نثری ادب کو باقاعدہ خطابت کی شکل دینا ضیا صاحب کا ہی کارنامہ ہے۔ انہوں نے اپنے مغربی اسٹیج اور فلم کی اداکاری کےتجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے اردو تحاریر کے جسم میں گویا روح پھونک دی۔ کردار کاغذ سے اٹھ کر حاضرین سےہم کلام ہوگئے اور سامعین چشمِ تصور سے ان کرداروں کی جزئیات میں کھو گئے۔
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں نہ ایسی سنیے گا
جو پڑھتے کسو کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا
فیض احمد فیض صاحب کے انتقال کو دو سال سے کچھ کم عرصہ گزرا تھا جب ہمارے ایک ماموں ولایت سے ای ایم آئی کا ایک آڈیو کیسٹ لائے جس پر لکھا تھا فیض صاحب کی محبت میں، ضیا محی الدین۔ فیض صاحب کےکام اور ضیا محی الدین کے نام سے تو مجھے آگاہی تھی مگر اس سے قبل ثانی الذکر کے کام کا فقط ذکر ہی سن رکھا تھا۔
ضیا محی الدین پاکستان ٹیلی ویژن ( پی ٹی وی) کے مایۂ ناز فنکاروں میں سے تھے اور ان کے نام سےموسوم ضیا محی الدین شو ستر کی دہائی کے مقبول ترین پروگراموں میں سے تھا۔ اس سے قبل ہی وہ انگلستان میں اسٹیج پر بھی نام پیدا کرچکے تھے۔
مگر جب جنرل ضیا الحق کا مارشل لگا تو وہ بھی فیض صاحب ہی کی طرح ترک وطن کرکے انگلستان میں جا رہے۔ ادھر پی ٹی وی پر ان کے پرانے پروگرام دکھانے پر شاید غیراعلانیہ پابندی تھی اور سرکاری ٹی وی پر فیض صاحب کا کلام نشر ہونا تو خارج از امکان تھا۔ پاکستان کے روشن فکرطبقے کے لیے وہ کیسٹ اور اس میں تحت اللفظ پڑھا گیا کلام گویا پیرہنِ یوسف تھا جو واپس کنعان آ پہنچا تھا۔
سو میں نے بھی اس تبرک کو آنکھوں سے لگایا اور کانوں سے سنا۔ پاکستان میں مختلف زبانوں میں محافل مشاعرہ و مسالمہ عام تھیں، انفرادی طور پر کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر بھی مروج تھا، محرم کی مجالس میں سلام و مرثیہ خوانی میں قدماء و معاصرین کے کلام بھی پڑھے جاتے تھے۔ مگر کسی شاعر کے کلام کو یوں باقاعدہ پڑھ کر اس کی یوں نشر و اشاعت پہلی بار ہوئی اور کیا خوب ہوئی؛
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
اور اگر دل میں پہلے نہیں بھی تھا تو سننے کے بعد یقیناً جاگزیں ہوگیا۔ سن چھیاسی کے اس کیسٹ میں موجودکلام آج تک مجھ سمیت ہزارہا لوگوں کے حافظے میں محفوظ ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ضیا صاحب نے منظوم کلام پڑھنے اور پھر بعد میں نثر خوانی کی جو راہ نکالی وہ سماعتوں سے گزر کر دِلوں میں اترتی رہی۔ اس ابتدائی کیسٹ کے بعد ضیا صاحب نے ای ایم آئی کے ساتھ ایک نظم و نثر پڑھنے کا ایک سالانہ سلسلہ شروع کیا جس کےتین کیسٹ سن نوّے سے بیانوے میں جاری ہوئے۔
