سخن ہائے گفتنی: ایک مسلمان وہ نہیں کہہ سکتا جو ایک ہندو کہہ سکتا ہے؟ ایک کشمیری وہ نہیں کہہ سکتاہے جو دوسرے لوگ کہہ سکتے ہیں۔آج یکجہتی، بھائی چارہ اور دوسروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہوگیا ہے ،لیکن ایسا کرنا نہایت خطرناک اور جان جوکھم میں ڈالنے کی طرح ہے ۔
(ارندھتی رائے کے اسٹوارٹ ہال میموریل لیکچر کامکمل متن جو30ستمبر 2022 کو لندن کے کون وے ہال میں منعقد جلسے میں دیاگیا تھا۔)
اسٹوارٹ ہال میموریل لیکچر کے لیے مدعو کرنے کے لیے میں آپ کی مشکور وممنون ہوں۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسےعرصہ سے ہم لوگ اس کےمنتظرتھے۔شاید میں کبھی اس خوشی اور مسرت کو بھلا نہیں پاؤں گی جومجھے اس وقت یہاں اپنے ہی جیسے لوگوں کے درمیان محسوس ہورہی ہے۔
وبا کا قہر کسی حد تک کم تو ہوا ہے لیکن ابھی تک ہم میں سے بہت سے لوگ اس سے ملے اندوہ ناک دردوغم سے ابھرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔مجھے یہ یقین ہی نہیں ہوتا ہے کہ میں اسٹوارٹ ہال سے کبھی ملی ہی نہیں،بلکہ مجھے تو انہیں پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم دونوں نے ایک طویل عرصہ ہنستے بولتے ایک ساتھ گزارا ہے۔
اس لیکچر کا موضوع’تھنگس دیٹ کین ایند کین ناٹ بی سیڈ‘میری ایک مختصر سی کتاب کانام ہے جو میں نے ایکٹر جان کیوسک کے ساتھ مل کرلکھی ۔یہ روس میں کیے گئے ایک سفر کے متعلق ہے جو 2013 میں ہم دونوں نے ماسکومیں موجودایڈورڈ اسنوڈین سے ملاقات کے لیے کیا تھا۔اس سفر میں ہمارے ساتھ ڈینیئل ایلسبرگ بھی تھے۔
ان لوگوں کے لیے یہ واضح کردوں جو شاید اس وقت کافی چھوٹے رہے ہوں گے کہ اسنوڈین جرائم کو بے نقاب کرنے والے وہ صحافی تھے جنھوں نے امریکی وزارت دفاع کی ویتنام جنگ کے دوران،تواتر سے کی گئی، دروغ گوئی کو دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ دنیا کے سامنے اجاگر کیا تھا۔
اسنوڈین جس نے ہم کو سالوں پہلے خبردار کر دیا تھا کہ ہم بالکل بے خبری کی حالت میں،جیسے کوئی نیند میں چل رہا ہو، آہستہ آہستہ قیدوبند اور جبر و قہر کے ساتھ نگرانی کرنے والی حکومتوں کے دور میں اپنے ایک نہایت عزیز چھوٹے سے دوست، فون کے ساتھ داخل ہورہے ہیں۔یہ چھوٹا سا ہمارا دوست اب ہمارے جسم کے ایک اہم عضو کی طرح، ہماری زندگی کا ایک حصہ بن گیا ہے۔
وہ ہر وقت ہماری نگرانی کرتا رہتا ہے اور ہماری پل پل کی نہایت ذاتی قسم کی حرکات و سکنات ریکارڈ کر کے ترسیل کرتا رہتا ہے تاکہ ہر وقت ہماری نگرانی کی جاسکے اور بہ آسانی ہمارا تعاقب کیا جاسکے، ا ور اس طرح ہم پر مکمل قابو حاصل کر کے ہم کو ایک معیاری قسم کا ‘فرماں بردار’ پالتوبنایا جاسکے۔ یہ صرف حکومتیں ہی نہیں کر رہی ہیں بلکہ ہم سب بھی ایک دوسرے کے ساتھ کر رہے ہیں۔
تصور کیجیے کہ اگر آپ کا جگر یا پِتّاصحیح کام نہیں کر رہا ہے تو ڈاکٹر آپ سے یہی کہے گا کہ آپ ایک موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ بس سمجھ لیجیے کہ ہماری یہی حالت ہے، اب ہم اپنے اس دوست نمادشمن ‘فون’ کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے، لیکن یہ ستم گر ہمارے اندر سب کچھ کر رہا ہے۔ میں آج اپنی بات ‘کہی جاسکنے اور نہ کہی جاسکنے’والی باتوں سے شروع کروں گی اور اُس کے بعد اپنی اس نہایت جانی پہچانی خوبصورت دنیا کے بکھرنے کا ذکر کروں گی۔
یہ سال اُن لوگوں کے لیے بدتر تھا، جنھوں نے وہ باتیں کہی تھیں یا کی تھیں،جن کا کہنا یا کرنا منع تھا۔ ایران میں 22سالہ مہسا امینی کو اس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ ‘گشت ارشاد’ یعنی اخلاقی پولیس کی حراست میں تھی، اس کا گناہ یہ تھا کہ اس نے حکومت کی ہدایت کے مطابق اسکارف نہیں پہنا تھا۔ اس کے بعد جو احتجاجی مظاہرہ ہوا اور جو اس وقت جاری ہے اس میں بہت سے لوگ مارے گئے۔
دریں اثنا، ہندوستان کی جنوبی ریاست کرناٹک میں اسکول میں پڑھنے والی مسلم بچیوں نے اپنی مسلم شناخت کو واضح کرنے کے لیے جب اپنے کلاس روم میں حجاب پہنا تو دائیں بازو کےشدت پسند ہندوؤں نے اُن کو جسمانی طور پرہراساں کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہندو اور مسلمان صدیوں سے مل جل کر رہتے چلے آرہے ہیں، لیکن حال ہی میں انتہائی خطرناک حد تک پولرائز ہوچکے ہیں۔
دونوں واقعات — کہ ایران میں حجاب کی پابندی اور ہندوستان اور دوسرے ممالک میں حجاب کی ممانعت—دو متضاد باتیں نظر آتی ہیں،لیکن اصل میں ایسا ہےنہیں، عورتوں کو زبردستی حجاب پہننے پر مجبور کرنا،یا نہ پہننے پر مجبور کرنا دراصل دونوں ہی جبر و استبداد کے مترادف ہیں۔ان کے کپڑے اتارو، ان کو کپڑے پہناؤ،یہ تو عورت کے اوپر تسلط جمانے اور اس کو اپنا تابع بنانے کا صدیوں پرانا مشغلہ ہے۔
اگست میں، سلمان رشدی پر نیویارک میں ایک مسلم شدت پسند کے ذریعےان کی کتاب ‘شیطانی آیات’ کی و جہ سے وحشیانہ حملہ کیاگیا۔ان کی یہ کتاب 1988 میں پہلی بار شائع ہوئی تھی۔1989 میں آیت اللہ خمینی نے جو ایران میں انقلاب کے بعد، اسلامک ری پبلک آف ایران کے پہلے سربراہ تھے،رشدی کی موت کا فتویٰ صادر کیا تھا۔ اتناعرصہ گزر جانے کے بعد اب جبکہ ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ اس کتاب کی وجہ سے جو جذبات مشتعل ہوئے تھے اور غم و غصہ پیدا ہوا تھا وہ اب ٹھنڈا ہوچکا ہوگا،اور اس کی وجہ سے آہستہ آہستہ رشدی روپوشی سے باہر نکلے تھےکہ ان پریہ حملہ ہوگیا۔
