مصنف ہندوستان کے ایک نامور صحافی ہیں، جو انگریزی کے مؤقر اخبار دی ہندو کے ساتھ پچھلی دو دہائی سے وابستہ ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے حوالے سے ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ پیش نظر کتاب میں تقریباً تمام موضوعات، جن میں لو جہاد، ہجومی تشدد، مساجد پر نشانہ، حجاب اور ہندوتوا وغیرہ شامل ہیں، پر بحث کی گئی ہے۔
کون جانتا تھا کہ ذوقی اور تبسم کی یہ باتیں جو آج بیس اور اکیس اپریل 2021 کی درمیانی شب کو میں لکھ رہا ہوں اسےماضی کے صیغے میں لکھوں گا۔ جہاں’ہے’ لکھنا تھا وہاں’تھا’ لکھوں گا۔ رہے نام اللہ کا۔
بک ریویو: پڑھے -لکھے شہریوں اور لیفٹ- لبرل طبقوں میں آر ایس ایس کو لےکر جو عقیدہ رہا ہے وہ یہ ہے کہ سنگھ بہت ہی پسماندہ تنظیم ہے۔ بدری نارائن کی کتاب ‘ری پبلک آف ہندوتوا: ہاؤ دی سنگھ از ری شیپنگ انڈین ڈیموکریسی’ دکھاتی ہے کہ سنگھ نے اس کے برعکس بڑی محنت سے اپنی امیج بنائی ہے۔
بک ریویو: کتاب کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ قیام پاکستان کے ملزمان میں کمیونسٹ بھی شامل ہیں ۔ صاحب کتاب نے راجیہ سبھا میں بھی کانگریس کی نمائندگی کی لیکن کانگریس کے اندر فرقہ پرستی کا جو زہر پھیل رہا تھا وہ اسے نظر انداز نہیں کر سکے اور ایک سچے مؤرخ کی طرح انہوں نے حقائق سامنے رکھ دیے ۔
بک ریویو: آڈری ٹروشکی نے اپنی اس کتاب کے ذریعے ان کی درست تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ کتاب ہمیں بہت سی ایسی باتیں بتاتی ہے، جو ملک کی بھگوا سیاست اور بھگوا تاریخ و صحافت ہم سے چھپاتی ہے ۔ مثلاً یہ تو بتایا جاتا ہے کہ اورنگزیب نے ہولی پر روک لگائی تھی مگر یہ چھپایا جاتا ہے کہ اورنگزیب نے عید اور بقرعید پر بھی روک لگائی تھی ۔
بک ریویو:یہ کتاب اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ کیسے آر ایس ایس اور ان کے ہم خیال گروپس اپنے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے دلت، آدی واسوی اور دیگر پسماندہ طبقات کا استعمال کرتی ہیں۔
مرگ انبوہ-آج کا ناول اس لیے ہے کہ اس میں ہم ایک تبدیل ہوتے ہوئے بھارت کو دیکھ سکتے ہیں۔ہمیں یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ لنچنگ اور شہریت ترمیم قانون تو بس ایک بہانہ ہے ، نسلوں کا صفایا اصل نشانہ ہے ۔کیا موت کے یہ فرمان ، یہ فارم،این پی آر ،این آر سی اور سی اے اے کے ہی فارم نہیں ہیں ؟
بک ریویو: ساورکر کا یہ عقیدہ تھا کہ نظریاتی طور پر ، قومیت اور شہریت کو صرف شہری ہونے کی نہیں، بلکہ اس کی مذہبی شناخت کی بنیادپر طے کیا جاسکتا ہے ۔یہی سی اے اے کا بنیادی نکتہ ہے کہ شہریت مذہب کی بنیاد پر دی جائے ۔ اور اسی بنیاد پر سی اے اے سے مسلمانوں کو باہر رکھا گیا ہے ۔
اس کتاب میں سیڈیشن جیسے پیچیدہ موضوع پراس طرح اور عام فہم زبان میں بات کی گئی ہے کہ پرائمر بھی اس کو سمجھ سکتا ہے۔اس میں میں کچھ ایسے بھی اہم سیڈیشن معاملات پر گفتگو کی گئی ہے جس کا عام طور پر سیڈیشن سے متعلق مباحث میں ذکر نہیں ہوتا۔
بک ریویو: یہ کتاب گڑھی ہوئی کہانیاں نہیں سناتی بلکہ انڈرورلڈ کا حقیقی چہرہ دکھاتی ہے۔وہ حقیقی چہرہ جس میں ’گلیمر‘سے کہیں زیادہ ’تاریکی ‘ہے۔یہ ایک ریٹائرڈ پولیس افسر اسحاق باغبان کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔وہ ممبئی پولیس کے ان اعلیٰ افسران میں سے ایک تھے جنہو ں نے شہر ممبئی میں انڈرورلڈ کی کمر توڑنے میں بھی اور شہر کو جرائم سے پاک کرنے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
