ترنگے میں لپٹے ایک سابق وزیر اعلیٰ او رگورنر کےجسدخاکی کےنصف حصے پر اپنا جھنڈا ڈال کربی جے پی نے کلی طور پر واضح کر دیا کہ قومی علامتوں کےاحترام کےمعاملے میں وہ اب بھی‘اوروں کو نصیحت خود میاں فضیحت’ کی اپنی پالیسی سے پیچھا نہیں چھڑا پائی ہے۔
جب قومی پرچم کو اکثریتی جرائم کو جائز ٹھہرانے کےآلے کےطورپر کام میں لایا جانے لگےگا تووہ اپنی علامتی اہمیت سےمحروم ہوجائےگا۔ پھر ایک ترنگے پر دوسرا دو رنگا پڑا ہو، اس سے کس کو فرق پڑتا ہے؟
بی جے پی کےسینئررہنما اوراتر پردیش کےسابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کا 20 اگست کوطویل علالت کے بعد انتقال ہو گیا۔ اتوار کو ان کےتعزیتی اجلاس میں وزیر اعظم کی موجودگی میں بی جے پی رہنماؤں کی جانب سے ان کےجسد خاکی پرقومی پرچم کے اوپر پارٹی کا جھنڈا رکھے جانے پراپوزیشن نےاعتراض کیا ہے۔
کیا بھگوا جھنڈے کے حمایتی سنگھ اور سنگھ سے وابستہ کسی بھی فرد یا پارٹی کی ترنگےکےتئیں ایمانداری پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔
آج جب دنیا میں مختلف قسم کی خرابی اجاگر ہونے کے بعد گلوبلائزیشن کی خراب پالیسیوں پر دوبارہ غور کیا جا رہا ہے، ہمارے یہاں انہی کو گلے لگائے رکھکر سو سو جوتے کھانے اور تماشہ دیکھنے پر زور ہے۔
مرکزی حکومت سے اس بارے میں قانون بنانے کی گزارش کرتے ہوئے حیدر آباد سے رکن پارلیامنٹ اویسی نے کہا کہ ایسا کہنے والے شخص کو تین سال کی جیل ہونی چاہیے۔
سچ تو یہ ہے کہ آپ ہندوؤں کی حمایت میں بھی نہیں بول رہے ہیں۔ آپ صرف ایک سیاسی جماعت کے غیراعلانیہ ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ ہندومسلم کشیدگی پیدا کرکے آپ ان کے سیاسی مفاد کو پورا کر رہے ہیں۔