رشدی کے اس حملہ میں بچ جانےاور ان کے اچھے ہونے کی ابتدائی خبروں کے بعد ،مجموعی طور پران کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہے۔ ہم توصرف یہ امید ہی کرسکتے ہیں کہ وہ صحت یاب ہورہے ہیں اور دوبارہ صحیح و سالم ادب کی دنیا میں واپس لوٹیں گے۔ امریکہ اور یورپ کے سربراہان مملکت نے پورے طور پر رشدی کی حمایت کی اور بعض نے تو اس موقع سے فائدہ ا ٹھاتے ہوئے یہ تک کہا ہے کہ ،’ان کی لڑائی ہماری لڑائی ہے۔’
اسی دوران جولین اسانژ،جس نے ان ممالک کے اُن فوجیوں کے خوفناک جرائم کا پردہ فاش کیا تھا— جنھوں نے جنگوں میں لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیاتھا،وہ اب تشویشناک حد تک خرابی صحت اور بیماری کی حالت میں بیلمارش جیل میں قید ہیں۔اور امریکہ کو حوالے کیے جانے کا انتظار کر رہے ہیں جہاں ان کو موت کی سزا یا عمر قید ہوسکتی ہے۔
لہٰذا ہم کو رشدی پر اس خوفناک حملے کو ‘تہذیبوں کے تصادم’یا’جمہوریت بمقابلہ تاریکی’ جیسی فرسودہ اصطلاحات میں ڈھالنے سے پہلے توقف اور تحمل سے کام لینا ہوگا،کیوں کہ’آزادی اظہار’کے نام نہاد اماموں کی سربراہی میں کیے گئے حملوں میں لاکھوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور اِن لاکھوں میں ہزاروں ادیب و شاعر اور دوسرے فنکار بھی شامل ہیں۔
جہاں تک ہندوستان سے خبروں کا تعلق ہے،جون میں، ہندوستان کی برسر اقتدار ہندو نیشنلسٹ پارٹی،بی جےپی کی ترجمان نُوپور شرما نے،جوکبھی ٹی وی کے ٹاک شو ز میں مستقل اپنے تحکمانہ اوردھمکانے والے انداز کے ساتھ نظر آتی تھیں، انھوں نےپیغمبر اسلام کے خلاف نہایت ہی غیرمناسب تبصرے کیے تھے،جن کا واحدمقصد صرف جذبات کو بھڑکانا ہی نظر آتا تھا، جس پر بین الاقوامی طور پر کافی واویلا مچا اور جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی انھیں ملیں۔
جس کے بعد وہ تو پبلک لائف سے غائب ہوگئیں، لیکن دوسرے ہندو جنھوں نے نُوپور شرما کے الفاظ دہرائے تھے انھیں دن دہاڑے،بے رحمی سے سر قلم کر کے قتل کر دیاگیا،اور اس کے بعد کچھ شدت پسند متعصب مسلمانوں نے ‘سر تن سے جدا’کے نعرے لگائے اور حکومت سے’اہانت رسول’کے سلسلےمیں قانون پاس کرنے کی مانگ شروع کر دی ،شاید ان مذہبی جیالوں کو اس بات کا قطعی احساس نہیں تھا کہ حکومت کے لیے ان کی یہ حیوانی متعصب شدت پسندی کس قدر خوشی کا باعث ہوسکتی ہے۔
صر ف یہی لوگ، قتل و غارت گری اور سینسر شپ کا مقابلہ نہیں کر رہے ہیں۔اس مہینے کے شروع میں،میں بنگلور میں تھی،میں وہاں اپنی دوست گوری لنکیش کے قتل کی پانچویں برسی پر اپنے تاثرات کا اظہار کرنے کے لیے گئی تھی۔وہ ایک صحافی تھیں جن کو ان کے گھر کے باہر،ہندو شدت پسندوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ان کا قتل،ان متعدد ہلاکتوں میں سے ایک تھا،جوغالباً ایک ہی بدنام گروہ نے انجام دیے تھے۔
ڈاکٹر نریندر دابھولکر جو ایک ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ہی مشہور و معروف (عقلیت پسند)مفکر بھی تھے، ان کو2013 میں گولی مار کر ہلاک کیاگیا تھا۔کامریڈ گووند پانسرے،جو ایک ادیب تھے اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ممبر تھے ان کو2015 میں گولی مار ی گئی تھی اور کنّڑزبان کے عالم پروفیسر ایم ایم کلبرگی کو اسی سال اگست میں گولی ماری گئی تھی۔
صرف قتل کرنا ہی سینسر شپ کا واحد ایک طریقہ نہیں ہے، جس کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔ 2022 میں ورلڈپریس فریڈم انڈیکس کی 180 ملکوں کی فہرست میں ہندوستان 150ویں نمبر پر تھا،یعنی پاکستان، سری لنکا اور میانمار سے بھی نیچے۔ ہمیں صرف حکومت کی طرف سے ہی نہیں بلکہ سڑکوں پر ہجوم کے ذریعے، سوشل میڈیا پرٹرول کے ذریعے اور ستم ظریفی یہ کہ خود میڈیا کے ذریعے نشانہ بنایا جاتاہے۔
سینکڑوں 24×7 ٹی وی نیوزچینل جن کو ہم اکثر’ریڈیو روانڈا’کہتے ہیں،ہمارے بے لگام ٹی وی اینکرزمسلمانوں اور ‘اینٹی نیشنل’ لوگوں کے خلاف نہایت غصے میں چِلاتے نظر آتے ہیں اور سوال کرنے یا کسی طرح کا اختلاف کرنے والوں کو برطرف کرنے، گرفتار کرنے اور سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
انھوں نے بغیر کسی جوابدہی کے، بعض لوگوں کی زندگی کو اور ان کی ساکھ کو پوری طرح سے تباہ وبرباد کر دیا ہے۔سماجی کارکن،شاعر، ادیب، دانشور، صحافی، وکیل اور طلبہ تقریباً ہرروز گرفتار کیے جارہے ہیں۔جہاں تک کشمیر کا سوال ہے،وادی سے کوئی خبر نہیں آسکتی۔وہ ایک وسیع و عریض جیل کی مانند ہے۔ جلد ہی وہاں شہریوں سے زیادہ فوجی نظر آسکتے ہیں۔
کشمیریوں کی کوئی بھی مواصلت،چاہے وہ نجی ہو یا عوامی، یہاں تک کہ ان کی سانسوں پر پہرے بٹھا دیے گئے ہیں۔وہاں اسکولوں میں گاندھی کے محبت کے پیغام کی آڑ میں،مسلمان بچوں کو ہندو دھارمک بھجن گانے کی تعلیم دی جارہی ہے۔
آج کل جب کبھی میں کشمیر کے بارے میں سوچتی ہوں تو نہ جانے کیوں، مجھ کو یاد آتا ہے کہ بہت سی جگہوں پر تربوز کو چوکور سانچوں میں اگانے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے تاکہ وہ گول ہونے کے بجائے چوکور ہوں، جن کا ڈھیر لگانے میں آسانی ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کشمیر میں ہندوستانی حکومت، بندوق کی نوک پر یہی تجربہ تربوزوں کے بجائے انسانوں پر کر رہی ہے۔
شمالی ہندوستان،یعنی گنگا کی وادی میں،تلوار دھاری ہندوؤں کی بھیڑ، سادھو ؤں کی قیادت میں،جن کو میڈیا مصلحتاً ‘دھرم گُرو’ کہتا ہے، مسلمانوں کی نسل کشی اورمسلم خواتین کےریپ کی اپیل کررہے ہیں۔