رہنماؤں کی شان میں قصیدے پڑھنے کے اس دور میں آمنے سامنے بیٹھکر آنکھوں میں آنکھیں ڈالکر سخت اور مشکل سوالوں کے لئے معروف کرن تھاپر کی کتاب ‘میری ان سنی کہانی’ کو پڑھنا باعث تسکین ہے، کیونکہ عدم اتفاق اور سوال پوچھنا ہی جمہوریت کی طاقت ہے۔
افتخار عالم خاں کی کتاب –سرسید کی لبرل ،سیکولراور سائنسی طرز فکر’سرسید شناسی کے بالکل نئے امکانات کو سامنے لاتی ہے اور عہد حاضر میں سرسید کی معنویت کے نئے ابواب رقم کرتی ہے۔
آصف اعظمی کی مرتبہ کتاب پر، نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوگا کہ مجروح کی ادبی اورفلمی شاعری نے کس طرح اردو شاعری کو ثروت مند بنانے میں اساسی رول ادا کیا۔
یہ کتاب محض پسند کی شادی کے رومان کی سنسنی خیز اور دلچسپ حکایت رقم نہیں کرتی بلکہ پارسیوں اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات، ہندو مسلم روابط، کانگریس اور مسلم لیگ کے اشتراک اور پھر اختلافات بلکہ مخاصمت کے اور انگریزوں کے تئیں جناح کے رویہ کی تفصیلات پوری معروضیت کے ساتھ پیش کرتی ہے۔
سفلہ پروری اور علم دشمنی کے دور میں جب سیاسی لیڈروں کا قرطاس و قلم سے رشتہ بڑی حد تک منقطع ہو چکا ہے، ہاشم قدوائی صاحب کو یاد کرنا دراصل اپنے گم شدہ متاع کی بازیافت کرنا ہے اور یہی اس کتاب کی اشاعت کا جواز بھی ہے
ضیاء السلام نے محض وقتی اور ہنگامی مسئلے کو موضوع بحث نہیں بنایا ہے بلکہ انہوں نے اپنی اس کتاب کے توسط سے انسانی سرشت میں مضمر تشدد سے گہری دلچسپی کی روش کو بھی گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے اور اس نوع کے واقعات کے تاریخی پس منظر کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔
یہ کتاب تحقیقی دقت نظری کے نئے باب وا کرتی ہے اور حکیم احسن اللہ خاں کو ایک نئے تاریخی تناظر میں پیش کرتی ہے جہاں حکیم صاحب مغلیہ سلطنت کے سچے بہی خواہ اور انگریزوں کے مخالف کے طور پر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ یہ پہلی ایسی کتاب ہے جو حکیم صاحب پر لگائے گئے الزامات کا پوری معروضیت کے ساتھ جائزہ لیتی ہے اور الزام تراشی کے مسلسل عمل پر فل اسٹاپ لگاتی ہے۔
شمس بدایونی کی یہ کتاب سرسید فہمی کے تحقیقی تناظر کو خاطر نشاں کرتی ہے اور جدید طریقۂ تحقیق کے اصولوں یعنی مکمل حوالوں، کتابیات، اشاریوں اور عکسی نوادر کی شمولیت سے عبارت ہے جس کی پذیرائی ضروری ہے۔
یہ کتاب اردو کی ایک علاقائی اکائی میتھلی اردو کے امتیازات کو لسانی اور علمی نقطہ نظر سے پیش کرتی ہے اور اردو میں لسانی جغرافیہ مرتب کرنے کی اولین کوششوں میں سے ایک ہے اوراس کی پذیرائی لازم ہے۔
پروفیسر ریاض الرحمن شیروانی یوں تو عربی زبان و ادب کے پروفیسر رہے ہیں لیکن ان کی اردو نثر مفرس اور معرب نہیں ہے بلکہ سادگی اور برجستگی کا خاص خیال رکھا ہے۔ آج کے خبر نویسوں اور کالم نویسوں کو اس کتاب کامطالعہ لازمی طور پر کرنا چاہیے۔
مصنف نے سقوط حیدرآباد کے واقعات سے جو نتیجہ اخذکیا ہے کہ’یہ حملہ ناقابل گریزتھا ‘اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگرانہوں نے اپنی بات جس سنجیدگی کے ساتھ پیش کی ہے اس کا تقاضاہے کہ یہ کتاب سنجیدگی سے پڑھی جائے۔