آج ان کے اس خزانے کو جس کے بائیس موتی میرے پاس محفوظ ہیں پڑھنت کہا جاتا ہے مگر تب ضیا محی الدین ریڈس یا ضیا محی الدین کے ساتھ ایک شام کے نام سے جانا جاتا تھا۔ مجھے لفظ پڑھنت کچھ نامکمل سا لگتا کہ اس کے لغوی معنی سحر، منتر وغیرہ پڑھنے کے ہیں۔ ضیاصاحب کا پڑھنا سامعین کو مسحور تو یقیناً کرتا ہے مگر لفظ پڑھنت شاید اس کی جادوئی جامعیت کا مکمل احاطہ نہیں کرسکتا۔
ضیا صاحب نے کلام کی اس صنف میں کئی اصناف یوں سموئی ہیں کہ گویا ایک گلدستہ ہےکہ جس کا ہر پھول اپنی جگہ بھی بہار دیتا ہے مگر یکجا ہوکر مزید جانفزا ہوجاتا ہے۔ قدیم لاطینی مفکر،سیاستدان اور خطیب مارکوس تولیوس سیسرو نے فن خطابت پر اپنے رسالے میں لکھا ہے کہ، ایک مقرر کومنطقیوں کی تیزی، فلسفیوں کی دانائی، شاعروں کی سی زبان، وکیلوں کا حافظہ، نوحہ گروں کی آواز اورعمدہ اداکار کی صراحت اور اشارے درکار ہیں ۔
In an orator, the acuteness of the logicians, the wisdom of the philosophers, the language almost of poetry, the memory of lawyers, the voice of tragedians, the gesture almost of the best actors, is required
میں نہیں جانتا کہ سیسرو کا رسالہ ضیا صاحب کے پیش نظر رہا ہوگا یا نہیں لیکن ان کا پڑھنا اور بالخصوص نثرخوانی اردو زبان کی داستان گوئی و فنکاری، انگریزی اسٹیج کی اداکاری و صدا کاری، اور جملہ ادبیات کی سادگی و پُرکاری کا باکمال و لازوال آمیختہ ہے، کسی رٹے رٹائےمنتر کا سیدھا سپاٹ جاپ نہیں۔
ضیا صاحب نے نثر خوانی کی جس روش کی طرح ڈالی وہ خود ہی اس کے خاتم بھی ہیں۔ اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایسے خواص ایک شخص میں شاذ و نادر ہی جمع ہوتے ہیں۔
برصغیر میں اردو داستان گوئی اور داستان امیر حمزہ و طلسم ہوشربا لازم و ملزوم ہیں۔ مگر داستانیں پابندِ تحریرنہ تھیں۔ یہ سینہ بہ سینہ چلی آتی تھیں اور زبانی کلامی سنائی جاتی تھیں، تاوقتیکہ منشی نول کشور نے محمدحسین جاہ و دیگر داستان گو اصحاب سے لکھوا نہ لیں۔ اس کے برعکس جدید اردو نثری اصناف جیسے مضمون،افسانہ، خاکہ اور طنز و مزاح وغیرہ کا جنم ہی احاطۂ تحریر کے اندر ہوا۔ نتیجہ اس کا یہ کہ جو ادب پارہ صفحۂقرطاس کا پابند ہے اس کے بہ آوازِ بلند پڑھنے والے کو بھی کئی رسوم و قیود کا پاس کرنا پڑے گا۔
اس کی روایت اردو میں خال خال ہی ملتی ہے اور بھی بیشتر ادیبوں کی نجی محفلوں میں کہ جہاں لکھنے والے نے اپنا افسانہ یا ناول کا باب اپنے ہم عصروں کو خلوت میں یا زیادہ سے زیادہ کسی کافی ہاؤس یا ادبی محفل میں سنایا۔
