توہین کی، جس میں 2002 کے تشدد میں مودی کو مجرم قرار دینے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ملے۔ بعد میں، بی جے پی لیڈر اور مرکزی وزیر کرن رجیجو نے کہا کہ بی بی سی کی ڈاکیومنٹری میں جن لوگوں سے انٹرویو لیا گیا ہے وہ ‘اب بھی نوآبادیاتی نشے سے باہر نہیں نکلے ہیں’۔
ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا تھا، ہندوستان میں اقلیتیں اور ہر کمیونٹی مثبت انداز میں آگے بڑھ رہی ہے، ہندوستان کے اندر یا باہر بدنیتی پر مبنی مہمات سے ہندوستان کی شبیہ کو داغدار نہیں کیا جا سکتا۔
Minorities, or for that matter every community in India is moving ahead positively. India's image cannot be disgraced by malicious campaigns launched inside or outside India. PM @narendramodi Ji's voice is the voice of 1.4 billion Indians.https://t.co/taaF1nvD6F
— Kiren Rijiju (@KirenRijiju) January 21, 2023
غورطلب ہے کہ اطلاعات و نشریات کے سکریٹری اپوروا چندرا کی جانب سے آئی ٹی رولز 2021 کے تحت ہنگامی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے مبینہ طور پر بی بی سی کی ڈاکیومنٹری کو بلاک کرنے کی ہدایات جاری کی گئی تھیں۔ یہ قوانین جب سے وجود میں آئے ہیں تنازعات کا شکار ہیں۔
ناقدین اور حزب اختلاف نئے آئی ٹی قوانین کو ہندوستان میں آزاد آوازوں کو دبانے کے سب سے طاقتور ہتھیاروں میں سے ایک کے طور پر دیکھتے ہیں اور انہیں ‘غیر جمہوری‘ قرار دتے ہیں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں