بارہ ابواب پر مشتمل 400صفحات کی اس کتاب میں کشمیر کے سبھی ایشوز خاص طور پر پچھلے تین سال کے دوران پیش آئے واقعات اور ان کے اثرات کا جامع جائزہ لیا گیا ہے۔ انورادھا نے اس کتاب میں ہندوستان کے سیکولر اور لبرل طبقہ کو مخاطب کرکے خبردار کیا ہے کہ موجودہ بی جے پی حکومت کشمیر کو ایک لیبارٹری کی طرح استعمال کر رہی ہے اور اگر اس کو روکا نہ گیاتو یہ تجربات قریہ قریہ، گلی گلی ہندوستان کے دیگر علاقوں میں دہرائے جائیں گے۔
نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے کہا کہ جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرتے ہوئے دلیل دی گئی تھی کہ آرٹیکل370کی وجہ سے ریاست میں دہشت گردانہ واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر ایسا ہی تھا تو ایک سال بعد مرکزی حکومت سپریم کورٹ میں یہ کیوں کہہ رہی ہے کہ یہاں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔
ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے کہا ہے کہ پولیس کا کام صحافی کے کام میں رکاوٹ ڈالنا نہیں ہے، خاص طور پر موجودہ حالات میں، بلکہ ان کے کام میں معاون بننا ہے۔
سپریم کورٹ کی آئینی بنچ 14 نومبر سے اس معاملے کی شنوائی کرے گی۔ مرکز کو پانچ اگست کے صدر جمہوریہ کے حکم کے خلاف دائر عرضیوں پر اپنا جوابی حلف نامہ دائر کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔
جموں و کشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ ہٹانے کے 89 ویں دن بھی بند جاری۔نیشنل کانفرنس نے جموں و کشمیر کو یونین ٹریٹری بنانے کے مرکزی حکومت کے قدم کو غیر آئینی قرار دیا۔ وادی میں کچھ لوگوں نے حکومت پر ان کا خصوصی درجہ اور پہچان چھیننے کا الزام لگایا۔
مودی حکومت جمہوریت کی جن علامتوں کو سنجونے کا دعویٰ کرتی ہے، وہ ان کوختم کر چکی ہے۔
سپریم کورٹ جموں و کشمیر میں نابالغوں کو حراست میں لینے، ذرائع ابلاغ پر پابندی لگانے جیسے کئی معاملوں پر دائر عرضیوں کی سماعت کر رہی ہے۔
جموں و کشمیر انتظامیہ کی طرف سے سپریم کورٹ سے کہا گیا کہ قومی مفاد میں لئے گئے انتظامی فیصلوں کی اپیل پر کوئی نہیں بیٹھ سکتا۔ صرف عدالت ہی اس کو دیکھ سکتی ہے اور درخواست گزار اس کو نہیں دیکھ سکتے۔
ویڈیو: میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں کشمیر میں میڈیا پر پابندی پر پریس کاؤنسل کے قدم پر سینئر صحافی پریم شنکر جھا، جئے شنکر گپت اور کشمیر ٹائمس کی ایگزیکٹوایڈیٹر انورادھا بھسین سے سینئر صحافی ارملیش کی بات چیت۔
سی جے آئی رنجن گگوئی کی صدارت والی بنچ کشمیر ٹائمس کی ایگزیکٹو ایڈیٹر انورادھا بھسین کی ریاست میں ذرائع ابلاغ سے پابندی ہٹانے سے متعلق عرضی پر سماعت کر رہی تھی، جہاں مرکز نے عدالت سے کہا کہ ریاست میں کسی بھی اشاعت پر کوئی روک نہیں ہے۔
’کشمیر ٹائمس ‘کی مدیر انورادھا بھسین نے سپریم کورٹ میں ریاست میں میڈیا پر لگی پابندی ہٹانے کی مانگ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وادی میں بند ہونے کی وجہ سے صحافی کام نہیں کر پا رہے ہیں۔
میڈیا کے ذریعے ریپ اور جنسی استحصال کی پہچان پبلک کرنے سے جڑے معاملوں کے بارے میں پریس کاؤنسل آف انڈیا، ایڈیٹرس گلڈآف انڈیااور انڈین براڈ کاسٹنگ فیڈریشن اور نیوز براڈ کاسٹنگ اسٹینڈرڈ اتھارٹی کو سپریم کورٹ نے نوٹس جاری کیا تھا۔
صحافیوں اور ایڈیٹرس کی تنظیموں نے میڈیا مالکان سے حکومت کے دباؤ کے سامنے نہ جھکنے کی درخواست کی۔
اپنی پارٹی، اپنا سیاسی نظریہ، اپنے نظریات اور اپنے تعصبات کے موتیابند سے باہر نکلکر دیکھیے کہ آپ مستقبل میں کس طرح کی جمہوریت کی زمین تیار کر رہے ہیں؟