پلوامہ کے علاوہ ہندوستانی پارلیامان پر حملہ، 2008 میں ممبئی پر دہشت گردانہ حملہ، 1995میں کشمیر کے پہلگام علاقہ سے پانچ مغربی سیاحوں کا اغواء، اسی سال یوم جمہوریہ یعنی26 جنوری کو اس وقت کے کشمیر کے گورنر کے وی کرشنا راؤ پر قاتلانہ حملہ، ایسے چند واقعات ہیں، جن کی بھر پور پیشگی اطلاعات حکومت کے پاس تھیں ،مگر ان کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔کیا یہ سبھی فالس فلیگ آپریشن تھے؟ کیا ان کا مقصد صرف پاکستان کو عالمی منظر نامے میں کٹہرے میں کھڑا کرنا تھا؟
جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک جب یہ اعتراف کر رہے تھے کہ فروری2019میں کشمیر کے پلوامہ علاقہ میں سیکورٹی اہلکاروں کی کانوائے پر حملہ کے بعد ان کو خاموش رہنے کو کہا گیا تھا، کیونکہ اس کا استعمال پاکستان کے خلاف ایک جنگی جنون پیدا کرنے اور مئی میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل ہندو ووٹروں کو لام بند کرنے کے لیے کرنا تھا، تو مجھے دوسری جنگ عظیم کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔
سال 1933میں اقتدار میں آنے کے بعد جرمن آمر ایڈولف ہٹلر نے اپنے ملک کی فوجی قوت میں بے تحاشہ اضافہ کرنا شروع کر دیا تھا، مگر اتحادیوں کو سبق سکھانے اور پہلی جنگ عظیم کی شکست کا بدلہ لینے کا اس کو کوئی موقع نہیں مل پا رہا تھا۔
دنیا بھی اب پرسکون ہو چکی تھی اور ادراک ہو چکا تھا کہ کسی اور کشت و خون سے پرہیز کیا جائے۔ اگست 1939کو ہٹلر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور اس نے انٹلی جنس کے معتمد افسران کو حکم دیا کہ پولینڈ پر حملہ کرنے کے لیے کوئی بہانہ تراشا جائے۔ ادھر پولینڈ اتنا ڈھیٹ تھا، اشتعال انگیزیوں کے باوجود وہ جنگ شروع کرنے کا کوئی موقع نہیں دے رہا تھا۔
جرمن خفیہ تنظیم کے ایک افسر کرنل ہیڈرک اور اس کے معاون میجر نوجک نے نازی فوج سے ایسے 30فوجیوں کا انتخا ب کیا، جو پولش زبان میں مہارت رکھتے تھے اور ان پر مشتمل ایک نقلی پولش فوج کا ایک یونٹ ترتب دے دیا گیا۔ 31اگست 1939 کی شام اس نقلی پولش فوج (جو دراصل جرمن خفیہ یونٹ تھی) نے جرمن سرحدی قصبہ گلی وز پر دھاوا بول کر وہاں کے ریڈیو اسٹیشن پر قبضہ کرکے کئی جرمن فوجیوں، پولیس اور سویلین افراد کو ہلاک اور زخمی کردیا۔
میجر نوجک کے ذمہ یہ بھی کام تھا کہ ریڈیو اسٹیشن سے ہٹلر اور جرمنی کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس تقریر کا مسودہ ہٹلر نے خود ہی تحریر کیا تھا۔ نوجک نے یہ تقریر پانچ منٹ میں ختم کردی۔ اس کے جواب میں ہٹلر نے جرمن قوم کی آن و بان کا حوالہ دےکر اس قتل عام کا بدلہ لینے کی غرض سے اگلے ہی دن یعنی یکم ستمبر کو پولینڈ پر دھاوا بول کر دوسری جنگ عظیم کی شروعات کردی۔
پولینڈ واویلا کرتا رہا کہ اس قتل عام سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ مگر کون سنتا۔ اس یونٹ نے پیچھے جو نشانات چھوڑے تھے، و ہ پولش فوج سے تعلق رکھتے تھے۔ عینی شاہدین نے ان کو پولش زبان میں نعرے لگاتے دیکھا اور سنا بھی تھا۔
