بتایا جاتا ہے کہ سوویت یونین میں آپ اسٹالن کی آواز سے بچ نہیں سکتے تھے۔ اسٹالن کی آواز سڑکوں پر لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے آپ کا پیچھاکرتی تھی۔ ہٹلر نےسیلف پروپیگنڈے کے لیے ریڈیو کو کس طرح استعمال کیا، یہ ایک معروف حقیقت ہے۔ ہندوستان بھی اب ہٹلر اور اسٹالن کے راستے چل رہا ہے۔
تالیاں بجتی رہیں – 6، 7، 8 منٹ۔ ان کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ ان کو نمٹایا جا چکا تھا۔ اب وہ رک نہیں سکتے تھے جب تک کہ وہ دل کے دورے کے مارے گر ہی نہ پڑیں! ہال کے پیچھے، جہاں بہت بھیڑ تھی ،وہاں ضرور وہ کچھ بے ایمانی کر سکتے تھے، کچھ کم زور سے، کم تیزی سے تالیاں بجا سکتے تھے، اتنے جوش کے ساتھ نہیں، اتنے جوش و جذبے کے ساتھ نہیں ، … 9 منٹ! 10! پاگل پن! آخری آدمی تک! اپنے چہروں پر مصنوعی جوش و خروش اوڑھے، ہلکی سی امیدوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے، ضلعی سطح کے رہنما یہ کرتے جانے والے تھے،تالیاں بجاتے ہی جاتے، جب تک کہ وہ جہاں کھڑے تھے گر نہ پڑیں ، جب تک کہ انہیں اسٹریچر پر ہال سے باہر نہ لے جایا جائے۔
یہ تقریباً 80 سال پہلے کسی دور دراز ملک میں ہونے والے ایک واقعے کی تفصیل ہے، ایک مصنف کے ذریعے پیش کیا گیا۔ پڑھنے لکھنے والے کچھ پرانے لوگ مصنف کو جانتے ہیں اور اس واقعہ کے سیاق و سباق کو بھی۔ مصنف ہیں سلزینسٹائن اور جس کے لیے تالیاں بجائی جا رہی ہیں، اس کا نام ہے ا سٹالن۔
یہ واقعہ گیارہ منٹ کی تالیوں کے نام سے مشہور ہے۔ 1937 سوویت کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس۔ اسٹالن کی تقریر کے بعد جب تالیاں بجنا شروع ہوئیں تو ہال میں کسی کی ہمت نہیں تھی کہ وہ تالیاں بجانا بند کرنے والا پہلا شخص ہو،یا ایسا کرنے والے پہلے شخص کے طو رپرپہچانا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ آخرکار تنگ آکر کسی نے یہ کر ہی ڈالا۔ پوری اسمبلی ہکا بکا رہ گئی۔ تالیاں بند ہو گئیں۔ اس شخص کا کیا ہوا ہوگا، آپ اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
یہ واقعہ اتوار 30 اپریل 2023 کو ہندوستان میں کیوں یاد آنا چاہیے؟ یکے بعد دیگرے تصویریں آنا شروع ہوئیں؛ وفاقی حکومت کے وزراء، ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ، وزراء، سرکاری افسران، ٹکٹکی لگا کرکچھ،کسی طرف دیکھتے ہوئے۔ لیکن وہ کیا دیکھ رہے تھے؟ کس کو دیکھ رہے تھے؟ ان میں سے ایک لیڈر کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہوئی جا رہی تھیں۔ سر بار بار کندھے پر لڑھک جاتاتھا۔ ‘ اس کا قصہ تمام!’ کسی نے کہا۔ بس یہ ویڈیو ‘وہاں’ پہنچ جائے!
