خبریں

کیرالہ: پرانے نکڑ ناٹک کے سین کو اس دعوے کے ساتھ شیئر کیا گیا کہ آر ایس ایس کی خاتون حامی کو مسلمانوں نے گولی ماری

فیکٹ–چیک:  ٹوئٹر پر وائرل ہوئے اس ویڈیو کواس دعوے کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے کہ ایک ہندو خاتون جوآر ایس ایس سپورٹر ہے کو مسلمانوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ 2017 میں صحافی گوری لنکیش کے قتل کے خلاف ڈیموکریٹک یوتھ فیڈریشن آف انڈیا کی جانب سے کیے گئے ایک نکڑ ناٹک  کا سین ہے۔

وائرل ویڈیو کا اسکرین شاٹ۔ (بہ شکریہ: ٹوئٹر)

وائرل ویڈیو کا اسکرین شاٹ۔ (بہ شکریہ: ٹوئٹر)

نئی دہلی: سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے، جس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ایک خاتون ،جو  راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی سپورٹر ہے ،اس  کو مسلمانوں کے ذریعے  گولی ماری جا رہی ہے۔

آلٹ نیوز کے مطابق، ٹوئٹر ہینڈل کے ذریعے شیئر کیے گئے ویڈیو کلپ کے ساتھ کیپشن تھا، ‘ہیش ٹیک کیرالہ میں ہیش ٹیک آر ایس ایس  کی ہیش ٹیگ سپورٹر خاتون کو گولی مار کر جہادیوں نے ہلاک کر دیا!’ وائرل ہوئے اس کلپ کو 40 ہزارسے زیادہ بار دیکھا گیا ہے۔ تقریباً ڈیڑھ منٹ کے اس ویڈیو کلپ کے اوپر ہندی میں لکھا آتاہے کہ ‘کیرالہ میں آر ایس ایس کی حمایت کرنے والی ہندو خاتون کو مسلمانوں نے گولی مار دی’۔

ایک اور ہینڈل  نے بھی اسے شیئر کیا اور لکھا، ‘کیرالہ میں آر ایس ایس کی ایک خاتون حامی کو مسلمانوں نےگولی ماری  اور ہمت دیکھیے گولی مارکر بھاگے نہیں، تقریر کر رہے ہیں۔ یہ ویڈیو مودی جی کے پاس ضرور جانا چاہیے۔

اسی طرح ٹوئٹر پر خود کو ‘پراؤڈ بھارتی’ بتانے والے ہینڈل  کویتا تیواری نے 20 مئی کو یہ ویڈیو کلپ شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ واقعہ دو دن پہلے پیش آیا تھا۔ بعد میں انہوں نے اس ٹوئٹ کو ڈیلیٹ کر دیا، حالانکہ اس وقت تک اسے 200 سے زیادہ بار ری ٹوئٹ کیا جا چکا تھا اور 15000 سے زیادہ بار دیکھا جا چکا تھا۔ اس ہینڈل کو وزیر اعظم نریندر مودی فالو کرتے  ہیں۔

انہوں نے لکھا تھا کہ کیرالہ کے ملاپورم میں آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والی ایک ہندو لڑکی کو کار سے گھسیٹ کر گولی مار دی گئی ۔ یہ پچھلے دو دنوں میں ہوا ہے۔ اب سب اسے پروپیگنڈا کہہ ر ہے ہیں۔ ڈیلیٹ کیے گئے ان کے  ٹوئٹ کا آرکائیو لنک یہاں دیکھ سکتے ہیں۔

کویتا کے ڈیلیٹ کیے گئے ٹوئٹ کا اسکرین شاٹ۔

کویتا کے ڈیلیٹ کیے گئے ٹوئٹ کا اسکرین شاٹ۔

یہی ویڈیو اور یہی دعویٰ 2017 میں بھی بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا تھا۔ ان وائرل ٹوئٹ میں سے ایک کو یہاں  دیکھا جا سکتا ہے؛

فیکٹ–چیک

آلٹ نیوز کے فیکٹ چیک میں کہا گیا ہے کہ جو بھی ملیالم سمجھتا ہے وہ آسانی سےاس بات سمجھ سکتا ہے کہ یہ کسی نکڑ ناٹک کا سین ہے۔ جو لوگ اس زبان کو نہیں سمجھتے وہ نیچے دیے گئے کلپ میں ڈائیلاگ پڑھ سکتے ہیں۔

بھیڑ: (شورغل میں کچھ بھی صاف نہیں) تشدد کا مطالبہ۔ مار دو، مار دو!