خیر جنگ کا آغاز ہو گیا۔ 1945تک اس جنگ میں56ملین افراد ہلاک ہو گئے، مزید55ملین جنگ سے پیدا شدہ صورت حال قحط، بیماری وغیرہ کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی کا نام و نشان مٹ گیا۔ خود جرمنی کے 30لاکھ فوجی مارے گئے اور ہٹلر کو بھی خود کشی کرنی پڑی۔
کیا کچھ ایسی ہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ پلوامہ واقعہ کے علاوہ 2001میں ہندوستانی پارلیامان پر حملہ، 2008 میں تجارتی شہر ممبئی پر دہشت گردانہ حملہ، 1995میں کشمیر کے پہلگام علاقہ سے پانچ مغربی سیاحوں کا اغواء، اسی سال ہندوستان کے یوم جمہوریہ یعنی26جنوری کو اس وقت کے کشمیر کے گورنر کے وی کرشنا راؤ پر اسٹیڈیم میں مارچ پاسٹ کے دوران قاتلانہ حملہ، ایسے چند واقعات ہیں، جن کی بھر پور پیشگی اطلاعات حکومت کے پاس تھیں ،مگر ان کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
اکثر واقعات میں لگتا ہے کہ حملہ آوروں کو سہولیت بھی فراہم کی گئی۔
یہ ایسے واقعات ہیں، جن کے بعد ہندوستان میں جنگی جنون پیدا کر دیا گیا اور پاکستان پر حملہ کرنے کی بھی باتیں کی گئیں۔ پلوامہ کے بعد بالا کوٹ پر ہندوستانی فضائیہ کے حملہ کے بعد تو دونوں ملکوں کی فضائیہ آمنے سامنے آ گئی تھی۔ ہندوستان کے ایک جہاز کو گرا کر پائلٹ ابھینندن واردھمان کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ پلوامہ ہلاکت کے ایک دن بعد دارالحکومت دہلی کے ویمن پریس کلب میں ایک کولیگ کی الوداعی تقریب میں شرکت کرنے کے بعد جب میں باہر نکلا، تو دیکھا کہ اسکولوں کے نو خیز بچے ہاتھوں میں پرچم لیے پاکستان اور کشمیریوں کے خلاف نفرت انگیز نعرے لگاتے ہوئے انڈیا گیٹ کی طرف رواں تھے۔ انڈیا گیٹ کے پاس حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اراکین پارلیامنٹ کی معیت میں ایک جم غفیر پر جنگی جنون سوار تھا۔ وہ لاہور اور مظفر آباد پر ہندوستانی پرچم لہرانے کے لیے بے تاب ہو رہے تھے اور کشمیری مسلمانوں کو سبق سکھانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
آفس پہنچ کر معلوم ہوا کہ پٹنہ، چھتیس گڑ ھ، دہرا دون اور ملک کے دیگر علاقوں سے کشمیری تاجروں اور طالبعلموں پر حملوں اور ان کو بے عزت کرنے کی خبریں متواتر موصول ہو رہی ہیں۔ دیر رات گھر واپس پہنچ کر دیکھا کالونی کے دیگر بلاکوں میں رہنے والے چند کشمیری خاندان ہمارے یہاں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
بتایا گیا کہ شام ہوتے ہی علاقہ میں بجرنگ دل کے کارکنوں نے مکینوں کو باہر نکالا اور ہاتھوں میں موم بتیاں لیے مارچ کرتے ہوئے کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف نعرے بلند کرتے ہوئے خوب ہڑ بونگ مچائی تھی۔