ڈائری کی طرز پر لکھی گئی یہ کتاب کارگل کی جنگ کا اولین سچا، مفصل اور معتبر دستاویز ہے۔ اس میں ان واقعات کی حقیقی تصویر ملتی ہے کہ کیسے ہماری افواج نے بہادری سے لڑتے ہوئے انہیں مار بھگایا۔
اس کتاب سے وقتی سیاسی فائدہ اٹھانے کے بجائے ہندوستانی حکومت کو با ور کرایا جائے، کہ ہندوستانی انٹلی جنس کے اس ماہرکی باتو ں کو سنجیدگی سے لیکر امن مساعی کا آغاز کرکے عوامی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حتمی حل کی طرف پیش رفت کریں۔
معلوم پڑتا ہے مداوی الرشید شاہی خاندان کے اندر پنپ رہی کسی بغاوت کی طرف اشارہ کر نا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کسی گمنام خط کا تفصیل سے ذکر کیا ہے، جو ستمبر 2015 میں آن لائن شائع ہو اتھا۔
مسلمان ‘ عقیدہ کو ٹھیس ‘ لگنے والی زبان سے دوری بناکر اب شہریت کے حقوق کی زبان بولنا سیکھ رہے ہیں، تو لازمی ہے کہ ان کو انصاف اور مساوت کے معیار کو ان مدعوں پر بھی نافذ کرنا ہوگا جن کو لمبے وقت سے قوم کا اندرونی معاملہ کہہکرخاموشی اختیار کر لی جاتی رہی ہے
ساری سرکاری مشنری گجرات کے مسلم کش فسادات میں شامل تھی ،ریٹائرڈ آئی پی ایس آر بی سری کمار کی آنکھیں کھول دینے والی کتاب ’پس پردہ گجرات‘ کے انکشافات۔
کیا یہ کتاب صحیح معنوں میں عصمت کو زیادہ اور پورے طور پرسمجھاتی ہے،اورجب آپ پطرس بخاری تک کو اپنی کتاب میں شامل کر رہے ہیں تو کیا یہ ضروری نہیں کہ منٹوکی وہ تحریر بھی شامل کریں جو کئی معنوں میں اس کا ردعمل ہے اور پھر منٹو سے زیادہ عصمت کا ہمعصر کون ہوگا بھلا؟
سیاست اور میڈیا کی ملی بھگت نے اپنی چالاکی سحر بیانی اور منصوبہ بندی سے ایک مشکوک انکاؤنٹر کو اکثریتی عوام کے ذہن کا مستقل اور طبعی حصہ بنا دیا ہے۔اس کتاب نے اس کا جائزہ لیتے ہوئے پولیس اور میڈیا کی کہانی پر بڑی ہی ماہرانہ انداز میں کئی پیشہ ورانہ سوالات کھڑے کئے ہیں۔مصنف نے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر نیشنل میڈیا کی متعصبانہ اور جانبدارانہ رپورٹنگ کے مد نظر بایو سائنس کے کیریئر سے صحافت کی طرف رخ کیا۔
دلت پینتھر کن حالات میں وجود میں آیا، اور اس کی کیا سرگرمیاں رہی تھیں، یہ جاننا بےحد دلچسپ ہوگا۔ اس کتاب کے مصنف جے۔ وی۔ پوار دلت پینتھر کے بانیوں میں ہیں۔
رعنا ایوب کئی برسوں تک تہلکہ میگزین سے وابستہ رہیں ۔تہلکہ سے الگ ہونے کے بعدبطورآزادصحافی،انہوں نےاپنےکام کو جا ری رکھا۔حالاں کہ وہ اپنے اس پیشہ سے وابستگی کے باوجودرپورٹنگ کر سکتی،مضامین لکھ سکتی تھیں،ٹی وی میں اینکرنگ کرسکتی تھیں،لیکن انھوں نےگجرات کےفسادات اورفرضی انکاونٹرسےمتعلق تفتیش کی اور کئی […]
آزادی کی لڑائی کے دور میں گاندھی، ساورکر، امبیڈکر، نہرو سب نے ایک مثالی ہندوستان کانقشہ رکھا، جس کے بطن سے عدم تشدد، صبروتحمل کا شہد نکلتا ہے، جو دنیا میں کہیں اور نہیں ہے۔ ہندوستان کی روح بھٹک رہی ہے۔ جانے کب اس نے عہد زریں دیکھا […]
سرسید احمد خان کے دو سو سالہ جشن ولادت کی مناسبت سے بھی کچھ کتابیں اور رسالے حالیہ دنوں میں شائع ہوئے ہیں جن میں سہ ماہی ’فکر و نظر‘ علی گڑھ کا سرسید نمبر اور راحت ابرار کی کتاب ’سرسید احمد خاں اور ان کے معاصرین‘ قابل […]
اسلم محمود کی کتاب “اودھ سمفنی”کے مشمولات اور اس کی اہمیت پر رعنا صفوی کا تبصرہ