نثری ادب کو باقاعدہ خطابت کی شکل دینا ضیا صاحب کا ہی کارنامہ ہے۔ انہوں نے اپنے مغربی اسٹیج اور فلم کی اداکاری کےتجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے اردو تحاریر کے جسم میں گویا روح پھونک دی۔ کردار کاغذ سے اٹھ کر حاضرین سےہم کلام ہوگئے اور سامعین چشمِ تصور سے ان کرداروں کی جزئیات میں کھو گئے۔
ضیا صاحب نے انگریزی اسٹیج کےdeclamation یا elocution اور اردو نثر کے ادغام میں ادبی ہیئت کو برقرار رکھا بلکہ اس تجسیم کو آواز سےآراستہ اور نُطق سے پیراستہ کیا۔
آواز کا اتار چڑھاؤ، لہجے کا زیروبم، متن کی ترتیل و تصریف، الفاظ کا بہاؤ اوراس سے بھی بڑھ کر ٹھہراؤ، ضیا صاحب کی ادائیگی کا ہی خاصہ ہے۔ حافظ شیرازی کہتا ہے کہ؛
؏ ہر سخن وقتی و ہر نکتہ مکانی دارد
یعنی ہر بات کا ایک مناسب وقت اور ہر نکتے کا ایک صحیح مقام ہوتا ہے۔ ہندوستان کے معروف فلمی ہدایتکار اورسنیماٹوگرافر نتن بوس نے ایک مرتبہ دلیپ کمار سے کہا تھا کہ ٹاکیز یعنی بولتی فلموں میں جہاں سب بولتے ہیں،سب سے ڈرامائی کیفیت خاموشی سے پیدا ہوتی ہے۔
دلیپ صاحب کی طرح ضیا صاحب بھی توقف یعنی pauseکو ایسے سلیقے سے برتتے تھے کہ بولے گئے فقرے میں جان پڑ جاتی تھی۔
ضیا صاحب فنا فی الشیکسپیئر تھے اوراس کی تھیٹریکل روایات کے امین۔لیکن گو کہ نثر خوانی ان معنوں میں تو خطابت نہیں ہے کہ جو سیسرو کی مراد تھے مگر ضیا صاحب میں کئی وہ خواص بدرجۂ اتم موجود تھے جن کا ہونا اس عظیم رومی نے ضروری گردانا تھا۔
وہ نہایت ذکی و طباع تھے اور بے مثال حافظہ اور کٹیلی حس مزاح جس پر طنز کا بھی گمان ہوتا تھا،رکھتے تھے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سخن فہم بھی تھے اور غالب کے طرفدار بھی۔ انہوں نے غالب کے خطوط کا ایک انتخابِ لاجواب بھی تین اقساط میں پڑھا تھا جو خاصے کی چیز ہے۔
غالبؔ کے کلام کو درست پڑھنےکےبارے میں وہ غالب کے شاگرد رشید میر مہدی مجروح کے ایک مشہور جملے کا حوالہ دیا کرتے تھے۔ مجروح کے سامنےکسی نے غالب کا شعر غلط پڑھ دیا تو وہ چیں بہ جبیں ہوکر بولے میاں ٹھیک سے پڑھو، یہ استاد کا کلام ہے،(نعوذبالله) قرآن و حدیث تھوڑا ہے کہ جیسا جی چاہا پڑھ دیا۔
ضیا محی الدین شو سے لے کر موجودہ دور تک وہ اخبار و رسائل اور ٹیلی ویژن والوں کے اردو انگریزی گرامر اور تلفظ دونوں سے سخت منغز رہے۔ کئی مرتبہ کہتے تھےوہ ٹیلی ویژن پر بولی جانے والی بھونڈی زبان کی وجہ سے ٹی وی دیکھتے ہی نہیں۔
محمد حسین آزاد نے آب حیات میں میر تقی میر کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ دلی سے لکھنؤ جاتے ہوئے میر صاحب کو مجبوراً کسی کے ساتھ شریک سواری لینا پڑی۔ راستے میں ان صاحب نے میر سے کہا کہ حضرت کچھ بات چیت کیجیے۔ میر بولے “قبلہ، آپ نےکرایہ دیا ہے، ے یشک آپ گاڑی میں بیٹھیے، مگر باتوں سے کیا تعلق۔”ان صاحب نے کہا کہ ’حضرت کیا مضائقہ ہے، راہ کا شغل ہے، باتوں میں ذرا جی بہلتا ہے۔‘ میر بگڑ گئے اور کہا ’خیر آپ کا شغل ہے، میری زبان خراب ہوتی ہے۔‘