کالونی میں ہمارے بلاک کے گارڈ نے ہمیں گھر کے اندر رہنے، دروازے اور کھڑکیاں بند کرنے کی ہدایت دی۔ باہری گیٹ کے پاس ایک ہجوم پر جوش نعرے لگا رہا تھا۔ میں نے دہلی پولیس اور وزارت داخلہ میں جہاں تک ممکن ہوسکتا تھا، رابطہ کر نے کی کوشش کی۔ ان لمحوں میں مجھے 2002کے گجرات فسادات میں ہلاک ہوئے کانگریس کے سابق ممبر پارلیامنٹ احسان جعفری یاد آرہے تھے، کم و بیش وہ اسی طرح کے حالات کا شکار ہوگئے تھے۔
آدھے گھنٹے کے بعد دہلی پولیس کی ایک ٹیم آئی اور انہوں نے ہجوم کو پارک میں جلسہ کرنے کی صلاح دی۔ قریباً ایک گھنٹے کے بعد ہجوم پھر واپس آیا۔ اور گیٹ کے پاس اشتعال انگیز نعرے لگائے۔ آدھی رات کو میں نے فیملی کو ایک مسلم اکثریتی علاقہ میں ایک رشتہ دار کی ہاں شفٹ کروایا اور خود فتر میں جاکر پناہ لی۔
اگلے کئی روز میرے کولیگ منن کمار نے اپنے گھر میں مجھے پناہ دی۔ اس واقعہ نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا کہ مجھے باہر نوکری ڈھونڈنے کی تگ و د و کرکے بے گھر ہونا پڑا۔
دراصل اس دوران وزیر اعظم نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد چونکہ معیشت کی بحالی اور دیگر وعدے ہوا ہوگئے تھے،رام مندر کی تعمیر کے نام پر کوئی تحریک برپا نہیں ہو پا رہی تھی۔ صوبائی انتخابات میں کسانوں، دلتوں، دوسرے پسماندہ طبقوں اور اقلیتوں نے مل کر ان کو شکست دی تھی۔
اس کو سامنے رکھتے ہوئے مئی میں عام انتخابات کے پیش نظر وہ آخری ترپ کا پتا یعنی نیشنلزم پر بحث کروا کے اور ہندوؤں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش میں تھے، جس کا موقع پلوامہ نے فراہم کردیا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ جولائی 1995میں جنوبی کشمیر کے پہلگام پہاڑوں سے 6مغربی سیاحوں کا اغوا اور گمشدگی تھا۔ جس نے بیک جنبش ایک سیاسی تحریک آزادی کو مغربی دنیا میں کٹہرے میں لا کرکھڑا کر کے رکھ دیا۔ عموماً تحریک کشمیر کے حوالے سے اکثر مغربی ممالک نرم گوشہ رکھتے تھے۔
مگر یہ واقعہ نہ صرف مغربی ممالک کی اخلاقی اور سفارتی ہمدردیاں ختم کرنے کا باعث بنا، بلکہ رفتہ رفتہ اس واقعہ کو بنیا د بنا کرکشمیر میں جاری عسکری تحریک کی تاروں کو بھی بین الاقوامی دہشت گردی سے جوڑنے کی بھر پور کوششیں ہوئیں۔
دو برطانوی صحافیوں‘ ایڈریان لیوی اور کیتھی اسکاٹ کلارک کی تحریر کردہ دی می ڈوؤ نامی تفتیشی کتاب نے الفاران کے ذریعہ اغوا کیے گئے پانچ مغربی سیاحوں کے معاملے پر سے پردے اٹھائے، تو ہندوستان کے کسی ادارے کو ابھی تک اس کتاب کے مندرجات کی تردید کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔
اغواکیے گئے سیاحوں میں سے ایک ناروے کے ہانس کرسٹیان اوسٹرو کی سربریدہ لاش پائی گئی۔کتاب کے مصنفین نے ہندوستانی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ انالسس ونگ کے دو سابق سربراہوں کے حوالے سے یہ ہوشربا انکشاف کیا کہ اغوا کے اس واقعہ کا جان بو جھ کر عالمی برادری میں پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے بھرپور استعمال کیا گیا۔