ہم نے دن دہاڑے لنچنگ کا مشاہدہ کیاہے، اور اس کے ساتھ ہی تقریباً ایک ہزار مسلمانوں کا قتل عام (غیر سرکاری اندازے کے مطابق مرنے والوں کی تعداد دو ہزار کے قریب تھی)2002 میں گجرات میں اور2013 میں مظفر نگر میں سینکڑوں لوگوں کی ہلاکت۔ حیرت کی بات نہیں کہ دونوں قتل عام انتخابات سے عین قبل ہوئے تھے۔
ہم نے دیکھا کہ جس شخص کی چیف منسٹر شپ کے دوران گجرات میں قتل عام ہواتھا،وہ نریندر مودی،اپنی پوزیشن کو ایک ہندو سمراٹ کے بطور مستحکم کرنے کے بعد ملک کا اعلیٰ ترین عہدہ سنبھالنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ انھوں نے، جو کچھ ہواتھا، اس کے لیے کبھی کوئی اظہارافسوس نہیں کیا،نہ ہی کوئی معذرت چاہی، ہم نے تو ہمیشہ انہیں خطرناک قسم کے طنزیہ مسلم مخالف جملوں اور بیانات سےاپنی سیاسی حیثیت کو چمکاتے ہوئے دیکھا ہے۔
ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ملک کی سب سے اعلیٰ عدالت نے انھیں،ہر طرح کی ذمہ داری سے قطعی طور پر بری الذمہ کر دیا ہے۔ ہمیں یہ دیکھ کر شرمندگی ہوتی ہے کہ،نام نہاد آزاددنیا کے رہنما، انھیں ایک جمہوریت پسند سیاست داں کے بطور گلے لگاتے ہیں۔
پچھلے مہینے ہی ہندوستان نے، برٹش راج سے اپنی آزادی کی 75ویں سالگرہ منائی تھی، اس موقع پر مودی،دہلی کے لال قلعہ سے دیے گئے اپنے لیکچر میں، عورتوں کو با اختیار بنانے کے سلسلے میں خوب گرجے تھے، وہ نہایت جوش وخروش کے ساتھ مٹھیاں بند کر کے بول رہے تھے۔انھوں نے قومی پرچم والے تین رنگوں کی پگڑی باندھ رکھی تھی۔
ذات پات کے فلسفہ پر تشکیل دیے گئے ہمارے اس ہندوستانی سماج میں،خواتین کو با اختیار بنانے کی بات کی جارہی ہے،جہاں صدیوں سے اعلیٰ ذات کے افراد دلت اور آدی باسی عورتوں کے جسموں پر اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور اس حق کو پابندی سے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ یہ صرف ایک پالیسی کا مسئلہ نہیں ہے۔یہ توہمارے پورے سماج کے طور طریقوں اور ہمارے عقیدے اور اس کے نظام کا مسئلہ ہے۔
ہندوستان میں عورتوں کے خلاف جرائم کا گراف بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے دنیا کے نقشہ میں ہندوستان، عورتوں کے لیے نہایت غیرمحفوظ جگہ بن گیا ہے۔یہ دیکھ کر کسی کو کوئی تعجب نہیں ہوتا ہے کہ اکثر مجرم یا تو خود اہل اقتدار پارٹی سے یا ان سے متعلق لوگوں میں سے ہی ہوتے ہیں۔ اور اس طرح کے معاملات میں،ہم نے ریپ کرنے والوں کے حق میں بڑی بڑی ریلیاں دیکھی ہیں۔
ابھی حال میں ایک 19سالہ لڑکی کے ریپ اور قتل کرنے کے معاملہ میں دیکھا کہ، ایک مقامی لیڈر نے اس لڑکی کے باپ کو خطا وار ٹھہرانے کی کوشش کی کہ اس کا یہ عمل (یعنی جوان بیٹی کو نوکری کروانے کا عمل) ’بھوکی بلیو ں کے آگے کچا دودھ پیش کرنے‘ کے مصداق تھا۔
یہی نہیں بلکہ جب مودی یوم آزادی پر تقریر کر رہے تھے تو اسی دوران،گجرات میں، بی جے پی کی گورنمنٹ نے، ان گیارہ لوگوں کے لیے خصوصی معافی کا اعلان کیا تھا جو 2002میں 19سالہ بلقیس بانو کے گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے چودہ افراد کو قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔قتل کیے جانے والے لوگوں میں بلقیس بانو کی ماں، چھوٹا بھائی، چچا اور چچی اور ان کی بیٹیاں اور ایک چچا زاد بہن کا ایک دن کا بچہ اور بلقیس بانو کی اپنی تین سال کی بیٹی صالحہ شامل تھی جس کا سر ایک پتھر پر پٹک کر پھوڑا گیا تھا۔
یہ بھیانک جرم،اسی نوعیت کے اُن دوسرے متعدد جرائم میں سے ایک تھا، جو 2002 میں گجرات کے مسلم مخالف قتل عام کے دوران کیے گئے تھے اور جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ جس پینل نے ان کی رہائی کی منظوری دی تھی اس کے زیادہ تر اراکین،بی جے پی کے تھے۔
ان میں سے ایک رکن نے،جوممبر اسمبلی بھی ہیں،ریکارڈ پر کہاتھا کہ چونکہ اِن میں سے کچھ مجرم ‘اچھے سنسکار’ والے برہمن ہیں،اس لیے ان کے قصور وار ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
جن معاملات میں سی بی آئی تفتیش کرتی ہے جیسا کہ اس کیس میں بھی ہوا تھا، ان معاملات میں قانونی طور پر یہ ضروری ہوتا ہے کہ مجرموں کو کسی قسم کی رعایت دینے کے لیے سینٹرل گورنمنٹ کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔ظاہر ہے سینٹر میں نریندر مودی جی کی حکومت ہے اس لیے یہ فرض کیا جانا چاہیے کہ سینٹرل گورنمنٹ نے یہ منظوری دی تھی۔
جیل سے باہر آتے ہی ان مجرموں کا، ایک ہیرو کی طرح،خیر مقدم کیاگیا تھا۔ ان کے گلے میں ہار ڈالے گئے تھے،ان کومٹھائیاں کھلائی گئی تھیں اور عقیدت سے ان کے پیر چھوئے گئے تھے۔یہ سب اُن ہندو گروپ کے ممبران کی طرف سے کیاگیا تھا جو ایک سوتیلے رشتہ دار کی مانند،سنگھ پریوار سے جڑے ہوئے ہیں۔’سوتیلے رشتہ دار کے مانند’اس لیے کہ ضرورت پڑے تو انھیں’بیگانہ’کہہ کر اپنائیت سے انکار کیا جاسکے۔ اور کچھ ہی مہینوں بعد گجرات میں الیکشن ہونے والے ہیں۔
ہندوستان میں،ہمارے آزادانہ، صاف و شفاف انتخابات سے پہلے عجیب و غریب واقعات رونماہوتے ہیں۔ یہ ہمیشہ ہی نہایت خطرناک وقت ہوتا ہے۔
جہاں ایک طرف ریپسٹ اور قتل عام کرنے والے رِہا ہو کر سماج کے باعزت شہری بن گئے ہیں،وہیں دوسری طرف،تیستا سیتلواڑجیسی سماجی کارکن کی تنظیم سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس نے نہایت چھان بین کے بعد 2002 کے قتل عام کے سلسلے میں ان دستاویزی ثبوتوں کا انبار لگا دیا تھا جو عام طور پر گجرات گورنمنٹ اور خاص طور پر نریندر مودی کے اس میں ملوث ہونے کے واضح اشارے فراہم کرتےہیں،اُن کو (تیستا سیتلواڑ کو)جعلسازی ، گواہوں کو تربیت دینے اور معاملے کو گرم رکھنے کوشش کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
