اگر رام ناتھ گوئنکا زندہ ہوتے اور آج کی ‘غیر اعلانیہ ایمرجنسی’ کے حوالے سے اخبار کے مالکان اور مدیران کو خط لکھتے، تو شاید یہ کہتے کہ وہ پریس جو آزاد ہونے کی اجازت کا انتظار کرتی ہے، اس نے اپنی مرضی سے عمر بھر کا قیدی بننے کا انتخاب کیا ہے۔ اور وہ مدیر جو سچائی سے منہ موڑتا ہے، اس کو اس کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
سال 1975کی ایمرجنسی تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر درج ہے۔ لیکن آج کی غیر اعلانیہ ایمرجنسی کہیں زیادہ سنگین ہے، کیونکہ یہ جمہوریت کے لبادے میں جمہوریت کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ انتخابات اب صرف ووٹ ڈالنے کے عمل تک محدود ہیں اور یہ عمل بھی کئی سطحوں پر داغدار ہے۔
اگر آج مہاتما گاندھی زندہ ہوتے، تو فلسطین جیسی مظلوم قوم کے تئیں ہندوستان کی خاموشی پر کیا کہتے؟ یہاں راجیہ سبھاممبرمنوج کمار جھا گویا گاندھی کی روح کو لفظوں کا پیرہن عطا کر رہے ہیں۔
جدوجہد آزادی صرف برطانوی راج کو ختم کرنے کے لیے نہیں تھی۔ یہ اپنے وقار کو دوبارہ حاصل کرنے، بے اختیار لوگوں کو بااختیار بنانے اور ایک منصفانہ اور جامع معاشرے کی تشکیل کے لیے ایک تہذیبی تحریک تھی۔ ہندوستان کو دوبارہ انہی جذبات کی ضرورت ہے…
اگر اعلیٰ ذات یا اشرافیہ کو آئینی اور مساوی حقوق پر مبنی معاشرے کے مطابق اپنے عالمگیر فلسفہ کو ڈھالنا ہے، تو انہیں اپنے حق خصوصی پر سوال اٹھانے ہوں گے۔
ہندوستان جیسے ثروت مند ملک میں جہاں تمام مذاہب کے لوگ عزت ووقار سے رہتے ہیں اور آپ سے ترغیب شدہ ہمارا آئین سب کو برابری کا حق دیتا ہیں۔ یہاں مذہب کی بنیاد پر پناہ گزینوں میں فرق ہو رہا ہے اور شہریت عطا کرنے میں گھٹیا دائرے سے مذہبی بنیاد کو دیکھا جانےلگا ہے باپو!اس نئے قانون کے بعد آپ کے ہم سفرساتھیوں کے ذریعے تشکیل دی گئی آئین کی تمہیدبیگانی سی لگ رہی ہے۔