خبریں

بجرنگ دل کے حمایتی فیس بک گروپ میں بندوقیں فروخت کرنے کی پیشکش کی گئی: وال اسٹریٹ جرنل

ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف حملوں کی نگرانی کرنے والے ایک ایکٹوسٹ کی جانب سے رپورٹ کیے جانے کے بعد فیس بک نے متعلقہ پوسٹ کو ہٹانے سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم، جب وال اسٹریٹ جرنل نے اس حوالے سے استفسار کیا تو اس کو ہٹا دیا گیا۔

فیس بک کا لوگو (تصویر: پکسابے)

فیس بک کا لوگو (تصویر: پکسابے)

نئی دہلی:  دی وال اسٹریٹ جرنل (ڈبلیو ایس جے) کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فیس بک کے صارفین نے بجرنگ دل کی حمایت کرنے والے ایک فورم کے اراکین کو ‘پستول، رائفل، شاٹ گن اور گولیاں’ فروخت کرنے کی پیشکش کی ہے۔

اخبار نے بجرنگ دل کو ایک کٹر ہندو تنظیم قرار دیا ہے، جس کی ہندوستان میں تشدد کی تاریخ رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، ایسی آٹھ پوسٹ، جن میں سے کچھ اپریل 2022 کی ہیں، کو ہندوتوا واچ کے بانی رقیب احمد نائیک نے تلاش کیا تھا۔ ہندوتوا واچ ایک ایسا گروپ ہے جو ہندوستان  میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف حملوں کی نگرانی کرتا ہے۔

ڈبلیو ایس جے کے مطابق، رقیب نے جنوری میں اس کے بارے میں میٹا کو رپورٹ کرنا شروع کیا کیونکہ یہ’کمپنی کی عوامی طور پر بیان کردہ پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہیں جو نجی افراد کو فیس بک پلیٹ فارم پر بندوق یا گولہ بارود خریدنے یا فروخت کرنےسے روکتا ہے۔

اخبار کا دعویٰ ہے کہ اس نے ان دستاویزوں کا جائزہ لیا ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ‘فیس بک نے یہ کہتے ہوئے پوسٹ کو ہٹانے سے انکار کر دیا کہ انہوں نے کمپنی کے قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی’۔

اخبار کا کہنا ہے کہ پوسٹ کے بارے میں پوچھ گچھ کے بعد فیس بک نے انہیں 7 فروری کو یہ کہتے ہوئے ہٹا دیا کہ وہ ‘کمپنی کی پالیسیوں کے خلاف’ ہیں۔

اخبار نے میٹا کے ایک ترجمان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ،ہم لوگوں کو ہمارے ایپ پر بندوقیں خریدنےیا فروخت کرنے سے روکتے ہیں، اور خلاف ورزی کرنے والے مواد کودیکھتے ہی  ہٹا دیتے ہیں۔اخبار کا کہنا ہے کہ ترجمان نے ‘اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ پوسٹ کو پہلی بار رپورٹ کرنے کے بعد کیوں نہیں ہٹایا گیا۔’

بندوقیں خریدنے کی پیشکش کرنے والی پوسٹس کو اب ہٹا دیا گیا ہے۔

غورطلب ہے کہ 2018 میں بجرنگ دل وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے یوتھ ونگ سمیت امریکی سینٹرل انٹلی جنس ایجنسی کی جانب سے ایک ‘عسکریت پسند مذہبی تنظیم’ مانا گیا تھا۔ ڈبلیو ایس جے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سالوں میں بجرنگ دل کے ارکان ہندوستان میں ‘مذہبی بنیادوں پر قتل’ کے الزام میں جیل گئے ہیں۔

بجرنگ دل اور وی ایچ پی کے ایک ترجمان نے اخبار کو بتایا کہ بجرنگ دل کے بارے میں امریکی حکومت کا اندازہ غلط ہے، اس کا کوئی بھی رکن بندوق وغیرہ نہیں خریدتااور تنظیم تشدد پر یقین نہیں رکھتی۔

