رام جنم بھومی- بابری مسجد زمینی تنازعہ سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کواے آئی ایم آئی ایم رہنما اسدالدین اویسی نےحقائق پر عقیدےکی جیت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ سب سے اوپرہے، لیکن اس سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔
مہاتما گاندھی کے پڑپوتے تشارگاندھی نے کہا ہے کہ ،‘ہر کسی کو خوش کرنا انصاف نہیں ہوتا ہے، ہر کسی کو خوش کرنا سیاست ہوتی ہے۔’
رام جنم بھومی- بابری مسجد زمینی تنازعہ معاملے میں سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی بنچ نے فیصلہ سنا دیا ہے۔ اس بنچ میں چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبدا لنذیر شامل ہیں۔
اس فیصلے کو کسی کی ہار یا جیت کےطور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ رام بھکتی ہو یا رحیم بھکتی، یہ وقت ہم سبھی کے لیے بھارت بھکتی کے احساس کومستحکم کرنے کا ہے۔
بابری مسجد-رام جنم بھومی زمینی تنازعہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سنی وقف بورڈ کے وکیل ظفر یاب جیلانی نے کہا کہ وہ وکیلوں سے بات کرنے کے بعد ریویوپیٹیشن دائر کرنے کے بارے میں فیصلہ لیں گے۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ 2010 کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج دینے والی عرضیوں پر آیا ہے۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں2.77 ایکڑ زمین کو سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام للا وراجمان کے بیچ برابر بانٹنے کی ہدایت دی تھی۔
رام جنم بھومی بابری مسجد معاملے کے فریق رہے ہاشم انصاری کے بیٹے اور مدعی اقبال انصاری نے کہا کہ اس بات کی سب سے زیادہ خوشی ہے کہ یہ مسئلہ سلجھ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ عدالت کے فیصلے کو چیلنج نہیں کریں گے۔
رام جنم بھومی-بابری مسجد زمین تنازعہ معاملے میں سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد جہاں ملک کی اکثر سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں اور سماجی کارکنوں نے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے تمام لوگوں سے امن و امان قائم رکھنے رکھنے کی اپیل کی، وہیں نرموہی اکھاڑہ نے کہا کہ اس کوفیصلے پر کوئی افسوس نہیں ہے۔
بابری مسجد-رام جنم بھامی تنازعہ: رام جنم بھومی نیاس کو ملے گا 2.77 ایکڑ زمین کا مالکانہ حق۔ مرکزی حکومت کو تین مہینے کے اندر بنانی ہوگی ٹرسٹ۔سنی وقف بورڈ کو ایودھیا میں ہی 5 ایکڑ زمین دی جائے گی۔
اتر پردیش شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی کا کہنا ہے کہ ایودھیا تنازعہ کے حل کے بعد ایسے اور مسئلے اٹھ کھڑے ہوںگے کیونکہ ملک میں ایسے گیارہ اور متنازعہ مقامات ہیں۔ اس لئے آباواجداد کی غلطیاں سدھارتے ہوئے مسلمانوں کو ملک میں امن و آشتی کے لئے ان کو ہندوؤں کو دے دینا چاہیے۔
سپریم کورٹ نے 16 اکتوبر کو ایودھیا معاملے کی شنوائی پوری کر لی ۔ کورٹ نے سیاسی طور پر حساس اس معاملے میں اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے اور یہ ایک مہینے کے اندر آنے کی امید ہے۔
جمعہ کو مسلم فریقوں کے پانچ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ، اعجاز مقبول ، شکیل احمد سید ، ایم آر شمشاد ، ارشاد احمد اور فضیل احمد ایوبی کی طرف سے داخل ایک حلف نامے میں زمین پر دعویٰ چھوڑنے کی پیشکش سے اپنے آپ کو الگ کر لیا ہے۔
ایودھیا تنازعہ کے فیصلے کے مدنظر نیوز براڈ کاسٹنگ اسٹینڈرڈ اتھارٹی نے سبھی چینلوں سے کہا ہے کہ وہ اس معاملے میں خبر دیتے وقت احتیاط برتیں اور تناؤ پیدا ہونے والی بھرکاؤ بحث سے دور رہیں ۔
ویڈیو: ایودھیا معاملے پر سپریم کورٹ میں شنوائی پوری ہو گئی ہے۔ اب فیصلے کا انتظار ہے جو اگلے مہینے آئے گا۔ اسی مدعے پر سپریم کورٹ کی وکیل اونی بنسل اور دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
ذرائع کے مطابق، اتر پردیش سنی سینٹرل وقف بورڈ نے یہ صلح نامہ ثالثی کمیٹی کے ممبر شری رام پنچو کے ذریعے داخل کیا ہے۔