ضیا صاحب کو میر کی طرح زبان کی فکر بھی تھی اور انہی کی طرح کچھ نازک مزاج بھی تھے۔ مگر حق پر۔اصول کی بات یہ ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو پروفیشنل یعنی پیشہ ور میزبان یا اینکر کہہ کر ٹیلی ویژن یا ریڈیو پراردو یا کوئی اور زبان بولنے کا معاوضہ لے رہا ہے اسے حتی الوسع اس زبان کے تلفظ اور ساخت کا خیال رکھناچاہیے کہ یہی پیشہ ورانہ دیانت ہے۔
زبانیں ساخت syntax سے بنتی ہیں الفاظ سے نہیں۔
زبانوں میں الفاظ آتے جاتےاور رائج یا متروک ہوتے رہتے ہیں لیکن جب تک مستعمل ہوں ان کا درست تلفظ زبان کی زیبائش ہوتا ہے۔ جن اجزاءترکیبی پر زبان کی فصاحت کا دارومدار ہے ان میں صرف و نحو یعنی prosody اور grammar سرِ دفتر ہیں۔
کہاجاتا ہے کہ جب علی المرتضیٰ نے ابو اسود الدولی کو عربی گرامر کے اصول مرتب کرنے کے احکامات دیے اور وہ اپناکام آپ کو دکھانے کے لیے لایا تو آپ نے کہا “ما أحسن هذا النحو الذي نحوت” یعنی تو نے جو راستہ یا طریقہ اختیارکیا ہے وہ کیا ہی خوب ہے۔ تب سے اب تک عربی اور پھر اردو میں گرامر کو نحو کہتے ہیں۔ اردو کے اسی راستے کی پابندی ضیا صاحب نے عمر بھر کی۔
مگر یہ کٹھن راہ بغیر بے پناہ وسعتِ مطالعہ کے نہیں اپنائی جا سکتی اورنظم و نثر خوانی میں ضیا صاحب کے منتخبات اس کے گواہ ہیں۔ غالب، فیض، ن م راشد، مشتاق احمد یوسفی، ابن انشاء سے لے کر ڈپٹی نذیر و شاہد احمد دہلوی ، فرحت اللّہ بیگ، اسد محمد خان،محمد علی رودولوی، انصار ناصری اور ائیر مارشل ظفر احمد چوہدری تک ایک ایک انتخاب لافانی اور ضیا صاحب کی ادائیگی لاثانی۔
ضیا محی الدین نے اپنے سننے والوں کو کئی ایسے شعراء و ادباء سے روشناس کیا جن سے وہ نا آشنا تھے اور اس سے بڑھ کر بہت سے اکابرین ادب کا تعارف یوں کروایا کہ وہ اب سامعین کے کانوں میں ضیا صاحب کی آواز میں ہی بولتے ہیں۔
یہ آواز سوموار13 فروری کو کراچی میں خاموش ہوگئی۔ جب خبر پڑھی تو ساتھ ہی جیسے اسد محمد خان کی کہانی باسودے کی مریم کی چند سطریں ضیا صاحب کی ہی آواز میں سنائی دیں کہ؛
یٰسین شریف پڑھو حسن، حسین کے نام پر، یٰسین شریف پڑھو بڑے میاں جی کے نام پر، یٰسین شریف مریم کے نام پر اور ان کے ممدو کے نام پر کہ ان سب کے خوبصورت ناموں سے تمہاری یادوں میں چراغاں ہے۔
سو یٰسین شریف پڑھیں ضیا محی الدین کے نام پر …
(ڈاکٹر محمد تقی پاکستانی ،امریکی کالم نگارہیں،@mazdakiان کا ٹوئٹر ہنڈل ہے۔)
Categories: ادبستان