آن لائن نیوز پورٹلوں اورکنٹینٹ پرووائیڈرز کو وزارت اطلاعات و نشریات کے تحت لانے کے لیےمرکزی حکومت نے ایک حکم جاری کیا ہے۔دلچسپ یہ ہے کہ آن لائن پلیٹ فارمز پردستیاب خبروں اورعصری موضوعات سے متعلق مواد کو ‘پریس’کے ذیلی زمرہ کے تحت نہ رکھ کر ‘فلم’کے ذیلی زمرہ میں رکھا گیا ہے۔
مودی کے انتخاب جیتنے کے بعد یا پھر اس سے کچھ پہلے ہی میڈیا نے اپنا غیر جانبدارانہ رویہ طاق پر رکھنا شروع کر دیا تھا۔ ایسا تب ہے جب حکومت اور وزیر اعظم نے میڈیا کو پوری طرح سے نظرانداز کیا ہے۔ میڈیا اہلکاروں کی جتنی زیادہ توہین کی گئی ہے، وہ اتنا ہی زیادہ اپنی وفاداری دکھانے کے لئے بےتاب نظر آ رہے ہیں۔
آر ایس ایس سے وابستہ اندرپرستھ وشو سنواد کیندر نے سوشل میڈیا گروپ ’ کلین دی نیشن‘ کو سوشل میڈیا نارد پترکارتیا ایوارڈ دیا ہے۔
یہ پہلی بار ہے جب اسمرتی ایرانی نے اپنے انتخابی حلف نامہ میں واضح کیا ہے کہ ان کا تین سال کا گریجویشن ڈگری کورس پورا نہیں ہوا تھا۔ کافی لمبے وقت سے ایرانی کی تعلیمی اہلیت کو لےکر تنازعہ ہے۔
لوک سبھا انتخابات کے لیے بی جے پی کی طرف سے جاری 184 امیدواروں کی پہلی لسٹ میں وزیر اعظم نریندر مودی وارانسی سے الیکشن لڑیں گے۔وہیں مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی کو امیٹھی سے دوبارہ ٹکٹ دیا گیا ہے۔
میڈیا کا کام آگ بجھانے کا ہوتا ہے نہ کہ آگ لگانے کا۔ ہندی کے بعض اخبارات نے اور ٹی وی چینلوں نے عموماً پوری قوم کو جنگی جنون میں مبتلا کر کے رکھا۔ اس تجربے کے بعد ایک بار پھر سے میڈیا ریگولیشن کے قوانین پر نظر ثانی کرنے اور ان پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
26 فروری کے فضائی حملے نے سارے حساب کتاب اور معاملات بدل ڈالے ہیں۔ ایک پر امید کانگریس اب پھر اگلے پانچ سالوں کے لیے حزب اختلاف کی نشستوں پر نظر ڈال رہی ہے۔
اندازہ لگایئے کہ تاریخ سے کھیلنے والے ہمارے وزیر اعظم کے لیے جوانوں کی شہادت پر سیاست کیا مشکل ہے؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ جنگ کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔
پتنجلی یوگ پیٹھ کے انتخاب کے ساتھ ہی بھارتیہ شکشا بورڈ ملک کا پہلا ایسا نجی اسکول بورڈ بن گیا جو کہ حکومت کے ذریعے منظور شدہ ہوگا۔
میں خود کو کافی خوش قسمت مانتی ہوں کہ میں نے اٹل بہاری واجپائی جیسے کرشمائی رہنما کے ساتھ کام کیا ہے اور موجودہ وقت میں نریندر مودی کی قیادت میں کام کر رہی ہوں اور جس دن پردھان سیوک سنیاس لے لیںگے، میں بھی اسی دن سیاست کو الوداع کہہ دوںگی۔
اب یہ دیکھا جانا باقی ہے کہ کیا مودی حکومت ان بڑے کارپوریٹ گھرانوں کے خلاف کارروائی کرنے میں کامیاب ہو پاتی ہے، جو آنے والے عام انتخابات میں نامعلوم انتخابی بانڈس کے سب سے بڑے خریدار ہو سکتے ہیں۔
یہ پہلی بار نہیں ہے جب بی جے پی رہنماؤں پر سوال اٹھاتی کسی خبر کو نیوز ویب سائٹس نے بنا وجہ بتائے ہٹایا ہے۔
وزیرِ اطلاعات و نشریات کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے راٹھور نے واضح کیا کہ حکومت کا میڈیا پر کنٹرول کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