یہ ہیں وہ حالات جن کے درمیان ہم کا م کر رہے ہیں اور وہ سب کچھ کہہ رہے ہیں جو کہا نہیں جاسکتا ۔ دوسری تمام چیزوں کی طرح،بولنے پر بھی، ذات، مذہب اور جنس کے امتیازات کے ساتھ قانون لاگو کیا جاتا ہے۔
ایک مسلمان وہ نہیں کہہ سکتا جو ایک ہندو کہہ سکتا ہے؟ ایک کشمیری وہ نہیں کہہ سکتاہے جو دوسرے لوگ کہہ سکتے ہیں۔ آج یکجہتی، بھائی چارہ اور دوسروں کے لیے حقوق کی آواز اٹھانا پہلے سے کہیں زیادہ اہم اور ضروری ہوگیا ہے لیکن ایسا کرنا نہایت خطرناک اور جان جوکھم میں ڈالنے کا عمل بن گیا ہے۔
دوسرے ممالک ہی کی طرح ہندوستان میں بھی،پہچان کی ہتھیار بندی کے عمل نے، جس میں پہچان کوالگ الگ کر دیاگیا ہےاور چھوٹے چھوٹے زمروں میں تقسیم کردیا گیا ہے،جس نے پورے ماحول کو مذہب کی توہین کی سزا دینے والی ایک خود کار مشین میں تبدیل کردیا ہے اور ان ایٹمی پہچان نے بھی اپنی طاقت کی درجہ بندی کر لی ہے۔
اپنی کتاب ایلیٹ کیپچر میں فلسفی اولوفیمی اوتائیوو بیان کرتے ہیں کہ کس طرح سے ان گروپوں میں سے چند افراد جو نہایت نمایاں ہوجاتے ہیں،یعنی وہ افراد جو کسی بڑے ملک میں، یا کسی بڑے شہر میں، یا پھر کسی بڑی یونیورسٹی میں رہتے ہیں یا وہ جو انٹرنیٹ پر ایک سماجی حیثیت رکھتے ہیں،ان سب لوگوں کومختلف فاؤنڈیشن اور میڈیا کے ذریعے اپنی پوری برادری کی طرف سے بات کرنے اور فیصلے کرنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کروایا جاتا ہے۔
یہ تاریخی درداور ذلت کا قابل فہم رد عمل ہوسکتا ہے، لیکن یہ کوئی انقلابی رد عمل نہیں ہے۔ مائیکرو ایلیٹ کیپچر میکرو ایلیٹ کیپچر کا واحد جواب نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ بعض تجرباتی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جب ہم تندہی سے سینسر شپ کے کلچر کو اپناتے ہیں تو حتمی طور پر، اُس سے دائیں بازو کی طاقتوں کو بے پناہ تقویت ملتی ہے اور فائدہ پہنچتا ہے۔ اسکولوں کی ممنوعہ نصابی کتابوں کے سلسلے میں پین امریکہ کے ایک حالیہ مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ ممنوعہ نصابی کتابوں کی اکثریت صنف او ر نسل سے متعلق ترقی پسند متن پر مشتمل تھیں۔
کسی کمیونٹی کوخوف و ہراس میں مبتلا کرنا، یا ڈراکر رکھنا،اس کی پہچان کو ختم کر کے اسے چارے محفوظ کرنے جیسے ڈھیر میں تبدیل کرنا،ایک خطرناک عمل ہوتا ہے جو یکجہتی کے یکسر منافی ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہندوستان میں یہی ‘جات پات’کا اصل مقصد تھااور ہے۔ یعنی لوگوں کو ناقابل تسخیر حد تک مختلف خانوں میں تقسیم کرنا، تاکہ کوئی بھی برادری،دوسری برادری کے دکھ درد کو محسوس نہ کرسکے، بلکہ وہ ہمیشہ ایک دوسرے سے برسر پیکار رہیں۔
یہ ایک نہایت عمدہ،مختلف انتظامات اور چاق و چوبند نگرانی کی ایک خودکار مشین کی طرح سے کام کرتی ہے جس میں سماج خود ہی اپنے انتظامات اور اپنی نگرانی کرتا ہے اور یہ کوشش کرتارہتا ہے کہ جبر و استبداد کا وسیع ڈھانچہ مضبوطی سے اپنی جگہ پر قائم رہے۔ ہر ایک شخص، یا تو کسی پر ظلم کرتا ہے یا کسی کا ظلم سہتا ہے،سوائے ان کے جو سب سے اوپر ہیں، یا جو سب سے نیچے ہیں (اور یہ درجہ بندی بھی نہایت باریک بینی سے کی جاتی ہے)۔
اگر ایک بار یہ بھول بھلیوں جیسا جال بچھا دیا جائے تو اس کے بعد کوئی بھی صحیح،صاف اور شفاف ہونے کے امتحان میں پاس نہیں ہوسکتا ہے۔پھر وہ سب چیزیں جو کبھی صاف شفاف یا عمدہ اورعظیم سمجھی جاتی تھیں،وہ سب یک لخت بے معنی سی ہوجاتی ہیں، ان کے اس معیار کے مطابق ان کا کوئی وجود ہی نہیں رہتا ہے۔
وہ ادب جو کبھی اعلیٰ اور عظیم سمجھا جاتا تھا، بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے، وہ شیکسپیئر ہو یا ٹالسٹائی (جو ایک عورت ایناکرینیناکے ذہن تک کو سمجھ سکتا تھا یاد ستووسکی جو بوڑھی عورتوں کو ہمیشہ ایک چڑیل کہتا تھا اور شاید اس کے معیار کے مطابق میں بھی ایک’چڑیل’ کہلانے کی اہل ٹھہرائی جاؤں گی۔لیکن اس کے باوجود میں چاہوں گی کہ لوگ اس کو پڑھیں۔ حالانکہ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان لوگوں کے اس معیار پر کسی بھی مذہب کی کوئی بھی مقدس کتاب پوری نہیں اترے گی۔
عوامی اظہار خیال کے شوروغل کے درمیان، ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہم بہت تیزی کے ساتھ ایک طرح کے دانشورانہ اور فکری ‘ٹریفک جام’کی حالت میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔یکجہتی کبھی بنی بنائی،بالکل چمکتی ہوئی نہیں ہوتی ہے اس کے لیے ہمیشہ لڑتے رہنا پڑتا ہے،بحث و مباحثہ کرتے رہنا پڑتا ہے،دلائل دیے جاتے ہیں،بہت سی چیزوں کی تصحیح کی جاتی ہے اور اس عمل کو روکنے کا مطلب ہے کہ ہم بھی وہی کر رہے ہیں جس کے خلاف ہم نے لڑنے کا دعویٰ کیاتھا۔
اب میں اپنی گفتگو کے دوسرے موضوع یعنی ‘ہماری اس جانی پہچانی دنیا کے بکھرنے پر’ آنا پسند کروں گی،اور اب میں مہارانیوں اور ان کے جنازوں کے بارے میں کچھ کہنے کی اجازت چاہوں گی۔
جب برطانیہ کی ملکہ کا انتقال ہوا تھا تووہاں کے کچھ اخباروں نے مجھ سے ان کے بارے میں کچھ لکھنے کے لیے کہا تھا۔میں ان کی اس درخواست سے خاصے پس و پیش میں مبتلا ہوگئی تھی۔شاید اس لیے کہ میں کبھی انگلینڈ میں نہیں رہی ۔کوئین الزابیتھ ضرور میرے ذہن کے کسی کونے میں موجود رہی ہوں گی۔ میں نے ان اخبار والوں سے کہا تھا کہ میں ضرور لکھوں گی، لیکن میری یہ تحریر اُن ملکہ کے بارے میں نہیں ہوگی جو آپ کے ذہن میں ہیں۔