(عورت گاڑی سے نکل کر بھاگتی ہے، اسے گولی لگتی ہے، وہ گر جاتی ہے)

مرکزی اداکار: وہ ایک فائٹر تھی اور وہ لڑی۔ اس نے آر ایس ایس کے خلاف آواز بلند کی  اور آج ،آخر کار آر ایس ایس نے انہیں ختم کر ہی دیا۔ انہوں نے اسے بھی مار ڈالا۔ انہیں پکڑو، باندھو! کیوں، کس لیے تم نے اس بے گناہ صحافی کو  مارا؟

قتل کرنے والی بھیڑ میں سےایک اداکار: ہم آر ایس ایس کے کارکن ہیں، دیش بھکت!

مرکزی اداکار: سنا تم نے؟ کیا تم نے اس کی بات سنی؟ آر ایس ایس کے کارکن، جدوجہد آزادی کے غدار، وہ جنہوں نے مہاتما گاندھی کو گولی مار کر قتل کیا۔ وہ وہی ہیں، آر ایس ایس والے۔ یہ خطرناک ہے۔ خاموش رہنا خطرناک ہے۔ فاشزم خطرناک ہے۔ جب فاشزم ہمارے گھروں تک پہنچ چکا ہے تو یہ خاموشی خطرناک ہے۔

پہلا اداکار: ہاں، خاموشی خطرناک ہے۔

مرکزی اداکار: ہاں، یہ ہے۔ آر ایس ایس نے گجرات میں تقریباً 2000 اقلیتوں کو قتل کیا۔ انہوں نے کلبرگی اور گووند پانسرے کو قتل کیا۔ وہ ہر اس شخص کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو لکھتا یا بولتا ہے۔ یہ خاموشی خطرناک ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس ڈرامے کے بارے میں کئی اخبارات نے خبر شائع کی تھی۔ ہندوستان ٹائمز نے اس وقت بتایا تھا کہ یہ ڈرامہ ڈیموکریٹک یوتھ فیڈریشن آف انڈیا (ڈی وائی ایف آئی ) نے ملاپورم، کیرالہ میں پیش کیا تھا۔ اخبارات نے اپنے ماخذ کے طور پر مقامی اخبار ‘ماتر بھومی’ کا حوالہ دیا تھا۔

آلٹ نیوز نے اس تنظیم کے آفیشل فیس بک پیج پر اس ویڈیو کو تلاش کیا اور پتہ چلا کہ یہ 8 ستمبر 2017 کو پوسٹ کیا گیا تھا – صحافی گوری لنکیش کو بنگلورو میں ان کے گھر کے سامنے قتل کیے جانے کے تین دن بعد۔ پوسٹ  میں لکھا گیاتھا، ‘یہ ڈی وائی ایف آئی کلیکو ہے… آر ایس ایس کے خلاف زبردست  ناٹک… اسٹریٹ پلے کے ذریعے – ایک جن شنوائی – آر ایس ایس کے ذریعے گوری لنکیش کے قتل کے لیے…’

یہ ویڈیو اس بات کو ثابت کرنے کا واضح ثبوت ہے کہ ڈی وائی ایف آئی کی طرف سے لنکیش کے قتل کے خلاف احتجاج میں کیے گئے ڈرامہ کو انٹرنیٹ پر ہندو عورت کے مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے گمراہ کن دعوے کے ساتھ نشر کیا گیا ہے۔