کرناٹک میں کانگریس کی جیت نے 2015 کے دلی اور 2020 کے مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کی یاد تازہ کر دی ہے، جہاں کسی ایک پارٹی نے مودی-شاہ کے طنطنے اور رتبے کوانتخابی میدان میں شکست دی تھی۔ اس کے باوجود، ایسا نہیں ہے کہ اس جیت کے ساتھ ہندوستان کی جمہوریت میں اچانک سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہو۔
۱۔کرناٹک کے انتخابات میں کانگریس کی جیت ہندوستانی جمہوریت کی خوشحالی کا ‘ثبوت’ نہیں ہے، ٹھیک ویسے ہی جس طرح ملک بھر کی اکثرریاستوں میں حزب اختلاف کی حکومت ہونے سے ان نامناسب طور طریقوں کی نفی نہیں کی جاسکتی، جن کووزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت میں سرکاری طریقے سے ادارہ جاتی بنا دیا گیا ہے۔ کرناٹک کی جیت، اس کو حاصل کرنے سے پہلے کے حالات کو دیکھتے ہوئےاور بھی زیادہ اہم ہو جاتی ہے اور ریاست کے لوگوں کے شدید غصے کی عکاسی کرتی ہے۔
۲۔حزب اختلاف سے وابستہ لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی)، سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن، محکمہ انکم ٹیکس اور دیگر مرکزی ایجنسیوں کا استعمال انتخابی مہم کے دوران بلا روک ٹوک جاری رہا اور پولنگ سے پہلے کےچند دنوں میں توانتہا پرپہنچ گیا۔
جو بتایا جا رہا ہے، اگروہ سچ ہےتو ایسا لگتا ہے کہ سی بی آئی کے اگلے ڈائریکٹر کا انتخاب جس طرح سے کیا گیا ہے وہ شفاف نہیں ہے اور دو فریقی اصولوں کو ختم کرتا ہے۔ یہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ کس طرح سے پہلے بھی حساس عہدوں کے منتخب افراد نے اداروں اور جمہوریت کو تباہ کیا ہے۔ ای ڈی ڈائریکٹر کی تقرری اور انہیں ملنے والی غیرمعمولی توجہ اس کی مثال ہے۔
۳۔الیکشن کمیشن نے نریندر مودی اور امت شاہ کے متعدد بیانات اور اقدامات کے خلاف کانگریس اور دیگر لوگوں کی طرف سے کی گئی شکایات کو نظر انداز کر دیا، جو اس متعصب رویے کوظاہر کرتا ہےجس سے کسی قریبی مقابلے میں چیزیں پیچیدہ ہو سکتی تھیں۔ مودی کی جانب سے ووٹروں کو ووٹ ڈالنے کے دوران ‘جئے بجرنگ بلی‘ کی اپیل کرنے کے بارے میں ابھی تک الیکشن کمیشن کی طرف سے کوئی تبصرہ یا نوٹس نہیں آیا ہے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ ان کی اپیل انتخابی قانون کی خلاف ورزی تھی، لیکن الیکشن کمیشن اس پر خاموش رہا، یہاں تک کہ اس نے کرناٹک کی ‘خودمختاری’ کے بارے میں اس تبصرےکے لیے کانگریس کو نوٹس جاری کیا، جو سونیا گاندھی نے کبھی کیا ہی نہیں۔
۴۔بی جے پی ایک بار پھر گمنام الیکٹورل بانڈز کے ذریعے جمع کیے گئے فنڈز کا استعمال کرنے میں کامیاب رہی- بھلے ہی سپریم کورٹ نے اس طرح کی غیر شفاف سیاسی فنڈنگ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت کو ملتوی کرنا جاری رکھا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کرناٹک کےانتخابات یقینی طور پر غیرجانبدارانہ اور آزاد نہیں تھے۔ ان کا بہت خرچ ہوتا ہے؛ نسبتاً کم پیسے والے امیدواروں کی جیت ایک استثنیٰ تھی- بیلاری کے بی ناگیندرنے کان کنی کے کاروباری بی جے پی کے بی شری رامولو کو شکست دی، جو قابل ستائش ہے۔