میں جس ملکہ کے بارے میں سوچ رہی ہوں،وہ میری ماں ہیں۔ جنھوں نے ایک ہائی اسکول بنایا تھا اور اسے وہ چلاتی رہی تھیں۔ ان کا اسی مہینہ کے اوائل میں انتقال ہوا ہے۔ اچھے یا برے، انھوں نے ہی میری زندگی پر سب سے گہرے نقوش مرتب کیے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے نہایت خطرناک دشمن اور ہمیشہ ایک دوسرے کے لیے بیتاب اور بے چین رہنے والے دوست تھے۔
میں نے بچپن سے اپنے آپ کو جس راہ پر چلنے کے لیے تیار کیا تھا،وہ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ تھیں۔لیکن اب کہ وہ میرا دل توڑ کر ہی نہیں بلکہ کچل کر چلی گئی ہیں،مجھ کو اب اپنے ان طور طریقوں میں کوئی معنویت نظر نہیں آتی ہے۔
میرا دل چاہ رہا تھا کہ آج میں ان دو جنازوں کی سیاست کا ذکر کروں،ایک وہ جو عالمی اسٹیج پر، اور دوسرا وہ جو ہندوستان کے ایک چھوٹے سے شہر میں موجود تھے۔ لیکن پھر میں نے اپنی اس خواہش کو دبا دیاتھا لیکن شاید اب میرے لیے وہ وقت آگیا ہے کہ پہلی بار میں وہ سب کہوں جو ‘نہیں کہنا چاہیے’خاص طورپر یہاں لندن میں۔
میرے لیے ملکہ کے جنازے کی رسومات کی تڑک بھڑک اور رونق اور کبھی نہ ختم ہونے والی ٹیلی ویژن نشریات ناقابل یقین تھیں۔میں ان سیاہ فام لوگوں کے خلوص اور احترام کو دیکھ کر مسحورسی ہوگئی تھی جو ان کی،ان سابقہ کالونیوں میں،اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے تھے،جن کو اب’دولتِ مشترکہ’کہاجاتا ہے، لیکن جہاں دولت کے نام پر کچھ بھی مشترک نہیں ہے۔ بلکہ یہ سب تو یکطرفہ لوٹ کی مانند تھا۔
ہم نے ان نوآبادیاتی ممالک میں، ان کے قیمتی فر، زریں پوشاکوں،زیورات، ہیرے جواہرات اور ان کے سونے کے شاہی عصاؤں کی بھاری قیمت چکائی ہے۔
ان کو لونیوں اور کولونیل ازم اور ان حکمرانوں کے بارے میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے جنھوں نے تاریخ کے اس نہایت ظالمانہ دور میں حکومت کی تھی۔اس کہانی کو اسٹوارٹ ہال سے بہتر کون ہم کو سنا سکتا ہے؟ لیکن یہ کیا ہے؟ جیسے دیوار پر مبنی تصویر کی مانند، گھوڑسواروں کا کوئی مغموم واداس دستہ گزر رہا ہو۔
مؤرخ مارک ڈیوس کے مطابق انیسویں صدی کے اواخر میں، نوآبادیاتی ہندوستان،چین اور برازیل میں30اور60 ملین افراد خود انسانوں ہی کے تشکیل کردہ قحط میں بھوک اور پیاس سے مر گئے تھے،جس کووہ لوگ وکٹورین ‘ہولو کاسٹ’کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
ہم لوگ کیوں اُن لوگوں سے محبت کرتے اور ان کے گُن گاتے ہیں جوہمیں بے عزت کرتے ہیں۔ آج یہ ایک نہایت اہم سیاسی سوا ل ہونے کے ساتھ ہی ذاتی سوال بھی ہوسکتا ہے۔
میں معافی چاہوں گی،اگر آپ کو یہ سب باتیں، کلونیل ازم یا نو آبادیاتی نظام پر ایک غیرمعمولی تبصرے کے مانند نظر آئیں، کیوں کہ میں اپنے آپ کو ان ہندوستانی دانشوروں میں شمار نہیں کرتی ہوں جو صرف نو آبادیاتی نظام پر غم و غصہ کا اظہار کرتے رہتے ہیں،لیکن خود اپنے سماج میں موجود خامیوں کے بارے میں خاموش رہتے ہیں۔
مثال کے طور پر ہندو ذات پات کا نظام، سماجی تفریقی اور اونچ نیچ کا دنیا میں سب سے زیادہ ظالم اور سفاک نظام ہے،اس طرح کا نظام دنیا میں کہیں بھی نہ ہوگا۔یہ ذات پات کی تفریق کا نظام ہندوستان میں برٹش نوآبادیاتی نظام سے پہلے بھی موجود تھا اور اُن کے جانے کے بعد آج بھی موجود ہے۔ یہی ذات پات کا نظام وہ انجن ہے جو آج جدید ہندوستان کے نظام کو چلا رہا ہے۔
یہ بات حیرت انگیز ہے کہ ہندوستان کے زیادہ تر ادیب اور دانشور ذات پات کے سوال کو یکسر نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ اس چیز کو نظر انداز کرنے کے لیے جوہر روز بلکہ ہر لمحہ ہماری نظروں کے سامنے موجود رہ کر ہمیں گھورتی رہتی ہے۔ان لوگوں کو کوئی علمی یا ادبی نہایت مفصل اور پیچیدہ قسم کا یوگا، آسن لگانا ہوتا ہو گا۔
بہرحال ان سب موضوعات پر تومیں اکثر و بیشتر لکھتی رہی ہوں۔اس لیے اب میں دوبارہ کوئین کے جنازے کے سلسلے میں اپنی الجھن کی طرف لوٹنا چاہتی ہوں۔میں واقعی یہ بالکل نہیں سمجھ سکی ہوں کہ اس کا اصل مقصد کیا تھا؟کیا کوئی اس کو سمجھنے میں میری مدد کرسکتا ہے؟
یہ سب اس چھوٹے سے جزیرے نما ملک کے ایک96سالہ حکمراں کے بارے میں تو ہو نہیں سکتا جس کو خود اپنی اس حکومت کے مختلف حصوں جیسے اسکاٹ لینڈ، ویلس اور شمالی آئر لینڈ کو بھی ساتھ رکھنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یا پھر کیا یہ اس سلطنت کی بھولی بسری یادوں کی ایک بازگشت تھی جس میں سورج کبھی نہیں ڈوبتا تھا؟یا پھر یہ ان سب چیزوں کے علاوہ کچھ اور تھا؟ کیا اس کا تعلق ماضی سے تھا؟ یا پھر یہ مستقبل کے بارے میں تھا؟
جس طرح یوکرین میں جنگ بڑھتی جارہی ہے اسی طرح ہماری اس شناسا دنیا میں آپسی رشتے ٹوٹتے جارہے ہیں۔کیا یہ سب تماشہ ایک طرح کی خاموش اداکاری اور پینترے بازی ہے اور اپنے رفیق اتحادیوں کی اس جنگ کے لیے نمائش ہے جو ابھی شروع نہیں ہوئی ہے؟اسے دیکھ کر مجھے باربرا ٹچ مین کے ابتدائی باب کی یاد تازہ ہوگئی جوعالمی جنگ (اول) کی قیادت کے بارے میں ہے۔
مئی1910 کی صبح، انگلینڈ کے ایڈورڈ 7کے پرشکوہ جنازے کا منظر اتنا سحر انگیز تھا کہ جب نو سلاطین کی سواریاں نکلیں توماتمی لباس میں منتظر لوگوں کا ہجوم اس منظر کو دیکھ کر توصیف اور تحسین کے جذبہ سے مغلوب ہو کر حیرت زدہ سا، دم بخود رہ گیا تھا۔
