وڈودرا کے ‘ہندو’ اکثریتی علاقے میں ایک مسلمان شخص کے دکان خریدنے پر اعتراض کرنے والی عرضی کو لے کر گجرات ہائی کورٹ نے عرضی گزاروں پر 25000 روپے کا جرمانہ عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ رویہ ‘پریشان کن’ ہے۔
نئی دہلی: گجرات ہائی کورٹ نے ایک ہندو شخص کی طرف سےایک مسلمان شخص کو اپنی دکان فروخت کرنے پر اعتراض کرنے والے لوگوں پر 25000 روپے کا جرمانہ عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ رویہ ‘پریشان کن’ ہے۔
بار اینڈ بنچ کے مطابق، سنگل بنچ کے جسٹس بیرین ویشنو نے کہا، یہ پریشان کن رویہ ہے کہ ایک ‘ڈسٹربڈ ایریا’ میں جائیدادلینے والے ایک خریدارکو ہراساں کیا جا رہا ہے اور اسے اس کی خریدی گئی جائیداد سے فائدہ اٹھانے کی کوشش سے محروم کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ایک مسلمان شخص نے وڈودرا کے علاقے میں، جس کو ہندو اکثریتی علاقہ مانا جاتا ہے، میں ایک ہندو شخص سے دکان خریدی تھی۔ ہائی کورٹ میں درج معاملےکے درخواست گزار اس سودے کے گواہ تھے، جنہوں نے 2020 میں دونوں فریقوں کے درمیان فروخت کے معاہدے پر دستخط کیے تھے، لیکن اب دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
خبروں کے مطابق، کلکٹر اور مقامی پولیس نے بھی اس فروخت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے ‘توازن’ متاثر ہو سکتا ہے اور لاء اینڈ آرڈر کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ 2020 میں ہائی کورٹ نے ان اعتراضات کو خارج کر دیا تھا۔
جب یہ لین دین سب رجسٹرار کے پاس رجسٹرڈ ہونا تھا تو ان گواہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ زبردستی کی گئی تھی۔
مسلمان شخص کو ملنے والی والی دکان سے ملحقہ دس سے زائد دکانداروں نے اضافی دیوانی درخواست دائر کی تھی۔
سال2021 میں، گجرات ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو گجرات ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ 1991 کی دفعہ 3(1)(ii) کے تحت آنے والے کسی بھی علاقے کو ‘ڈسٹربد ایریا’ قرار دینے سے روک دیا تھا۔ اس کے حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ اس سے کسی ‘ایک کمیونٹی’ سے تعلق رکھنے والے فرد کی ‘غیر مناسب کلسٹرنگ’ ہو سکتی ہے۔
Categories: خبریں