ایودھیا میں رام جنم بھومی -بابری مسجد زمین معاملے کی شنوائی کرتے ہوئے آخری وقت میں مداخلت کو لے کر داخل کی گئی ایک درخواست کو نامنظور کر تے ہوئے ہندوستان کے چیف جسٹس رنجن گگوئی نے بدھ کو کہا کہ اس معاملے میں بحث شام 5 بجے ختم ہو جائے گی۔
ایودھیا معاملے کے ممکنہ فیصلے کے علاوہ دیپ اتسو، چہلم اور کارتک میلے کو لےکر دفعہ 144 دو مہینے تک ایودھیا ضلع میں نافذ رہےگی۔
رام جنم بھومی-بابری مسجد تنازعہ معاملے میں مسلم فریق کے وکیل راجیو دھون نے اس سے پہلے ان کو دھمکی دینے کے الزام میں دو لوگوں کے خلاف سپریم کورٹ میں ہتک عزت کی عرضی دائر کی تھی۔ دھون کی عرضی پر کارروائی کرتے ہوئے عدالت نے دونوں افراد کو نوٹس جاری کیا تھا۔
اترپردیش کے کو آپریٹو منسٹر مکٹ بہاری ورما نے کہا کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر ہماراعزم ہے۔ سپریم کورٹ ہمارا ہے۔عدلیہ،یہ ملک اور مندر بھی ہمارا ہے۔
بابری-رام جنم بھومی تنازعہ پر ثالثی کمیٹی کی رپورٹ ملنے کے ایک دن بعد سپریم کورٹ نے بتایا کہ اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلنے کی وجہ سے اب پانچ ججوں کی آئینی بنچ بحث پوری ہونے تک روز اس معاملے کی سماعت کرےگی۔
سپریم کورٹ میں اس معاملے کی اگلی شنوائی 2 اگست کو ہوگی۔
کورٹ نے کہا کہ اگر ثالثی کمیٹی زمین تنازعہ معاملے کو سلجھانے میں اپنی نااہلیت کا اظہار کرتی ہے تو پھر 25 جولائی سے کورٹ روز مرہ کی بنیاد پر اس معاملے کی سماعت کرےگی۔
وشو ہندو پریشد نے اپنے خط میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ معاملہ عدلیہ کی ترجیحات میں نہیں ہے،اس لیے اس میں تاخیر ہو رہی ہے۔عدلیہ اپنی ذمہ داری سے منھ نہ موڑے،وہ اس معاملے میں جلد سے جلد شنوائی پوری کرے،جس سے معاملہ حل ہو سکے۔
سپریم کورٹ نے معاملے کی سماعت تین مہینے کے لئے ملتوی کرتے ہوئے دونوں فریقین سے 30 جون تک ثالثی کمیٹی کے سامنے اپنے اعتراضات درج کرانے کو کہا ہے۔
سپریم کورٹ نے جمعہ کو ایودھیا میں 67.7’ایکڑ زمین کے غیر متنازعہ حصے‘ پر پوجا کرنے کی اجازت دینے کی عرضی خارج کر دی۔ اس کے علاوہ عرضی گزاروں پر لگائے گئے 5 لاکھ روپے کے جرمانے کے فیصلے کو بھی برقرار رکھا۔
سپریم کورٹ نے کہا فیض آباد میں ہوگی ثالثی۔سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج ایف ایم خلیف اللہ کی صدارت میں بنی 3 رکنی کمیٹی میں شری شری روی شنکر اور سینئر وکیل شری رام پنچو شامل ہیں۔
اترپردیش حکومت اور رام مندر بنائے جانے کی حمایت کرنے والے تمام فریقوں نے رام جنم بھومی تنازعہ ثالثی کو سونپنے کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت ہی معاملے کو حل کرے۔
چیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت والی پانچ رکنی آئینی بنچ نے کہا کہ کیا آپ سنجیدگی سے یہ سمجھتے ہیں کہ اتنے سالوں سے چل رہا یہ پورا تنازعہ جائیداد کے لیے ہے ؟ ہم صرف جائیداد کے حقوق کے بارے میں فیصلہ کر سکتے ہیں لیکن […]
اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ عقیدے کا احترام ہونا ہی چاہیے اور عدالت کو عوام کے عقیدے کا خیال رکھنا چاہیے۔
میڈیا اور عوام میں پیوش گوئل کے بیان کو غلط طریقے سے سمجھا گیا اور ‘رعایت’ کو ‘برأت’ سمجھ لیا گیا ! اسی غلط فہمی میں بی جے پی کے رہنما اپنی پارٹی اور مودی حکومت کو شاباشی دینے لگے۔
مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی حکومت نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کر کے مطالبہ کیا ہے کہ ایودھیا میں متنازعہ زمین کے آس پاس 67 ایکڑ غیر متنازعہ زمین ہے اس سے عدالت پہلے والی صورت حال کو ہٹالے اور یہ زمین اس کے مالکوں کو واپس کردے۔
اس سے پہلے ایودھیا میں متنازعہ رام جنم بھومی -بابری مسجد معاملے کی سماعت سے جسٹس یو یو للت نے خود کو الگ کر لیاتھا۔معاملے کی شنوائی 29 جنوری سے شروع ہو رہی ہے۔
سینئر وکیل راجیو دھون نے کہا کہ جسٹس یو یو للت نے وکیل رہتے ہوئے بابری مسجد سے متعلق ایک ہتک عزت کے معاملے میں اتر پردیش کے سابق وزیراعلیٰ کلیان سنگھ کی طرف سے پیروی کی تھی۔ اس کے بعد جسٹس للت نے خود کو اس معاملے سے الگ کر لیا۔
ایک معاملے کی سماعت کے دوران جسٹس ارون مشرا اور جسٹس یویو للت کی بنچ نے کہا کہ وکیل ججوں کو نشانہ بناکر اس ادارہ کو ہی ختم کر رہے ہیں۔