لال، ہرے، نیلے اور جامنی رنگوں میں ملبوس، سلاطین کی تین تین سواریاں محل کے دروازے سے باہر نکلیں۔ ان کی جڑاؤ پگڑیاں،سنہری کلغیاں، سرخ پٹکے، جواہرات سے جڑے تمغے،سورج کی روشنی میں جگمگا کر آنکھوں کو خیرہ کر رہے تھے۔ اس کے بعد تاج کے آئندہ وارث پانچ شہزادوں کی سواریاں آئیں۔پھر چالیس دیگر شاہی شہزادوں کی سواریوں کے بعد سات رانیوں کی سواریاں تھیں اور پھر ان کے بعد دیگر ممالک کے سفیروں کا ایک جم غفیر تھا۔ تقریباً70 شاہی و غیر شاہی ممالک کا اس طرح کا اجتماع شاذ ہی اس سے پہلے کبھی ایک جگہ رونما ہوتا دیکھا گیا ہوگا۔
جب ایفل ٹاور نے اپنی لرزہ خیز آواز میں صبح کے9بجائے تھے اس وقت جنازے کا یہ جلوس محل سے نمودار ہوا تھا۔ لیکن شاید تاریخ کی گھڑ ی میں یہ سورج کے ڈوبنے کاوقت تھا،اور قدیم دنیا کا سورج اس مردہ شان و شوکت کے ڈھیر میں ڈوب رہا تھا جو پھر کبھی نظر نہیں آئے گی۔
یوکرین میں کھیلے جانے والے خطرناک داداگیری کے کھیل کو چاہے کتنا بھی،دونوں فریقین نے پروپیگنڈے کے شور و شرابے سے مبہم کر دیا ہو لیکن تاریخ کی گھڑی بہت تیزی سے سورج کے غروب ہونے کے وقت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جنگ سے متعلق مختلف نظریات میں سے چند یوگا کے آسنو ں کی طرح نہایت پیچیدہ ہوتے ہیں اور چند شدید دیکھی ان دیکھی کرتے ہیں۔ ان سب کا انحصار صرف اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ خود کیا چاہتے ہیں۔
بائیں بازو کے افراد روس کو یوکرین پر حملہ کرنے کا ذمہ دارقرار نہیں دے سکتے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ روس کے خلاف یوکرین کو لے کر جو غصہ دکھلایا جارہا ہے وہ سب مغرب کی سامراجی طاقتوں کی بنائی اور پھیلائی جانے والی لغو باتیں ہیں۔
ان کے خیال سے1930 میں یوکرین میں کوئی قحط نہیں پڑا تھا اور نہ ہی لاکھوں افراد (تاریخ داں ٹیموتھی اسنیڈر کے اندازے کے مطابق پچاس لاکھ)اسٹالن کی زبردستی عائد کردہ’اجتماعی زراعت’ کی پالیسی کی وجہ سے مارے گئے تھے۔
ان کے خیال سے روس کا یوکرین پر یہ حملہ دراصل نیٹو کے خطرے سے اپنا دفاع کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ خیال غلط نہیں ہے لیکن سوال یہی ہے کہ یہ دفاعی جنگ اتنی جارحانہ طور پر، یوکرین میں،وہاں کے لوگوں کے خلاف کیوں لڑی جارہی ہے۔
جب سرد جنگ ختم ہوگئی تھی تو جوہری اسلحہ اور فوجوں کی تخفیف ہونی چاہیے تھی لیکن اس کے برخلاف نیٹو کے ممالک نے ہتھیاروں کی ذخیرہ اندوزی اور جنگ جو پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے شروع کر دی تھی اور اپنے شریک اور ہمدرد ممالک کو اشتعال انگیز طور پر فوجیں جمع کرنے اور میزائلوں کے اڈے بنانے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔اگر روس نے یورپ یا امریکہ میں اپنے ہمدردوں کے ذریعے وہ کیا ہوتا جو نیٹواس کے ساتھ کر رہا ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مغربی میڈیا اخلاقی دلائل سے آسمان سر پر اٹھا لیتا۔
حالانکہ ان میں سے کوئی بھی عمل ولادمیر پتن کو ایک سامراج مخالف انقلابی یا پھر کسی بھی طرح کا جمہوریت پسند نہیں بناتا ہے۔حالانکہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وہ مجموعی طور پر فسطائی نظریات اور ہم جنس پرستی کے مخالف ہیں اور عیسائی قوم پرستی پر یقین رکھتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ ان کے پسندیدہ ماہر نظریات اسے نازی مخالف نظریہ کہتے ہیں (جو ان کے چہیتے ماہر نظریات الیکزنڈر ڈوگن اور الیکزنڈر پروخیسوف کے ذریعے پیش کیاگیا ہے)۔
اُن کا یہ دعویٰ کہ یوکرین،کریمیا اور بیلاروس،روس کا اٹوٹ حصہ ہیں،کریمیا کے ایک عیسائی پادری کے گناہوں کی توبہ کی ہزاروں سال پرانی ایک داستان پر مبنی ہے جو بجا طور پر ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ لیکن پھر یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ ان ہی حلقوں میں اس بات کو بھی مزاحیہ نہیں سمجھا جاتا ہے جب اسرائیل، فلسطین کے بارے میں دعویٰ کرتاہے کہ یہ خدا کی طرف سے بنایا ہوا یہودیوں کا قدیم وطن ہے جس کو وہ جدید اصطلاح میں ‘یہودی قومی ریاست’کہتے ہیں۔
یا جب ہندوستان میں آر ایس ایس جو ایک ہندو قوم پرست، عسکریت پسند ثقافتی گروہ ہے (اور پرائم منسٹر مودی جس کے ایک رکن ہیں)جب اکھنڈ بھارت کا مطالبہ کرتے ہیں، جو ایک طرح کی خیالی دنیا ہے جس میں بیک وقت ماضی اور مستقبل دونوں شامل ہیں یعنی ایک طرح سے مستقبل کا قدیم ہندوستان،جس میں پاکستان اور بنگلہ دیش کو زیر کر کے ملایا جائے گا،اور جہاں سب پر ہندو راج کریں گے۔
یورپ جہاں سردیوں کاموسم شروع ہو رہا ہے اور سب لوگ گرمی پہنچانے کے لیے درکار ایندھنوں کی قلت کے ساتھ سخت سردی کا مقابلہ کرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔وہاں یا تو ایندھن ختم ہوچکا ہے یا قلیل مقدار میں موجود ہے اور ختم ہونے کے دہانے پر ہے۔کیوں کہ روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کیے جانے کی وجہ سے،احتجاج کے بطور روس سے ان ممالک کو گیس کی سپلائی بند کیے جانے کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے اور چونکہ اس وقت یوکرین مردانہ وار روس کا مقابلہ کر رہا ہے اس لیے کسی مصالحت کی امید بھی کم ہے بلکہ خدشہ یہی ہے کہ یہ جنگ لمبی چلے گی۔
ابھی یوکرین نے تین لاکھ مزید فوج کی جزوی بھرتی کا اعلان بھی کیا ہے۔اس سب کے معنی جو بھی ہوں لیکن بظاہر امریکہ تو خاصہ دور اور محفوظ ہے لیکن پورا یورپ اور روس،اور ایشیا کا بڑا حصہ،دنیا کی سب سے بڑی عالمی جنگ کا اکھاڑہ بن سکتا ہے۔ایک ایسی جنگ جس میں کوئی فاتح نہیں ہوگا۔
