آن لائن کارآنر شپ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ جنید–ناصر کو اغوا کرنے کے لیے استعمال کی گئی سفید رنگ کی اسکارپیو کار ہریانہ حکومت کے پنچایت اورڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ کی ہے۔ تاہم، پولیس نے دی وائر کو بتایا کہ حال ہی میں اس کی ‘نیلامی ‘ کر دی گئی تھی۔ بتادیں کہ گائے اسمگلنگ کے الزام میں دونوں مسلم نوجوانوں کوزندہ جلا دیا گیا تھا۔
نئی دہلی: ہریانہ میں مبینہ طور پر گائے کی اسمگلنگ کے الزام میں ہوئے جنید اور ناصر مرڈر کے تار ایک سفید اسکارپیوجسے جڑے ہوئےہیں، جس کا استعمال پہلے بھی اغوا اور پرتشدد سرگرمیوں کو انجام دینے کے لیےکیا گیا ہے۔ دی وائر کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے۔
کارآن لائن آنر شپ ویب سائٹس پر بھی لسٹڈ ہے، کیونکہ اس کار کا تعلق ہریانہ حکومت سے ہے۔
پولیس کے مطابق، ناصر اور جنید کو اغوا کرنے کے لیے ایک سفید رنگ کی اسکارپیو کار (لائسنس نمبر ایچ آر 70ڈی 4177) کے استعمال کرنے کی بات کہی جار ہی ہے۔ بعد میں دونوں کو انہی کی کار میں ہریانہ کے بھیوانی ضلع میں زندہ جلا کر مار ڈالا گیا تھا۔
#Bharatpur
➡️थाना #गोपालगढ के #अपहरण_कर_हत्या एवं जलाने के मामले में हुआ बडा खुलासा
➡️आरोपियों द्वारा घटना में प्रयुक्त #स्काॅर्पियों HR70 D 4177 को #जींद #हरियाणा से किया बरामद
➡️घटना में संलिप्त वांछित 8 आरोपियों की गई पहचान#भरतपुर @RajCMO @PoliceRajasthan @police_haryana pic.twitter.com/1qZaqONmN8— Bharatpur Police (@BharatpurPolice) February 22, 2023
راجستھان پولیس22 فروری کومرڈر کیس کے ملزم وکاس کی تلاش میں ہریانہ کے جند ضلع پہنچی تھی۔ وکاس کے گھر پر نہ ملنے پر پولیس نے کیتھل روڈ پر واقع گئو سیوا دھام وکلانگ گئو شالا کی تلاشی لی، جہاں معذور مویشی رکھے جاتے ہیں۔
ادھر، پولیس نے اس اسکارپیو کار کو برآمد کر لیا ہے، جس میں ملزم مبینہ طور پر جنید اور ناصر کو راجستھان کے بھیوانی لے گئے تھے، اور اس واردات کو انجام دیا تھا۔ راجستھان پولیس کے مطابق کار کی سیٹ پر خون کے نشانات بھی ملے ہیں۔
بجرنگ دل کے لیڈر اور ہریانہ حکومت کی گئو رکشا ٹاسک فورس کے رکن مونو مانیسر اس کیس کے ملزمین میں سے ایک ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس کے تین لاکھ سے زیادہ فالوورز ہیں اور 1 لاکھ سبسکرائبرز کا ہندسہ پار کرنے کے بعد یوٹیوب سے انہیں ‘سلور پلے بٹن’ ملا ہواہے، جہاں وہ پرتشدد مواد پوسٹ کرتے ہیں۔
ہم نے پایا کہ مونو اور ان کی ٹیم نے ہندوتوا پاپ میوزک کے ساتھ کم از کم چار ویڈیوز اپ لوڈ کیے تھے، جن میں گئو رکشکوں کے ذریعے مسلم نوجوانوں کےاغوا، حملے، بندوق سے تشدد اورمظالم کو دکھایا گیا تھا۔ ان میں سے دو ویڈیوز میں اسی کار کو دکھایا گیا ہے، جو کچھ شاٹس میں واضح طور پر نظر آتی ہے۔
ایک ویڈیو میں میوات کے ایک گھر پر چھاپے کو کور کیا گیا تھا، جس میں بندوق کی نوک پر ایک’صاحب’ کواغوا کر لیا گیا تھا۔ اس ویڈیو میں اسکارپیو کار ایچ آر 70ڈی 4177 واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے۔
ایک اور ویڈیو میں ایک بزرگ شخص کو گئو رکشکوں کے ہاتھوں مارا پیٹا جاتا ہے، پھر برہنہ کر کے گھمایا جاتا ہے۔ اسے بدنام زمانہ جامعہ شوٹر نے بھی شیئر کیا تھا، جو مونو مانیسر کا قریبی ساتھی ہے۔
ایک اور ویڈیو میں، جسے مونو نے اپنے انسٹاگرام پر کیپشن کے ساتھ پوسٹ کیا تھا،’یہ کباڑ چننے والا ہماری سینا اور ہندوؤں پر پتھر پھینکتے ہیں۔’ویڈیو میں کچھ لوگوں بڑے بانس کے ڈنڈوں سےموٹر سائیکل پر سوار ایک شخص پر حملہ کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔آدمی کو اس وقت تک پیٹا جاتا ہے جب تک کہ وہ درد سے کراہتا ہوا زمین پر گر نہیں جاتا۔
چوتھا ویڈیو سفید رنگ کی ایس یو وی میں قید ایک بوڑھے کا ہے۔ اس کے چہرے پر خون کے دھبے اور چوٹ کے نشان ہیں۔ ایک جگہ اس کی داڑھی کھینچی جاتی ہے اور وہ بے ہوش ہوجاتا ہے۔ بعد میں گئو رکشکوں کو انہیں جزوی طور پر برہنہ حالت میں زمین پر گھسیٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
Rambhakt Gopal Sharma uploaded a video on his Instagram where people in car TERRORISING young girls & kids by showing guns. The video caption reads 'Gau Raksha Dal, Mewat road, Haryana'.