قابل اعتراض پوسٹ میں کیا تھا؟

بجرنگ دل کی حمایت کرنے والے پانچ گروپوں میں بندوقیں بیچنے کی پیشکش کرنے والی پوسٹ ہندوتوا واچ کے بانی رقیب احمد نائیک نے دیکھی تھیں۔ڈبلیو ایس جےکی طرف سے جائزہ لی گئی پوسٹس کے مطابق، کچھ لوگوں نے مبینہ طور پر وعدہ کیا تھا کہ وہ 24 گھنٹوں کے اندر بندوقیں فراہم کر سکتے ہیں۔

اخبار کی رپورٹ کے مطابق، ایک پوسٹ میں’ایک صارف نے پانچ پستول کی تصاویر شیئر کی تھیں، جن میں سے کچھ سلور اور کچھ  سیاہ رنگ میں تھی، ایک موٹر سائیکل کی سیٹ پر رکھی ہوئی تھی اور دوسری کسی کے ہاتھ میں تھی۔ ایک تصویر میں گولیاں بھی تھیں۔

ڈبلیو ایس جے کے مطابق، ہندی میں ایک پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ‘بھائی’ کو ‘دیسی کٹے’ کی ضرورت ہے تو وہ دیے گئے موبائل نمبر پر وہاٹس ایپ پر رابطہ کریں۔

جب نائیک نے وہاٹس ایپ کے ذریعے بیچنے والے سے رابطہ کیا تو اس شخص نے کہا کہ بندوقیں 11000 روپے فی پیس نقد  کے حساب سے خریدی  جا سکتی ہیں۔

اخبار نے کہا ہے کہ اس کے ذریعے دیکھے گئے الگ الگ  پوسٹ میں بجرنگ دل کی طرف جھکاؤ رکھنے والے فیس بک گروپ کے صارفین نے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔

پس منظر

دو سال پہلے ڈبلیو ایس جے نے فیس بک کے اندرونی دستاویزوں  پر بھی ایک رپورٹ کی تھی جس میں بتایا گیا کہ کس طرح کمپنی کے پلیٹ فارم اشتعال انگیز مواد سے بھرے ہوئے ہیں، اور ‘ان میں سے ایک اندرونی رپورٹ ہندوستان میں ہوئے  مذہبی فسادات سے جڑی ہوئی تھی’۔

فیس بک نے اس وقت کہا تھا کہ کمپنی نے مختلف زبانوں میں ہیٹ اسپیچ  کا پتہ لگانے کے لیے ٹکنالوجی میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے اور عالمی سطح پر پلیٹ فارم پر اس طرح کا مواد کم ہو رہا ہے۔ لیکن، ہندوستان  کی رپورٹ کبھی جاری نہیں کی گئی۔

ہندوستان کے لیےاپنے  انسانی حقوق کے اثرات کا جائزہ جاری نہ کرنے کے لیے بھی فیس بک کوتنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس کے بعد، 2020 میں فیس بک کے یہ کہنے کے باوجود کہ بجرنگ دل ممکنہ طور پر ایک ‘خطرناک تنظیم‘ ہے جس پر فیس بک کو پابندی لگا دی جانی چاہیے، فیس بک نے پھر بھی کوئی کارروائی نہیں کی۔

بجرنگ دل اور وی ایچ پی کے ترجمان نے ڈبلیو ایس جے کو بتایا کہ فیس بک کے ملازمین کے پاس’بجرنگ دل کے اراکین سے خوفزدہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔’انہوں نے یہ بھی کہا کہ فیس بک پر بجرنگ دل کی کوئی آفیشیل  موجودگی نہیں ہے، حالانکہ تنظیم کو حمایت دینے والے گروپ اور پیج  ہو سکتے ہیں۔