مصنفین کا کہنا ہے کہ ان مغربی سیاحوں کو بچایا جاسکتا تھا کیوں کہ را ءکے اہلکاراغوا کے پورے واقعے کے دوران نہ صرف سیاحوں ا ور اغواکاروں پر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے تھے بلکہ ان کی تصویریں بھی لیتے رہے تھے۔
جب ایک خاتون کوہ پیما، ناروے کے سیاح کے اغوا کی اطلاع دینے ہندوستانی فوج کے راشٹریہ رائفلز کے کیمپ پہنچی، بجائے داد رسی کے، اس کی عصمت دری کی گئی۔اغواکاروں کی نقل و حرکت کی اطلاع پردینے پر مامور جموں و کشمیر پولیس کے ایک مخبر ’ایجنٹ اے‘ کوفوج نے عسکریت پسند کی لیبل لگا کر قتل کردیا، تاکہ اطلاع کا یہ سرچشمہ یہ بند ہوجائے۔
دونوں برطانوی صحافیوں نے شواہد کی بنیاد پر لکھا ہے کہ ہندوستان نے سیاحوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا، تاکہ پاکستان کے خلاف ایک بڑی سرد جنگ جیتی جا سکے۔ہندوستان نے اس واقعہ کو پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے موقعہ غنیمت سمجھا اور انڈین انٹلی جنس اور آرمی کے اندر موجود سخت گیر عناصربات چیت یا کارروائی کرکے یرغمالوں کو بچانے کے بجائے اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راؤ کے اس ہدایت نامے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تمام حربے استعمال کرنے میں مصروف ہوگئے‘کہ دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ پاکستان سرکاری طورپر دہشت گردی کی اعانت کررہا ہے۔
جب الفاران نے مغربی سیاحوں کو چھوڑا تو انٹلی جنس اور فوج کے حمایت یافتہ تائب جنگجوؤں نے انہیں اپنی تحویل میں لے لیااور راشٹریہ رائفلز کے کیمپ میں ان کو رکھ کر بعد میں ہلاک کر دیا گیا۔
اینڈرین لیوی کے مطابق دسمبر 1999میں انڈین ایرلائنس کے طیارہ آئی سی 814 کے اغوا کے معاملے میں خفیہ ایجنسی کے ایک افسر نے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو دہشت گردوں کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے بجائے مسافروں سے بھرے طیارے کو اڑا دینے کا مشورہ دیا تھا۔تاکہ پاکستان کو اس واقعہ کے لیے مکمل طور پر بدنام کیا جائے۔ یہ افسر آجکل انتہائی کلیدی عہدے پر فائز ہے۔
اسی طرح نومبر 2008کو جب اقتصادی مرکز ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ ہوا، تو تقریباً سبھی خفیہ اداروں چاہے امریکی سی آئی آے ہویا ہندوستانی ایجنسیاں جیسے کہ انٹلجنس بیورو، ریسرچ اینڈ اینالائسز ونگ(راء) حتیٰ کی ممبئی پولیس اور پانچ ستارہ ہوٹل تاج کی انتظامیہ کو بھی اس حملے کی پیشگی اطلاع تھی۔
اڈریین لیوی اور کیتھی اسکارٹ کلارک نے اپنی کتاب دی سیج میں انکشاف کیا ہے کہ ایک سال کے عرصے کے دوران مختلف مواقع پر126یسی اطلاعات ان اداروں نے موصول کی تھی۔ جن میں ان حملوں کی پیشن گوئی کے علاوہ حملہ آوروں کے ذریعے استعمال کیے جانے والے راستوں کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔آخر اتنی واضح خفیہ اطلاعات کے باوجود ہندوستانی سکیورٹی ایجنسیوں نے ان حملوں کو روکنے کی پیش بندی کیوں نہیں کی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔ جس سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔
یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ دو سال کے تعطل کے بعد جولائی 2006ممبئی ٹرین دھماکوں اوربعد میں سمجھوتہ ایکسپریس پر ہوئے حملوں کے بعد دونوں ممالک تعلقات کو معمول پر لانے کی سعی کر رہے تھے۔
جس وقت ممبئی پر قہر برپا ہوا عین اسی وقت پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی ہندوستان میں اپنے ہندوستانی ہم منصب موجودہ صدر پرنب مکھرجی کے ساتھ نئی دہلی کے حیدر آباد ہاؤس میں محو گفتگو تھے اور ہندوستانی سکریٹری داخلہ مدھوکر گپتا پاکستان میں تھے۔
خفیہ معلومات اس حد تک واضح تھیں کہ اگست 2008 میں جب ممبئی پولیس کے ایک افسر وشواس ناگرے پا ٹل نے شہر کے فیشن ابیل علاقہ کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کے بطور چارج سنبھالا تو ان کی نظر اس خفیہ فائل پر پڑی جس میں نہ صرف حملوں کا ذکر تھا بلکہ اس کے طریقہ کار پر بھی معلومات تھیں۔ان اطلاعات کا ماخذ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی آے تھی۔ اسی طرح لشکر طیبہ کے ٹریننگ کیمپ میں موجود آئی بی کے ایک مخبر کی بھی پل در پل کی معلومات تھیں۔ جس میں حملہ کے لیے تاج ہوٹل کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس افسر نے فوراً تاج ہوٹل کی انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ وہ معقول حفاظتی انتظامات کا بندوبست کریں۔
ستمبر2008میں اسلام آباد میں میریٹ ہوٹل میں دھماکہ اور اکتوبر میں دوبارہ اسی طرح کی خفیہ معلومات کے حصول کے بعد پاٹل نے نوگھنٹوں تک تاج ہوٹل کی سکیورٹی کے ساتھ ایک ریہر سہل کی، اور کئی دروازے بند کروائے، علاوہ ازیں ٹاور کے پاس ایک سکیورٹی پکٹ بھی نصب کی۔ ان انتظامات کے بعد جب پاٹل چھٹی پر چلے گئے۔ تاج انتظامیہ نے نہ صرف حفاظتی بندیشین ہٹا لیں، بلکہ سیکورٹی پکٹ بھی ہٹوائی کیونکہ اس پر معمور حفاظتی اہلکاروں نے دوران ڈیوٹی ہوٹل کچن سے کھانا مانگنا شروع کردیا تھا۔
دوسری طرف خفیہ اطلاعات کے باوجود ہندوستان کی سیکورٹی انتظامیہ کی لاپرواہی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب کمانڈو دستوں یعنی نیشنل سیکورٹی گارڈز (این ایس جی) نے دہلی سے متصل ہریانہ میں اپنے ہیڈکوارٹرسے حملوں کے 20 منٹ بعد ہی نقل و حرکت شروع کی تو کابینہ سکریٹری اور بعد میں وزارت داخلہ کے ایک جوائنٹ سکریٹری نے فون کرکے ان کو متنبہ کیا کہ احکامات کے بغیر وہ نقل حرکت کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔
اس تنبیہ کے 70منٹ بعد وزارت داخلہ نے ان کو بتایا کہ صوبائی وزیراعلیٰ نے این ایس جی کی مدد مانگی ہے اس لیے وہ فورا ممبئی روانہ ہوجائیں۔ مگر ایر پورٹ جاکر معلوم ہوا کہ ہندوستانی فضائیہ کا ٹرانسپورٹ طیارہ ابھی تک کئی سو کلومیٹر دور چندی گڑھ میں ہے۔ کمانڈو یونٹ کے سربراہ جیوتی دتہ نے جب خفیہ ایجنسی راء سے ان کا خصوصی طیارہ مانگا تو پتہ چلا کہ اس کا عملہ غائب ہے اور جہاز میں ایندھن بھی نہیں ہے۔آدھی رات کے بعد جب دستہ بالآخر طیارہ میں سوار ہوا توان کو بتایا گیا کہ وزارت داخلہ کے چند افسران بھی ان کے ہمراہ جارہے ہیں اس لیے ان کا انتظار کیا جائے۔
بالآخر جب طیارہ اگلے دن سویرے ممبئی پہنچا تو افسران کو لینے کے لیے چمچاتی اور لال بتی والی گاڑیاں طیران گاہ پر حاضر تھیں مگر کمانڈو دستوں کو لےجانے کے لیے کوئی ٹرانسپورٹ نہیں تھا۔ اس پورے وقفے کا دوران تاج اور اوبرائے ہوٹلوں نیز یہودی مرکز پر جنگجوؤں نے مکمل کنٹرول حاصل کرلیا تھا اور سینکڑوں افراد لقمہ اجل ہوچکے تھے۔لگتا تھا کہ آپریشن کو جان بوجھ کر طوالت دی جا رہی ہے، تاکہ اس کا بھر پوفائدہ اٹھایا جا سکے۔
اسی طرح گو کہ 2013 میں افضل گورو کو پھانسی دینے کے ساتھ 13 دسمبر 2001 کوہندوستانی پارلیامنٹ پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کا ایک باب بند ہوگیاہے، لیکن اس سے جڑے کئی بڑے سوال آج بھی جواب کے منتظر ہیں۔ 1997 میں افضل نے کشمیر میں دواؤں اور سرجیکل آلات کی ایک چھوٹی سی دکان کھولی تھی۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ عا م زندگی بسر کرنا چاہتے تھے لیکن سیکورٹی فورسز نے ان کی زندگی اجیرن کردی تھی۔
سیکورٹی فورسز کی طرف سے ان پر جاسوس بننے کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا جاتا رہا۔جب افضل اس کے لیے آمادہ نہیں ہوئے تو ان پر اذیتوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ 22 ویں راشٹریہ رائفلز کے میجر رام موہن رائے نے ان پر اذیتوں کی انتہاکردی تھی۔ اس کے بعد جموں و کشمیر کے اسپیشل آپریشن گروپ نے ان کوتحویل میں لیا۔
اس کے کیمپ میں ان کی ملاقات محمد اور طارق نامی دو افراد سے کرائی گئی اور ان کو حکم دیا گیا کہ ان کو دہلی لے جانے کا بندوبست کرنا ہے اور اس کے بعد اس سے کوئی اور کام نہیں لیا جائےگا۔ عدالت نے دو افراد کو لانے کا ان کا اعترافی بیان تو قبول کرلیا تاہم اس بات کو یکسر نظر انداز کردیا کہ ان دونوں سے ان کی ملاقات کہاں ہوئی تھی اور اس معاملے میں پولیس افسر دیوندر سنگھ کا کیا رول تھا؟ یہی حال کچھ دیگر ایسے واقعات کا بھی ہے۔
کیا یہ سبھی فالس فلیگ آپریشن تھے؟ کیا ان کا مقصد صرف پاکستان کو عالمی منظر نامے میں کٹہرے میں کھڑا کرنا تھا؟ کیا اس طرح کے پلان بنانے والوں نے ہٹلر اور اس کے پولینڈ پر حملہ کرنے کی سازش کے انجام پر غور نہیں کیا تھا؟
اگر پاکستان کے ساتھ چھیڑی گئی جنگ ہاتھ سے نکل گئی، تو جنوبی ایشیا ء کا پورا خطہ تباہ و برباد ہونے کا اندیشہ ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات خاص طور پر مسئلہ کشمیر کے پر امن حل ڈھونڈیا جائے، جو فریقین کو قابل قبول ہو، تاکہ جنگ بازوں کو ایسے فالس فلیگ آپریشن کرنے سے باز رکھا جائے۔
Categories: فکر و نظر