گزشتہ اگست میں مرکزی حکومت کے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹانے اور یونین ٹریٹری بنا کر دو حصوں میں باٹنے کے فیصلے کے پہلے سے 3 وزیراعلیٰ سمیت کئی مقامی رہنما حراست میں ہیں۔
گزشتہ سال 5 اگست کو جموں و کشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ ختم کرنے کے بعد سے انتظامیہ نے کمیونی کیشن کی سبھی لائنوں –لینڈ لائن ٹیلی فون خدمات، موبائل فون خدمات اور انٹر نیٹ خدمات کو بند کر دیا تھا۔
نیشنل کانفرنس نے سپریم کورٹ میں دائر عرضی میں آرٹیکل 370 پر صدرجمہوریہ کے حکم اور جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ 2019 کو غیر آئینی، ناقابل قبول اور غیرمؤثر قرار دینے کی درخواست کی ہے۔
گورنر ستیہ پال ملک نے اتوار کو کہا کہ دہشت گرد سکیورٹی اہلکاروں سمیت بےگناہوں کا قتل کرنا بند کریں اور اس کے بجائے ان لوگوں کو نشانہ بنائیں جنہوں نے سالوں تک کشمیر کی دولت لوٹی۔ بیان کے طول پکڑنے پر انہوں نے وضاحت دی کہ انہوں نے جو بھی کہا، غصے میں کہا۔
غور طلب ہے کہ اس سے قبل نیشنل کانفرنس (این سی) نے بھی پنچایت انتخابات میں حصہ نہیں لینے کا اعلان کیا تھا۔
کشمیر کے کسی عام قصبہ یا دیہات میں این سی، پی ڈی پی یا حریت کے ورکر کی سیاسی زبان تقریباً ایک ہی جیسی ہوتی ہے۔یہ پارٹیاں بھی کھبی گراؤنڈ پر اپنے آپ کوہندوستان نواز نہیں کہلواتی ہیں۔