۵۔کارپوریٹ کی ملکیت والے قومی میڈیا نے بی جے پی کی پروپیگنڈہ مشین کے طور پر کام کرنا جاری رکھا، وہیں مودی نے ضابطہ اخلاق کے نافذ ہونے سے عین قبل سرکاری دوروں کے لیے بڑے پیمانے پر ریاستی وسائل کا استعمال کیا۔ وزیر اعظم کے افتتاحی مع انتخابی مہم کے دوروں –کی تحقیقات ہونی چاہیے، اس کے بارے میں دی وائر کی رپورٹ پڑھ سکتے ہیں۔
۶۔بی جے پی کی انتخابی مہم اور مودی کی تقریریں سخت فرقہ وارانہ اور گھٹیا تھیں،جہاں’کانگریس پارٹی دہشت گردوں کے ساتھ کام کر رہی ہے‘ کا دعویٰ کرنے سے لے کر امت شاہ نے یہ تک کہہ دیاکہ ‘کانگریس جیتی تو دنگے ہوں گے‘۔انتخاب سے ٹھیک پہلے مسلمانوں کے لیے4 فیصد کوٹہ ختم کرنے کے فیصلے کے ساتھ بی جے پی نے اپنی انتخابی مہم شروع کی تھی،جس پر سپریم کورٹ نے روک لگا دی۔ ای وی ایم کا بٹن دبانے کے بعد ووٹروں سے ‘جئے بجرنگ بلی’ کا نعرہ لگانے کے لیے کہنا ہی واحد معاملہ نہیں تھا۔ مودی نے ہندو ووٹروں سے اپیل کرنے کے لیے پولرائزنگ پروپیگنڈہ فلم ‘دی کیرالہ سٹوری’ کی مدد بھی لی۔ بسواراج بومئی صرف وہ پردہ تھے، جو بنیادی طور پر اس ہندوتوا مہم کےمکھوٹے کے طور پر استعمال کیے گئے۔
۷۔مودی اور شاہ – جو ملک کے وزیر اعظم اور مرکزی وزیر داخلہ ہیں، نے منی پور میں بڑے پیمانے پر (جاری) تشدد کو نظر انداز کیا، جہاں سرکاری طور پر 70 سے زیادہ لوگوں کی جان چلی گئی اور تقریباً 35000 زیادہ افرادبے گھر ہو گئے کیونکہ وہ انتخابی مہم میں مصروف تھے۔ یہ اس وقت ہوا جب دونوں لیڈر کرناٹک میں ‘ڈبل انجن حکومت’ کی شان میں قصیدہ پڑھ رہےتھے اور ‘لاء اینڈ آرڈر’ کے نام پر اپنی پیٹھ تھپتھپا رہے تھے۔ اسی طرح اسی دوران ہندوستانی فوج کی اسپیشل فورس کے پانچ جوانوں نےجموں اور کشمیر میں دہشت گردی کی وجہ سےاپنی جان گنوا دی، لیکن ان کی شہادت پرانتخابی مہم میں مصروف مودی خاموش رہے۔
۸۔کانگریس کے رہنما راہل گاندھی کو گجرات کی ایک عدالت کی طرف سے ایک انتہائی مشتبہ قانونی معاملے میں سزا دینے کے بعد لوک سبھا سے باہر پھینک دیا گیا۔ یہاں لوک سبھا کے اسپیکر کی فوری کارروائی سوال کھڑے کرتی ہے۔ مقصد واضح تھا کہ پارٹی کی انتخابی مہم کے آغاز میں ہی ان کا حوصلہ پست کردیا جائے، حالانکہ یہ چال الٹی پڑگئی۔
۹۔انتخابی مہم کے دوران اڈانی کرپشن کے معاملے پر مودی کی خاموشی قائم رہی، جس نے بی جے پی کی قیادت والی ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت پر لگ رہے’40 فیصدوالی حکومت’ کے الزام کو زمین فراہم کر دی ۔ گزشتہ ماہ گورنر ستیہ پال ملک بھی دی وائر کودیے انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ مودی کو بدعنوانی سے کوئی خاص نفرت نہیں ہے۔
۱۰۔انتخابات سے پہلے، ریاست اور مرکز کی بی جے پی حکومت نے کئی فضول مقدمات اور انتقامی کارروائیوں کے حربے اپنا کر سول سوسائٹی کی آواز کو دبانے کی پوری کوشش کی۔ اداکار چیتن کمار کوہندوتوا پر تنقید کرنے والی سوشل میڈیا پوسٹ کے لیےگرفتار کرنا اور ان کے اوورسیزسٹیزن آف انڈیا کارڈ کو منسوخ کرنے کا قدم ایسا ہی ایک معاملہ تھا۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر