فکر و نظر

’اس چمکدار سسٹم میں ہندوستان کی بیٹیوں کی جگہ کہاں ہے؟‘

ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف جنسی ہراسانی کا الزام لگاتے ہوئےاحتجاج کرنے والے پہلوانوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے میڈل گنگا میں بہا  دیں گے کیونکہ ‘یہ تیزسفیدی والاسسٹم انہیں مکھوٹا بناکرصرف اپنا پرچار کرتا ہے، اور پھر استحصال کرتا ہے۔ اس استحصال کے خلاف بولیں، تو جیل میں ڈالنے کی تیاری کرلیتا ہے۔

نئے پارلیمنٹ ہاؤس میں وزیر اعظم نریندر مودی اور برج بھوشن شرن سنگھ (دائیں) (درمیان میں) جنتر منتر پر ایک پریس کانفرنس میں وینیش پھوگاٹ اور ساکشی ملک۔ (فوٹو بہ شکریہ: پی آئی بی اور ٹوئٹر)

نئے پارلیمنٹ ہاؤس میں وزیر اعظم نریندر مودی اور برج بھوشن شرن سنگھ (دائیں) (درمیان میں) جنتر منتر پر ایک پریس کانفرنس میں وینیش پھوگاٹ اور ساکشی ملک۔ (فوٹو بہ شکریہ: پی آئی بی اور ٹوئٹر)

ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف جنسی ہراسانی کاالزام لگاتے ہوئےاحتجاج کرنے والے پہلوانوں کی طرف سے منگل (30 مئی) کو جاری کیا گیا خط؛

§

اٹھائیس (28 )مئی کو جو ہوا وہ آپ سب نے دیکھا۔ پولیس نے ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا؟ کتنی بے رحمی سے ہمیں گرفتار کیا۔ ہم پرامن مظاہرہ کر رہے تھے۔ ہمارے احتجاج کی جگہ کو بھی پولیس نے تباہ  کر دیا اورہم سے چھین لیا اور اگلے دن سنگین مقدمات میں ہمارے خلاف ایف آئی آر درج کر دی۔ کیا خواتین پہلوانوں نے اپنے ساتھ ہونے والی جنسی ہراسانی کے خلاف  انصاف کا مطالبہ  کرکےکوئی گناہ  کر دیا ہے؟

پولیس اورسسٹم ہمارے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کر رہی ہے، جبکہ ظالم ہم پر کھلے عام جلسوں میں پھبتیاں کس رہا ہے۔ ٹی وی پر خواتین پہلوانوں کو شرمندہ  کردینے والے اپنے واقعات کو قبول کرکے وہ انہیں قہقہوں میں تبدل کر دے رہا  ہے۔ یہاں تک کہ وہ کھل کر پاکسو ایکٹ میں تبدیلی کی بات کر رہا ہے ۔ ہم خواتین پہلوان اندر سے یہ محسوس کر رہی ہیں کہ اس ملک میں ہمارا کچھ بچا نہیں ہے۔ ہم ان لمحات کو یاد کر رہے ہیں جب ہم نے اولمپک، ورلڈ چیمپئن شپ میں میڈل جیتے تھے۔

اب لگتا ہے کیوں جیتے تھے! کیا اس لیے جیتے تھے کہ سسٹم  ہمارے ساتھ اس طرح کا گھٹیا سلوک کرے۔ ہمیں گھسیٹے اور پھر ہمیں مجرم بنا دے۔ کل سارا دن ہماری بہت سی خواتین پہلوان کھیتوں میں چھپی رہیں۔ سسٹم کو پکڑنا ظالم کو چاہیےتھا، لیکن وہ مظلوم خواتین کوان کا دھرنا ختم کروانے، انہیں  توڑنے اور ڈرانے میں مصروف ہے۔

اب لگتا ہے کہ ہمارے گلے میں سجے ان تمغوں کا  کوئی مطلب  نہیں رہ گیا ہے۔ ان کو لوٹانے کی سوچنےبھر سے ہمیں موت لگ رہی تھی، لیکن عزت نفس  اور وقارکے ساتھ سمجھوتہ کرکے بھی کیا جینا!