یہ اتوار کا دن تھا۔ لیکن کئی جگہوں پر اسکولوں کی چھٹیاں رد کر دی گئیں۔ اساتذہ اور طلبہ کو اسکول آکر اجتماعی طور پر آب حیات نما اقوال زریں کو نوش فرمانا تھا۔ مدھیہ پردیش میں سنا سرپنچوں کو حکم دیا گیا تھا کہ اگر پنچایت بھون میں آکر یہ نہ کیا تو سرپنچی چھین لی جائے گی۔
یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اپنے دیگر عہدیداروں کے ساتھ کہیں، کسی سمت دیکھتے نظر آئے۔ کسی نے تبصرہ کیا؛ اسے کہتے ہیں ٹکٹکی لگا کر سننا۔ محاورہ بدل گیا۔
معلوم ہوا، یہ ’عوام‘آنکھوں سے وزیراعظم کی ’من کی بات‘ کا ٹیلی کاسٹ سن رہی تھی۔ یہ معمولی ‘من کی بات’ نہ تھی۔ نہ من معمولی ہے، نہ اس کی بات!
ہر مہینے کے آخری اتوار کو وزیر اعظم کو اپنی محبوب عوام سے ‘من کی بات’ سناتے ہوئے 100 مہینے جو ہوگئے تھے۔ یہ ایک ورلڈ ریکارڈ تھا۔ ایک عظیم الشان واقعہ،جس کی اہمیت بتانے کے لیےفلم اداکار، صنعت کار، ہندوستانی سماج کے مہاجن،سب دہلی میں اکٹھا ہوئے۔ ہندوستان کے باہر سے انہوں نے، جنہیں ہندوستان میں ابھی دھندہ کرنا ہے، اس من کی تعریف میں قصیدے پڑھے،جس کی بات کے لیے ہندوستان کی عوام کان لگائے رکھتی ہے۔
اس عظیم کامیابی کا جشن منانے کے لیے 100 روپے کا خصوصی سکہ جاری کرنے کا اعلان کیا گیا۔ تمام کمیونٹی ریڈیو اسٹیشنوں کو ‘من کی بات’ کی 100ویں قسط کو لازمی طور پر نشر کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہاں تک کہ نجی ٹیلی ویژن چینلوں کو بھی۔ ہندوستان کا بڑی پونجی کا میڈیا یوں بھی اس حکومت اور نریندر مودی کا بھونپو بن گیا ہے اور اس میں اسے کوئی شرم بھی نہیں ہے۔
اس کا ثبوت بھی پیش کرنا تھا کہ یہ نشر کیا گیا اور پورا سنا گیا۔ اسی لیے شروع کے کچھ حصے اور بعد کے کچھ حصے کے دوران اس کو سننے والے لوگوں کی تصاویر، ویڈیوز ریکارڈ کرنے کا حکم تھا۔ یہ راز تھا ان تصویروں کا جس میں قدموں میں لوٹنے والے وزراء، لیڈران، افسران خلا میں دھیان سے تاکتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
‘من کی بات’ اسی طرح کی خود پسندی اور نرگسیت ہے جو اسٹالن یا ہٹلر کو تھی۔ کہا جاتا ہے کہ سوویت یونین میں آپ سٹالن کی آواز سے بچ نہیں سکتے تھے۔ اسٹالن کی آواز سڑکوں پر لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے آپ کا پیچھا کرتی تھی۔ بہت سے دوسرے کمیونسٹ ممالک کا بھی یہی حال تھا۔ ہٹلر نے سیلف پروپیگنڈے کے لیے ریڈیو کوکس طرح استعمال کیا یہ ایک معروف حقیقت ہے۔ ہندوستان اب ہٹلر اور اسٹالن کے راستے چل رہا ہے۔
اطمینان کی بات یہ ہے کہ شاید ہندوستان کی صرف ایک چوتھائی آبادی نے ہی اس سیلف پروموشن اور سیلف ٹاک میں دلچسپی لی ہے۔ ہندوستان کے لوگ اس پر کان نہیں دھرتے۔ کمیونٹی ریڈیو آپریٹرز نے یہ بھی بتایا کہ ان کے سامعین کو عظیم رہنما کی آواز میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اور یہیں ہندوستان کی امیدیں پنہاں ہیں۔
ہندوستان کی تمام اشرافیہ مل کر ہندوستان کی جو تصویر بنانا چاہتی ہے، وہ ہندوستان ابھی تک نہیں بنایا جا سکا ہے۔ ہندوستان کے لوگوں کے کان ابھی بھی انہی کے ہیں۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر