پیرمحمد مونس: قصہ تو سنتے ہو اوروں کا، آج میری داستاں سنو
ہندو مسلم یکجہتی کے حمایتی مونس نے اپنے وقت کے دنگوں کی رپورٹنگ کرتے وقت پنڈت اور مولویوں کی کرتوتوں کو خوب اجاگر کیا ہے۔
ہندو مسلم یکجہتی کے حمایتی مونس نے اپنے وقت کے دنگوں کی رپورٹنگ کرتے وقت پنڈت اور مولویوں کی کرتوتوں کو خوب اجاگر کیا ہے۔
انقلاب 1857 کے دوران سب سے زیادہ جری کردار’دہلی اردو اخبار‘ نے ادا کیا۔
یوم شہادت پر خاص : مولوی محمد باقر اور اُن کی خدمات کو یاد کر رہی ہیں رعنا صفوی
ہندی اور اُردو کا جھگڑا ایک زمانے سے جاری ہے۔ مولوی عبدالحق صاحب، ڈاکٹر تارا چند جی اور مہاتما گاندھی اس جھگڑے کو سمجھتے ہیں لیکن میری سمجھ سے یہ ابھی تک بالاتر ہے۔ کوشش کے باوجود اس کا مطلب میرے ذہن میں نہیں آیا۔ ہندی کے حق میں ہندو کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ مسلمان اُردو کے تحفظ کے لئے کیوں بے قرار ہیں؟— زبان بنائی نہیں جاتی، خود بنتی ہے اور نہ انسانی کوششیں کسی زبان کو فنا کر سکتی ہیں۔ میں نے اس تازہ اور گرما گرم موضوع پر کچھ لکھنا چاہا تو ذیل کا مکالمہ تیار ہو گیا۔
بک ریویو: یہ کتاب،اس تہذیب میں سانس لیتی عورت کی زندگی،اس کے تجربات و محسوسات اور لسانی رنگ وآہنگ سب کو پیش کرتی ہے۔گویا حیدرآباد کی تاریخ، سیاست، تہذیب و ثقافت، سماجی صورتحال،لسانی اثرات، بالخصوص عورتوں کی زندگی یہاں متوجہ کرتی ہے۔
موضوع کے لحاظ سے یہ ناول جوائنٹ فیملی سے نیوکلیر فیملی تک کے اذیت ناک سفر کی داستان ہے۔پورا ناول پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن میں بظاہر بے ترتیب لیکن نہایت بامعنی اورموضوع سے متعلق مناظر رقص کرنے لگتے ہیں۔ قاری تسلیم کرلیتا ہے کہ ہر برائی میں ایک اچھائی پوشیدہ ہوتی ہے اور یہ کہ اذیتوں کے بطن سے ہی نعمتیں جنم لیتی ہیں۔
آج اُردوکے مایہ ناز شاعر فراق گورکھپوری کی سالگرہ ہے۔ دی وائر اُردو کے قارئین کے لیے ایکسپریس نیوز کے شکریے کے ساتھ فراق صاحب کا انٹرویو پیش کیا جارہا ہے ۔یہ انٹرویوان کے انتقال سے چند روز قبل ان کی رہائش گاہ پر کیا گیا تھا۔
عصمت نے نہ صرف زبان پر پدری اجارہ داری کو توڑا بلکہ اپنی مخصوص زبان اور لفظیات سے ایک ایسی دنیا تشکیل دی جہاں عورت،انسان بھی ہے اور آزادی سے سانس بھی لیتی ہے، زنجیروں کو توڑتی بھی ہے؛ دکھ تکلیف میں آنسو بھی بہاتی ہے، کہیں معصوم،نرم و نازک سی تو کہیں فولادی۔عورت کی یہ دنیا کالی سفید جیسی بھی ہے کم از کم عورت کی دنیا تو ہے۔
غزل گلوکار بھوپندر سنگھ کا ممبئی کے ایک اسپتال میں مشتبہ طور پرپیٹ کے کینسر اورکووڈ سے متعلق پیچیدگیوں کی وجہ سے انتقال ہوگیا۔ پانچ دہائیوں پر محیط اپنے کیریئر میں انہوں نے ‘دل ڈھونڈتا ہے’، ‘نام گم جائے گا’، ‘تھوڑی سی زمین تھوڑا آسمان’، دو دیوانے شہر میں، کسی نظر کو تیرا انتظار، کسی کو مکمل جہاں، جیسے کئی مشہور نغموں اور کلام کو اپنی آواز دی۔