سوال یہ آیا کہ کس کو لوٹا جائے۔ ہمارے صدر کو، جو خود ایک خاتون ہیں۔دل نے کہا نہیں، کیونکہ وہ ہم سے صرف 2 کلومیٹر دور بیٹھی بس دیکھتی رہیں، لیکن کچھ بھی بولی نہیں۔

ہمارے وزیر اعظم کو،  جو ہمیں اپنے گھر کی بیٹیاں کہتے تھے۔دل نہیں مانا، کیونکہ ایک بار بھی انہوں نے اپنے گھر کی بیٹیوں کی خبرنہیں لی ۔ بلکہ نئی پارلیامنٹ کے افتتاح میں ہمارے ظالم کو مدعو کیا اور وہ تیز سفیدی والے چمکدار کپڑوں میں فوٹو کھنچوا رہا تھا۔ اس کی سفیدی ہمیں چبھ  رہی تھی۔ گویا کہہ رہی ہو کہ میں ہی سسٹم  ہوں۔

اس چمکدار سسٹم میں ہماری جگہ کہاں ہے، ہندوستان کی بیٹیوں کی جگہ کہاں ہے؟ کیا ہم محض نعرے بن کر یا صرف اقتدار میں آنے  بھر کا ایجنڈہ بن کر رہ گئی ہیں۔

یہ میڈل اب ہمیں نہیں چاہیےکیونکہ انہیں پہنا کر ہمیں مکھوٹا بناکرصرف اپنا پرچار کرتا ہے یہ تیز سفیدی والا سسٹم،  اور پھر ہمارا استحصال کرتا ہے۔ ہم اس استحصال کے خلاف بولیں، تو ہمیں جیل میں ڈالنے کی تیاری کرلیتا ہے۔

ان تمغوں کو ہم  گنگا میں بہانے جارہے ہیں، کیونکہ وہ ماں گنگا ہے۔ ہم گنگا کو جتنا مقدس سمجھتے ہیں، اتنے ہی مقدس جذبے کے ساتھ ہم نے محنت کرکے یہ تمغے حاصل کیے تھے۔ یہ تمغے پورے ملک کے لیے مقدس ہیں اور اس مقدس تمغے کو رکھنے کی صحیح جگہ مقدس ماں گنگا ہی ہو سکتی ہے،  نہ کہ  ہمیں مکھوٹا بنا کر فائدہ لینے کے بعد ہمارےظالم کے ساتھ کھڑا ہوجانے والا ناپاک سسٹم۔

میڈل ہماری جان ہے، ہماری روح ہے۔ ان کے گنگا میں بہہ جانے کے بعد ہمارے جینے کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے گا۔ اسی لیے ہم انڈیا گیٹ پر اپنی موت تک بھوک ہڑتال پر بیٹھیں گے۔

انڈیا گیٹ ہمارے ان شہیدوں کی جگہ ہے،جنہوں نے ملک کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔ ہم ان کی طرح مقدس نہیں، لیکن بین الاقوامی سطح پر کھیلتے ہوئے ہمارا جذبہ بھی ان فوجیوں جیسا ہی  تھا۔

ناپاک سسٹم اپنا کام کر رہا ہے اور ہم اپنا کام کر رہے ہیں۔ اب لوگوں کو سوچنا ہو گا کہ وہ اپنی ان بیٹیوں کے ساتھ کھڑے ہیں یا اس مضبوط وہائٹ واش سسٹم کے ساتھ جو ان بیٹیوں کو ہراساں کر رہا ہے۔

… ہم ہری دوار میں اپنے میڈل گنگا میں بہائیں گے۔ ہم اس عظیم ملک کے ہمیشہ احسان مند رہیں گے۔