مرکزی اطلاعات و نشریات کی وزیر نے کہا کہ ملک میں انٹرنیٹ صارفین کی بڑھتی تعداد کو دیکھتے ہوئے ڈیجیٹل میڈیا صنعت کے لئے اصول بنانے کا یہ صحیح وقت ہے۔
فنکاروں کا کہنا تھا کہ صدر جمہوریہ کے ذریعے ایوارڈ دینے کی 65 سال سے چلی آ رہی روایت کو توڑا جا رہا ہے۔ وہیں صدر ہاؤس نے وضاحت دی ہے کہ صدر رام ناتھ کووند تمام ایوارڈ پروگراموں میں زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے رکتے ہیں، اس لئے وہ صرف 11 لوگوں کو ہی انعام دیںگے۔
سیٹ ٹاپ باکس میں نئی چپ لگنے بعد صارفین کا ڈیٹا حکومت حاصل کر سکے گی ،لیکن اس کے لیے صارفین سے کو ئی منظوری نہیں لی جائے گی ۔کانگریس نے کہا کہ مودی حکومت بن گئی ہے نگرانی سرکار۔
عام انتخابات نزدیک ہیں اور یہ صاف ہے کہ مرکز کی حکمراں مودی حکومت آن لائن میڈیا پر لگام لگانا چاہ رہی ہے جس نے گزشتہ کچھ سالوں میں حکومت کو آئینہ دکھانے کا کام کیا ہے۔
جن گن من کی بات کے اس ایپی سوڈ میں سنیے آن لائن میڈیا کی نگرانی کو لے کر حکومت کی حکمت عملی اور کاویری آبی تنازعہ پر ونود دوا کا تبصرہ
وزارت اطلاعات و نشریات کے نیوز پورٹل اور ویب سائٹس کوریگیولیٹ کرنے کے لئے کمیٹی بنائے جانے پر دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن اور سپریم کورٹ کی وکیل اونی بنسل سے ارملیش کی بات چیت۔
تقریباً تمام حکومتیں کہیں نہ کہیں آزاد میڈیا اور ایمانداری سے کام کرنے والے صحافیوں اور میڈیا ادارہ سے گھبراتی ہیں۔ ان کو اپنی غلط پالیسیوں اور فیصلوں کی تنقید ذرا بھی برداشت نہیں ہوتی۔
وزارت اطلاعات و نشریات نے نیوز پورٹل اور ویب سائٹس کوریگیولیٹ کرنے کے لئے اصول بنانے کو لےکر دس رکنی کمیٹی بنائی ہے۔
پی ایم او کی طرف سے کہا گیا ہے کہ فرضی خبروں سے نمٹنے کی ذمہ داری پریس کاؤنسل اور نیوز براڈکاسٹرس ایسوسی ایشن کی ہونی چاہئے۔
میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں سنیے ارریہ کے وائرل ویڈیو ، ضمنی انتخابات کے میڈیا کوریج اور ڈیجیٹل میڈیا پر قدغن کی تیاری کے موضوع پر سینئر صحافی آرتی جیرتھ اور اکشے مکل کے ساتھ ارملیش کی بات چیت۔
پرسار بھارتی میں وزارت اطلاعات و نشریات کی بڑھتی مداخلت اس بات کا ثبوت ہے کہ وزارت چیزوں کو بہتر بنانے کی بجائے ہر چیز پر کنٹرول قائم کرنا چاہتی ہے۔
سوشل میڈیا پر فرضی خبروں کی تشہیر کے بارے میں اطلاعات و نشریات وزیر نے کہا کہ سوشل میڈیا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اگر وہاں کوئی غلط کنٹینٹ ہے، تو لوگوں کے پاس اس کو صحیح کرنے کی طاقت ہے۔
سوشل میڈیا اورانٹرنیٹ کی ڈگر بہت نازک ہوتی ہے، اگر آپ احتیاط نہیں کرتے ہیں تو بہت ممکن ہے کہ آپ اس راہ پر پھسل جائیں !
مودی حکومت میں وزارت سنبھالنے والی چوتھی وزیر بنی اسمرتی ایرانی۔ نئی دہلی:وزارت اطلاعات و نشریات نے 2017 میں کئی تنازعوں کا سامنا کیا، جن میں فلم پدماوتی کی ریلیز کو لےکر مچا ہنگامہ اور آئی ایف ایف آئی میں دو فلموں کو نہیں دکھائے جانے کے مدعے اہم […]