Hello @DGPHaryana @police_haryana, #ArrestRamBhaktGopalpic.twitter.com/IhRTm3dWBm— Mohammed Zubair (@zoo_bear) April 24, 2022
گزشتہ سال ان ویڈیوز کے وائرل ہونے کے بعد اس کار کو اس طرح کی پرتشدد سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
کئی متاثرین نے الزام لگایا ہے کہ جنید اور ناصر سمیت اس طرح کے حملوں کے پیچھے مونو مانیسر کی ٹیم کا ہاتھ ہے۔ اگرچہ مونو نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
اسکارپیو کار ایچ آر 70 ڈی 4177 کی تصویریں کئی گئو رکشکوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پوسٹ کی گئی ہیں، جن میں مونو مانیسر کے ساتھ کئی تصویریں بھی شامل ہیں۔ ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہتھیاروں اور زخمیوں کی فوٹیج سے بھرے ہوئے ہیں۔
ایک ویڈیو میں اسکارپیو کار کو پولیس کی گاڑی کے ساتھ کاروں کے بیڑے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک اور ویڈیو میں کار تباہ شدہ حالت میں نظر آ رہی ہے، جس میں بڑے ڈینٹ ہیں اور اس کا پچھلا کانچ ٹوٹا ہوا ہے۔
جب ہم نے اس کار کی ملکیت کا پتہ لگانے کی کوشش کی- جو کہ پچھلے سال اس علاقے میں گئو رکشکوں سے متعلق تشدد اور اس وقت جنید-ناصر قتل کیس کے درمیان ایک کڑی کے طور پر ابھری ہے – ہم نے پایا کہ آن لائن ریکارڈ بتاتے ہیں کہ یہ ڈیولپمنٹ اور پنچایت آفس کے نام پر رجسٹرڈ ہریانہ حکومت کی گاڑی ہے۔
کار کی ملکیت کی تفصیلات جاننے کے لیے جب ہم گوپال گڑھ اسٹیشن ہاؤس آفیسر رام نریش کے پاس پہنچے تو انھوں نے کہا، ‘گاڑی ہریانہ حکومت کے پنچایت اور ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ کی تھی، لیکن اس کی نیلامی کی گئی تھی۔’
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ جانتے ہیں کہ گاڑی کا نیا مالک کون ہے تو ایس ایچ او نے کہا کہ انہیں کوئی علم نہیں ہے۔
دی وائر نے ہریانہ پنچایت اور ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ کو اس بات کی تصدیق کے لیے ای میل کیا ہے کہ کیا وہ ابھی بھی کار کے مالک ہیں یا کیا وہ جانتے ہیں کہ کار پرتشدد سرگرمیوں کو انجام دینے کے لیے استعمال کی جا رہی تھی۔
ان کاجواب موصول ہونے کے بعد یہ رپورٹ اپ ڈیٹ کر دی جائے گی۔
معلوم ہو کہ راجستھان کے بھرت پور ضلع کے گھاٹ میکا گاؤں کے دو رہائشی جنید اور ناصر 14 فروری کی صبح اپنے ایک رشتہ دار سے ملنے کے لیے بولیرو کار سے گھر سے نکلے تھے اور پھر کبھی نہیں لوٹے۔ ان کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ بجرنگ دل کے لوگوں نے جنید اور ناصر کا قتل کیا اور پولیس سے رجوع کیا۔ ان کی جلی ہوئی لاشیں ایک دن بعد 16 فروری کو ہریانہ کے بھیوانی ضلع کے لوہارو میں ملی تھیں۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔
Categories: خبریں