کیایہ سب کے لیے اپنے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کا وقت نہیں ہے؟ کیا یہ ایٹمی اسلحہ کی مکمل تخفیف پر سنجیدگی سے بات چیت شروع کرنے کا وقت نہیں ہے؟خدا نہ کرے کہ روس بھی امریکہ کی منطق پر عمل کرتے ہوئے کبھی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کرنے کا ارادہ کر لے۔
اپنے ایک آرٹیکل بعنوان’اگر ایٹم بم نہ استعمال کیاگیا ہوتا‘میں، جو 1946میں شائع ہوا تھا،کاول کومٹن (جو فزکس کے عالم اورایم آئی ٹی کے سابق صدر تھے)کہا تھا کہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر بم گراکر لاکھوں کروڑوں امریکی اور جاپانی جانوں کو بچا لیا گیا تھا، کیوں کہ اگر ایٹم بم کااستعمال نہ کیاگیا ہوتا توہ جنگ کئی مہینوں تک اور چلتی رہتی اور ان کی منطق کے مطابق، جاپان جو ہار چکا تھا پھر بھی ہتھیار نہ ڈالتا اور اگر ایٹم بم ہیروشیما اور ناگاساکی پر نہ گرایاگیا ہوتا (جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے تھے)تو جاپان اپنے آخری سپاہی تک لڑتارہتا۔
کومٹن خود سے سوال بھی کرتے ہیں،’کیا ایٹم بم کااستعمال ایک وحشیانہ اور غیر انسانی فعل تھا؟ پھر خود ہی جواب بھی دیتے ہیں،سب ہی جنگیں وحشیانہ اور غیر انسانی ہوتی ہیں’۔ان کا یہ آرٹیکل ‘دی اٹلانٹک’میں شائع ہواتھا۔پریسیڈنٹ ٹرومین نے ان کی اس منطق کی توثیق کی تھی۔
برسوں بعد، جنرل ولیٹ مورلینڈ نے ویت نام جنگ کے دوران اس منطق کو اور زیادہ نکھارا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ مشرقی تہذیب میں انسانی زندگی کی وہ قدروقیمت نہیں ہے جو مغربی تہذیب میں ہے، یہاں زندگی سستی اور کثیر التعداد ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم ایشیا کے رہنے والے اپنی زندگی کی قدروقیمت نہیں جانتے ہیں،اسی لیے ہم نے ان سفیدفام افراد کو اپنی نسل کشی کرنے کے لیے مجبور کر رکھا ہے۔
دوسرے جناب رابرٹ میک نما را صاحب ہیں جن کا ایک نہایت ہی شاندار ریکارڈ موجود ہے۔ اوّل ٹوکیو میں کی گئی بمباری کی منصوبہ سازی کا جس میں دو مختلف حملوں میں تقریباً دولاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔پھر وہ فورڈ موٹر کے صدر بھی رہے تھے اور اسی کے بعد ویت نام کی جنگ کے دوران امریکہ کے ڈیفنس سکریٹری بھی رہے جس کے دوران امریکی افواج کو حکم دیاگیا تھا کہ ہر اُس چیز کوموت کے گھاٹ اتار دو جوہلتی ہوئی نظر آئے جس کے نتیجہ میں تین ملین ویت نامی موت کے گھاٹ اتار دیے گئے تھے۔
میسک نمارا کو آخر میں دنیا کی غربت کی دیکھ ریکھ کرنے کے لیے ورلڈ بینک کا صدر بنا دیا گیا تھا۔ایرول موریس کی ڈاکیومنٹری فلم ‘دی فوگ آف وار’ میں میک نمارا نے اپنی زندگی کے آخری دور میں ایک اذیت ناک سوال یہ دریافت کیا تھا کہ،’ہمیں اچھا کام کرنے کے لیے کتناکچھ برا کرنا پڑتا ہے؟’
ظاہر ہے آپ یہ سمجھ گئے ہوں گے کہ مجھ کو اس طرح کے نوادرات جمع کرنے کا شوق ہے۔ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ پریسیڈینٹ اوباما کے پاس بھی قتل کی ایک فہرست تھی اور وہ میڈلائن البرٹ جن کے بارے میں ابھی حال میں پریسیڈینٹ جوئے بائیڈن نے کہاتھا کہ وہ نیکی، شائستگی اور آزادی کے روح رواں ہیں۔ان سے جب عراق میں امریکہ کی عائد پابندیوں کی وجہ سے مرنے والے لاکھوں عراقی بچوں کے بارے میں سوال پوچھا گیا تھا تو کہاجاتا ہے کہ انھوں نے کہا تھا کہ ،’یہ بہت ہی مشکل فیصلہ تھا لیکن اس کی جو قیمت چکائی گئی وہ ہمارے خیال سے ایک واجب قیمت تھی۔’
ہم کس طرف جارہے ہیں؟ ہم میں سے وہ لوگ بھی جو پوری طرح سے روسی حملے کے خلاف یوکرین کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔یوکرین جنگ کے مغربی میڈیا کے کوریج کے لہجے اور انداز کو دیکھ کر حیران تو ضرور ہوں گے کہ کس طرح انھوں نے بغیر سانس لیے تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے عراق اور افغانستان پر امریکہ اور ناٹو کے حملوں کی خبروں کو نشر کیا تھا جن میں ہزاروں لاکھوں افراد ہلا ک ہوگئے تھے۔
ابھی جنوری میں اُن ٹونی بلیئر کو جو عراق کے بارے میں جھوٹی خبریں پھیلانے کے کاروبار کے سب سے بڑے کاروباری کہے جاسکتے ہیں اور جنھوں نے عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اُن ہتھیاروں کی موجودگی کی خبر پھیلائی تھی جن کاوہاں کوئی وجود ہی نہیں تھا اور جنھیں عراق پر حملہ کے جواز کے بطور استعمال کیا گیا تھا اور پریسیڈینٹ جارج بش جونئیر کے اس حملے میں سب سے پرجوش ساتھی (یعنی نوٹی بلیئر)کے لیے برٹش راج کا بہادری کا سب سے اعلیٰ خطاب ‘نائٹ کمپینیئن کا اعلان کیا گیا تھا۔
اُس دن جب میں کوئین کے جنازے کے جلوس کو دیکھ رہی تھی، اور اُس وقت میں جو بھی پی رہی تھی اس کا پھندا پڑتے پڑتے بچا تھا جب میں نے سنا کہ ایک بشپ یا آرچ بشپ کہہ رہے تھے کہ ‘کوئین الزابیتھ (دوئم)اُن لوگوں کی طرح نہیں تھیں جو صرف طاقت اور دولت سے چمٹے رہتے ہیں بلکہ وہ خلوص اور محبت کے ساتھ کی گئی اپنی عوامی خدمات کے لیے یاد کی جاتی رہیں گی۔’
اب اُن کے صاحبزادے انگلینڈ کے نئے بادشاہ،اور ان کے وارث کے بطور ملک اور مال کے مالک ہوں گے۔ اب ان کی عیش و آرام کی زندگی ان کی اپنی دولت سے نہیں گزرے گی جوتقریباً ایک ارب پونڈ کی بتلائی جاتی ہے،بلکہ اب ان کی یہ عیش و آرام کی زندگی برطانوی عوام کے پیسے سے گزرے گی،اُس عوام کے پیسے سے جنھوں نے،گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایک وقت کا کھانا اس لیے ناغہ کرنا شروع کر دیا ہے تاکہ زندگی کا ڈھرّا چلتا رہے۔
