امریکہ کےنیشنل پریس کلب نےاپنے بیان میں ہندوستانی حکومت سے بی بی سی کی دستاویزی سیریز ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ سے پابندی ہٹانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ہندوستان ‘پریس کی آزادی کو تباہ کرنا جاری رکھتا ہے’ تو وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر اپنی پہچان کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔
نئی دہلی: امریکہ کے نیشنل پریس کلب نے ایک بیان جاری کیا ہے،جس میں ہندوستانی حکومت سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ 2002 کے گجرات دنگوں میں نریندر مودی کے رول کو اجاگر کرنے والی بی بی سی کی دستاویزی فلم سے پابندی ہٹا دے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر ہندوستان ‘پریس کی آزادی کو تباہ کرنا جاری رکھتا ہے’ تو وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر اپنی شناخت برقرار نہیں رکھ سکتا۔
رپورٹ کے مطابق،نیشنل پریس کلب کے صدر ایلین او ریلی اور نیشنل پریس کلب جرنلزم انسٹی ٹیوٹ کے صدر گل کلین کا بیان مودی حکومت کی جانب سے دستاویزی فلم کو بلاک کرنے پر دیا گیا دوسرا بیان ہے۔ انہوں نے قبل ازیں حکومت کی جانب سے آئی ٹی ضابطوں کے ذریعے ٹوئٹر اور یوٹیوب پر دستاویزی فلموں کو ہندوستان میں بلاک کرنے کی ہدایت پر تنقید کی تھی۔
ایک صدی سے زیادہ پرانے اس پریس کلب میں تین ہزار سے زائد ممبران ہیں۔ اس نے اپنے بیان میں کہا؛
‘ہندوستان کو اس بات پر فخر ہونا چاہیے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، لیکن اگر وہ آزادی صحافت کو سلب کرتا رہا، صحافیوں کو ہراساں کرتا رہا اور اس کی کمیوں کو آئینہ دکھانے والی خبروں کو دباتا رہا تو وہ اپنی اس شناخت کو برقرار نہیں رکھ سکے گا۔جب سے مودی اقتدار میں آئے ہیں، ہم نے مایوسی اور ناامیدی کے ساتھ دیکھا ہے کہ ان کی حکومت نے اپنے شہریوں کے آزادانہ خبروں کے حصول کے حق کو بار بار پامال کیا ہے۔
ہم حکومت ہند سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بی بی سی کی دستاویزی فلم سے پابندی ہٹائے اور ہندوستان کے شہریوں کو خود فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے کہ وہ اس کے نتائج سے متفق ہیں یا نہیں۔ بی بی سی دنیا کے معتبر ترین خبررساں اداروں میں سے ایک ہے اور اپنے اعلیٰ ادارتی معیار کے لیے جانا جاتا ہے۔ ہم حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ ہندوستان میں صحافیوں کو ہراساں کرنے اور آزادی صحافت کو دبانے کا سلسلہ بند کیا جائے۔
معلوم ہو کہ بی بی سی کی دستاویزی فلم ‘انڈیا: دی مودی کویسچن‘ میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سے کرائی گئی تحقیقات (جو اب تک غیر مطبوعہ رہی ہے) میں تشدد کے لیے نریندر مودی کو براہ راست ذمہ دار پایا گیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نریندر مودی اور ملک کے مسلمانوں کے درمیان کشیدگی پر بھی بات کی گئی ہے۔ اس میں فروری اور مارچ 2002 کے مہینوں میں گجرات میں بڑے پیمانے پر ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد میں ان کے کردار کے بارے میں کیے گئے دعووں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم کی پہلی قسط 2002 کے گجرات دنگوں کی بات کرتی ہے، اور مودی اور ریاست کی بی جے پی حکومت کو تشدد کے لیے براہ راست ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ دوسری قسط میں، مرکز میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد–خصوصی طور پر 2019 میں ان کے دوبارہ ااقتدار میں آنے کے بعد–مسلمانوں کے خلاف تشدد اوران کی حکومت کے ذریعے لائے گئے امتیازی قوانین کے بارے میں بات کی گئی ہے۔
حکومت نے20 جنوری کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر اور یوٹیوب کو ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ نامی دستاویزی فلم کے لنکس بلاک کرنے کی ہدایت دی تھی۔
اس سے قبل وزارت خارجہ نے دستاویزی فلم کو ‘پروپیگنڈے کا حصہ’ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں معروضیت کا فقدان ہے اور یہ نوآبادیاتی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔
تاہم، بی بی سی اپنی ڈاکیومنٹری پر قائم ہےاور اس کا کہنا ہے کہ کہ کافی تحقیق کے بعد یہ ڈاکیومنٹری بنائی گئی ہے ،جس میں اہم ایشوز کو غیر جانبداری کے ساتھ اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ چینل نے یہ بھی کہا کہ اس نے اس پر حکومت ہند سے جواب مانگا تھا، لیکن حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔
اس دوران ملک کی مختلف ریاستوں کے کیمپس میں دستاویزی فلم کی نمائش کو لے کر تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو)، دہلی یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نےگزشتہ دنوں اس وقت احتجاجی مظاہرہ کیا تھا، جب یونیورسٹی حکام نے دستاویزی فلم کی نمائش کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق، جہاں طلبہ تنظیموں نے کالجوں/یونیورسٹیوں میں اسکریننگ جاری رکھنے کی کوشش کی وہیں بجلی کاٹ دی گئی اور انٹرنیٹ کنکشن بھی معطل کر دیا گیا۔
اس کے باوجود، ملک بھر میں حزب اختلاف کی جماعتیں اور طلبہ گروپ اس دستاویزی فلم کی عوامی نمائش کرنےکی کوشش کر رہے ہیں، جن میں کچھ معاملوں میں پولیس کے ساتھ تصادم بھی ہوا۔
اس سلسلے میں نیشنل الائنس آف جرنلسٹس، دہلی یونین آف جرنلسٹس اور آندھرا پردیش ورکنگ جرنلسٹس فیڈریشن جیسے صحافتی اداروں نے کہا تھا کہ انہیں مختلف یونیورسٹیوں میں بی بی سی کی دستاویزی فلم نشر کرنے کی کوشش کرنے والے طلبہ اور ان کی یونین پر بڑھتے ہوئے حملوں کو لے کر تشویش ہے۔ہم بہت پریشان ہیں۔ ان کے مطابق یہ پریس کے حقوق اور آزادی پر حملوں کے تسلسل کا حصہ ہے۔
Categories: خبریں