ہندی فلمیں اپنی کامیابی کے لیے آبادی کے ہر حصے اور ہر مذہب کے ناظرین پر منحصر کرتی ہیں۔ لیکن اس بار یہاں ہمارے سامنےایک ایسی فلم آئی ہے، جس کو صرف (کٹر/شدت پسند) ہندو ناظرین ہی درکار ہیں۔
گیتانجلی شری کے ہندی ناول ‘ریت سمادھی’ کے انگریزی ترجمہ ‘ٹومب آف سینڈ’ کو یہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔ اس کا ترجمہ ڈیزی راک ویل نے کیا ہے۔کسی بھی ہندوستانی زبان میں بکر حاصل کرنے والا یہ پہلا ناول ہے۔
وویک رنجن اگنی ہوتری بی جے پی کے پسندیدہ فلمساز کے طور پرابھر رہے ہیں اور انہیں پارٹی کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
یوم پیدائش پر خاص:استاد بسم اللہ خاں ایسے بنارسی تھے جو گنگا میں وضو کر کے نماز پڑھتے تھے اور سرسوتی کو یاد کر کے شہنائی کی تان چھیڑتے تھے ۔اسلام کے ایسے پیروکار تھے جو اپنے مذہب میں موسیقی کے حرام ہونے کے سوال پر ہنس کر کہتے تھے ،کیا ہو اسلا م میں موسیقی کی ممانعت ہے ،قرآن کی شروعات تو’ بسم اللہ‘ سے ہی ہوتی ہے۔
جو چیز ششی کو اپنے ہم عصروں سے واقعی اوپر اٹھاتی ہے وہ تھا ان کا تنوع versatility جس کی بدولت وہ ایک ہی دور میں کمرشل فلم کے رومانوی ہیرو بھی تھے، آرٹ ہاؤس سنیما کے روح و رواں بھی اور مغربی پکچرز کے مرکزی کردار بھی۔
کوئی بھی جشن اور تہوار مذہب سے زیادہ انسان کےعشق و محبت کے جذبے کو بیدار کرتا ہے۔ہولی بھی ایک تہوار سے زیادہ کچھ ہے اس لئے ہندومسلمان میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے۔
اعجاز احمد نے جنوری 2008 میں بھوپال کی ایک ادبی تنظیم ’سروکار سہکارِتا‘کی دعوت پر فضل تابش کی یاد میں دو لیکچر بھوپال میں دیے تھے۔ لیکچرز کا موضوع ‘نو سامراجیت کے خلاف تہذیبی مزاحمت’ تھا۔
تذکار و تنقید: ڈاکٹر عبدالحی نے پوری اردو برادری کی طرف سے ایک فرضِ کفایہ ادا کیا ہے۔ یقیناً اس کتاب سے زبیر رضوی پر کام کرنے والوں کو بہت مدد ملے گی کیونکہ اس میں بہت سے وہ مضامین شامل ہیں جو پرانے بوسیدہ رسائل میں محفوظ تھے جو اب تلاش بسیار کے باوجود شاید ہی مل سکیں۔
ویڈیو: حال ہی میں راج کمل پرکاشن سے اشوک کمار پانڈے کی کتاب ‘ساورکر: کالا پانی اوراس کے بعد’چھپ کرمنظر عام پرآئی ہے۔ اس کتاب میں بعض ایسےحقائق بیان کیے گئے ہیں،جن کا ذکر بالعموم کم ہوتا ہے۔صاحب کتاب کا کہنا ہے کہ کسی کے بارے میں جاننے کے لیےیہ نہیں پڑھنا چاہیے کہ دوسروں نے ان پر کیا لکھا ہے، بلکہ وہ پڑھا جانا چاہیے،جو انہوں نے خود لکھا ہے۔ اس سے ان کےطبع زاد خیالات کا پتہ چلتا ہے۔
قارئین کی نذر لتا جی کو معنون شیراز راج کی نظم ، شیراز نے یہ نظم کچھ برس پہلے کہی تھی اور لتا جی کی وفات پر اس نوٹ کے ساتھ شیئر کیا کہ، آج کا دن ہے لتا جی کی شکر گزاری کا، انہیں سیس نوانے کا۔
’یہ کہنا شاید صحیح نہیں کہ ہمیں اپنے اسلاف کے کارناموں کا علم نہیں ‘ لیکن کیا کیجیے کہ ہم اپنے کلچر ہیرو کو کہانیوں میں تلاش کرتے پھرتے ہیں۔منشی نولکشورکو میں کلچر ہیرو کے طور پر جانتا ہوں کہ انہوں نے کتابوں کی صورت آب حیات کے چشمے جاری کیے۔‘