شاید ہمارے جیسے غیر برطانوی افراد کے لیے برطانیہ کے عوام کا اپنے شاہی خاندان کے لیے اس پر اسرار محبت اور خلوص کو سمجھنا کافی مشکل ہے۔شاید اس کا تعلق اس قومی شناخت اور فخر کے ساتھ منسلک ہے جس پر معاشی ‘واہیاتوں’ کا کبھی کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔لیکن اب میں آپ سے ان ہی’واہیات’باتوں کا تھوڑا سا ذکر کرنے کی اجازت چاہوں گی۔
فنانشیل ٹائمز کے مطابق امریکہ اور برطانیہ، دونوں ملکوں میں، آمدنی کی تفریق شدید ہے کہ ان کے سماج کے بارے میں باآسانی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ‘چند امیر افراد کا ایک غریب سماج ہے۔’یہ سب لوگ بھی اب،ہم تیسری دنیا کے لوگوں کی طرح کے ہیں، یعنی ایک ایسی ڈھونگی جمہورت کی مانند جس کے چند امیر افراد خلاؤں میں کمندیں ڈالنے میں کامیاب ہورہے ہیں،وہیں غریب عوام غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتے چلے جارہے ہیں۔
آکسفیم کے 2022 کے ایک مطالعے کے مطابق ہندوستان کے صرف 98امیرترین افراد کی مجمو عی دولت ہندوستان کے 552ملین غریب افراد کی مشترکہ دولت کے برابر ہے۔اس بے ادبی کے لیے ہندوستان میں آکسفیم کے آفس پر چھاپہ پڑا تھا اور غالباً جلد ہی اسے بھی انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل ور دوسری ان تنظیموں کی طرح جو مودی گورنمنٹ کی تنقید کرتی ہیں، بند کر دیا جائے گا۔
کنگ چارلس دوئم،گو کہ بہت دولت مند ہیں، لیکن غالباً گوتم اڈانی کے مقابلے میں ایک مفلس اور فقیر نظر آئیں گے، جو دنیا کے تیسرے سب سے بڑے امیر آدمی ہیں۔وہ گجراتی ساہوکاروں کے سپہ سالار ہیں اور نریندر مودی کے چہیتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت تقریبا137بلین ڈالر کے مالک ہیں۔اُن کی یہ دولت کووِڈکی وبا کے دوران بہت تیزی سے بڑھی تھی۔
سال 2014 میں جب مودی پہلی بار ہندوستان کے پرائم منسٹر منتخب ہوئے تھے اس وقت وہ گجرات میں اپنے آبائی شہر احمد آباد سے دہلی اڈانی کے ذاتی جیٹ میں آئے تھے جس پر (اڈانی کا منقش نام اور نشان خوب چمک رہا تھا)، ابھی حال میں اڈانی این ڈی ٹی وی نیوز چینل پر غاصبانہ قبضہ کرنے میں مصروف نظر آرہے ہیں جو واحد ایسا چینل تھا جو ابھی نہایت عمدگی اور انہماک کے ساتھ مودی حکومت پر تنقید وتبصرہ کرنے کی ہمت کرتا ہے۔کیوں کہ اس کے علاوہ بیشتر میڈیا یا تو بک چکا ہے یا پھر صرف پیسہ بنانے میں مصروف ہے۔
وہ سب بڑی ساہوکار کمپنیاں جو پہاڑوں کو دھماکوں سے تباہ کررہی ہیں،جنگلوں کو کاٹ رہی ہیں،کورل ریف کی چٹانوں کے رنگوں کو اڑا رہی ہیں،اب وہی کمپنیاں تفریحی پروگراموں جیسے فلموں، کھیلوں کے مقابلوں اور ادبی جشن اور کانفرنس وغیرہ کے انعقاد کے لیے بھی پیسہ دیتی ہیں۔ وہ باہمت ادیبوں اور فنکاروں کو وہ پلیٹ فارم مہیا کرواتی ہیں،جہاں وہ بولنے کی آزادی نہ ہونے کے خلاف بول سکیں،جہاں وہ امن،انصاف اور انسانی حقوق کے سلسلے کے اپنے عزائم کو دہرا سکیں، یعنی وہ سب کہہ سکیں جو عموماً نہیں کہا جاسکتا ہے۔ بس کھیل ختم،پیسہ ہضم۔
دراصل سرمایہ داری اپنا آخری کھیل کھیل رہی ہے۔لیکن افسوس یہ ہے کہ ہماری اس دنیا کوبھی اپنے ساتھ لیے جارہی ہے۔ جوہری عقاب ا ور کان کنی کی کمپنیاں دونوں نیچے کی سطح پر پہنچنے کی دوڑ میں مصروف ہیں۔
آئیے صرف دل بہلانے اور ہلکی پھلکی تفریح کی خاطر، ہم سب مل کر ان باتوں پر لڑائی جھگڑا کرنے کا کھیل کھیلیں کہ کس کا خدا عبادت کے لیے سب سے بہتر ہے یا کون سا جھنڈا ہمیں لہراناچاہیے یا کون سا گانا ہمیں گانا چاہیے وغیرہ۔ اگر میں نے واقعی آپ کو اداس اور ناامید کر دیا ہے تو میں آپ کو اپنا ایک ای میل پڑھ کر سنانے کی اجازت چاہوں گی جو میں نے اپنے سامعین میں سے ایک کے جواب میں لکھا تھا جنھوں نے نہایت متانت کے ساتھ مجھ پر تنقید کرتے ہوئے تحریر کیا تھا کہ میں گوری لنکیش کی یاد میں تقریر کرتے ہوئے بہت پُر امید نظر آرہی تھی:
اگر ہم پُر امید بھی نہ ہوں تو کیا کریں۔کیا پھر ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں؟ دنیا میں لاکھوں ایسی چیزیں ہیں جو ہمیں مایوس کرتی ہیں اور قنوطی بناتی ہیں۔اسی لیے میں کہتی ہوں کہ امید کے لیے کسی وجہ کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس کو تو ایک خود رو پودے کی طرح بالکل آزاد اور خودسر اور غیرمعقولیت کی حد تک بے وجہ ہونا چاہیے۔
اس لیے ہر لائن جومیں لکھتی ہوں،ہر لفظ جو میں بولتی ہوں،اس میں میں یہی کہتی ہوں کہ ابھی ہم مرے نہیں ہیں،نہ ہی پوری طرح سے مغلوب ہوئے ہیں۔
دنیا میں چاروں طرف سے مصیبتوں میں گھرے لاکھوں افراد کے لیے اس طرح کی’امید اور نا امیدی’کی بحثیں، ایک طرح کے عیش و عشرت کے مترادف ٹھہرائی جائیں گی،یہاں تک کہ لندن جیسے دولت اور ثروت کے شہرتک میں، باہر سے آنے والا ہر شخص، ایک طرح کے تناؤ اور اس بے چینی کو محسوس کرسکتا ہے،جو کسی ٹرین کے پلیٹ فارم کے قریب آنے سے پہلے پیروں کے نیچے محسوس ہونے لگتی ہے۔
لیکن ایٹمی جنگ میں ان سب باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔وہ تو ہم کو یکسر ختم کر دے گی۔اسی لیے یہ وقت دونوں فریقوں کو اپنے قدم پیچھے ہٹانے کا ہے اور باقی دنیا کے لوگوں کو سامنے آنے کا ہے۔یاد رکھیے عالمی جنگوں کے ضابطے میں دوسرے موقع کے لیے کوئی شق موجود نہیں ہے۔
ارندھتی رائے کے اس لیکچر کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں، انگریزی سے ترجمہ افتخار عالم خاں۔
Categories: فکر و نظر