یوم وفات پر خاص: اہم بات یہ ہے کہ صفدر کی آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد جن ناٹیہ نے ان پر حملہ ہونے والی جگہ پر دوسرے دن ہلہ بول ناٹک ہزاروں لوگوں کے درمیان جوش سے کیا تھا۔
یوم شہادت پر خاص: راجندر ناتھ لاہڑی اُن انقلابیوں میں سے ایک تھے جنہوں نے اگست 1925 میں انگریزوں کا خزانہ لوٹا تھا۔ 1927 میں انصاف کے تمام تقاضوں کی نفی کرتے ہوئے انگریزی حکومت نے انہیں مقررہ دن سے دو روز پہلے اس لیے پھانسی دے دی تھی کہ انہیں خدشہ تھا کہ گونڈہ جیل میں بند لاہڑی کو ان کے انقلابی ساتھی چھڑا لے جائیں گے۔
کچھ عرصہ سے ہندو انتہاپسندوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کو یہ خیال ستا رہا ہے دلیپ کمار عرف یوسف خان سے شروع ہو کر شاہ رخ خان تک اداکاروں کی ایک بڑی کھیپ، سوسائٹی کے لیے رول ماڈل کا کام کرتے ہیں۔ اسی لیے پچھلے کئی برسوں سے بالی ووڈ ان کے نشانے پر ہے۔
ہم جنس پرستوں کے تئیں سماج کا تعصب بیش از بیش اس کا جنسی پہلو ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ جنس یا شہوت انسانی زندگی کا ایک لمحاتی حصہ ہے، بہت ہی محدود وقت کا کھیل ہے اصل چیز دو پیار کرنے والوں، خواہ وہ جنس مخالف ہوں یا ہم جنس ، کی ایک دوسرے سے محبت ہے ، قربت کی چاہ ہے نہ کہ جنس کا کھیل۔
راہی معصوم رضا نے ٹوپی شکلا کے پیش لفظ میں لکھا کہ ٹوپی شکلا میں ایک بھی گالی نہیں ہے مگر یہ پورا ناول ایک گندی گالی ہے جسے میں ڈنکے کی چوٹ پر بک رہا ہوں۔
ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوکہ وہ لوگ جو کبھی اسکول نہیں گئے، بالکل ناخواندہ اور حد تو یہ کہ ٹھیک سے ہندی بھی نہیں بول سکتے تھے ایسے اداکاروں کو حبیب تنویر اسٹیج پر لائے۔
امرتا کے ادبی اظہار کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے عورتوں کے لیے ایک دنیا خلق کی ۔جس میں بغاوت بھی تھی اور عشق کی آوارگی بھی ۔
’ہندوستان کا کوئی مسلمان ایسا نہ تھا جس نے مولانا کے ناولوں کا مطالعہ نہ کیا ہو،یہاں تک کہ بعض علماء جن کو ناول کے نام سے نفرت تھی ،مولانا کی تصنیف کا دیکھنا باعث حسنات جانتے تھے۔‘
فلم کے ڈائریکٹرسمن گھوش نے بتایا کہ آدھارنمبر جاری کرنے والی سرکاری ایجنسی یو آئی ڈی اے آئی کے عہدیداروں نے جنوری میں فلم دکھانے کو کہا تھا۔ اسے پانچ فروری کو ہی ریلیز ہونا تھا، لیکن ایک ہفتہ پہلے ہی اچانک اسے روک دیا گیا۔سنیٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن نے فلم کو 2019 میں ہری جھنڈی دے دی تھی۔
یوم وفات پر خاص: ادھر مقبولیت کا یہ عالم کہ ابن صفی کے جاسوسی ناول دھڑا دھڑ بک رہے ہیں اور ادھر یہ مٹھی بھر ناخدا اتنے زور آور ہیں کہ اتنے مقبول و مشہور مصنف کو ادب میں گھسنے نہیں دے رہے۔
سریکھا سیکری نے1978 میں اپنے فلمی پردے کا سفرفلم ‘قصہ کرسی کا’سے شروع کیاتھا۔ 1986میں آئی گووندنہلانی کی فلم ‘تمس’، 1994میں آئی شیام بینیگل کی فلم ‘ممو’اور سال 2018 میں امت رویندرناتھ شرما کی ہدایت کاری میں بنی فلم‘بدھائی ہو’کے لیے انہیں بیسٹ سپورٹنگ اداکارہ کے لیےتین بار نیشنل ایوارڈملا تھا۔
ٹریجک ہیرو کےکرداروں کےساتھ ہی ہلکی پھلکی کامیڈی کرنے کی صلاحیت کے لیےمعروف دلیپ کمار کو ان کے مداحوں اور ساتھ کام کرنے والوں کےبیچ بھی ہندی سنیما کا عظیم اداکار تسلیم کیا جاتا ہے۔
ہندی فلموں میں‘ٹریجڈی کنگ’کے لقب سے مشہور دلیپ کمار 98سال کے تھے۔ پانچ دہائی کے لمبے کریئر میں انہوں نے ‘مغل اعظم’، ‘دیوداس’، ‘نیا دور’اور‘رام اور شیام’ جیسی متعدد ہٹ فلمیں دیں۔ ‘گنگا جمنا’، ‘مدھومتی’، ‘کرانتی’، ‘ودھاتا’، ‘شکتی’ اور ‘مشعل’ جیسی فلموں میں لاثانی اداکاری کے لیے انہیں جانا جاتا ہے۔
گنگا میں بہتی لاشوں کو دیکھ کر افسردہ گجراتی شاعرہ پارل کھکر نے اپنی افسردگی کو چودہ مصرعوں کی ایک نظم میں ڈھال دیا ہے، جسے ادیبوں کے علاوہ عام لوگوں نے بھی پسند کیا۔ حالانکہ اس کے بعد بنیادی طور پرغیرسیاسی پارُل مقتدرہ بی جے پی کی ٹرول آرمی کے نشانے پر آ گئیں۔
شمیم حنفی کی تنقید کو پڑھنے کا ایک لطف یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی بات ہمیشہ دھیمے پن سے اور دلیل سے کی ہے۔وہ اختلاف کو تنقید کے لیے باعث رحمت کہتے ہیں کہ اس سے ہی نئے مباحث کے دریچے کھلنے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں تاہم اس میں بھی ایک تہذیب کے قائل رہے ہیں۔
رالف نے انگریزی دانوں کے درمیان اردو اور اپنے پسندیدہ شاعر غالب کو مقبول و معروف کرانے کاکام بھی اسی سنجیدگی سے عبادت کی طرح کیا۔ اردو کے ترویج کی ان کی کوششیں عملی ہیں— بحیثیت استاد بھی اور بہ حیثیت تنظیم کار بھی۔ غالب سے عشق ان متعدد کتابوں کی صورت میں ظاہر ہوا ہے جو انھوں نے وقتاً فوقتاً آکسفرڈ یونیورسٹی پریس اور دوسرے اشاعت گھروں سے شائع کرائی ہیں۔
ہندی والوں سے آپ شمیم حنفی کے تعلق سے کچھ پوچھیے تو وہ انھیں ہندی کا ادیب نہ سہی مگر وہ اپنا پاٹھک ضرور مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نقاد سے زیادہ قاری کو پسند کرتے ہیں۔
کون جانتا تھا کہ ذوقی اور تبسم کی یہ باتیں جو آج بیس اور اکیس اپریل 2021 کی درمیانی شب کو میں لکھ رہا ہوں اسےماضی کے صیغے میں لکھوں گا۔ جہاں’ہے’ لکھنا تھا وہاں’تھا’ لکھوں گا۔ رہے نام اللہ کا۔
بک ریویو: پڑھے -لکھے شہریوں اور لیفٹ- لبرل طبقوں میں آر ایس ایس کو لےکر جو عقیدہ رہا ہے وہ یہ ہے کہ سنگھ بہت ہی پسماندہ تنظیم ہے۔ بدری نارائن کی کتاب ‘ری پبلک آف ہندوتوا: ہاؤ دی سنگھ از ری شیپنگ انڈین ڈیموکریسی’ دکھاتی ہے کہ سنگھ نے اس کے برعکس بڑی محنت سے اپنی امیج بنائی ہے۔
ہماری تہذیب اور ثقافتی ورثے پر شیکسپیئر کا تاثر اتنا گہرا اور ہمہ گیر ہے کہ وہ ہمارے شعور کا حصہ بن گیاہے ہماری ذہنی نشوونما میں گھل مل گیا ہے۔