گریش کرناڈ کے ڈراموں میں بےحد خوبصورت توازن دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں وہ ہندوستان کے اور مبینہ سنہری ماضی یا اسطوری دنیا کو خام موادکی طرح استعمال تو کرتے ہیں، لیکن اس کے پس پردہ عصری مسائل یا عصری سماج کے تضادات کو نمایاں کرتے ہیں۔
مؤرخ رام چندر گہا نے کیرل ادبی میلہ کے دوسرے دن ’راشٹر بھکتی بنام اندھ راشٹریتا‘کے موضوع پر منعقد سیشن میں کہا کہ کانگریس کا جنگ آزادی کے وقت ‘عظیم پارٹی’سے آج ‘قابل رحم خاندانی کمپنی’بننے کے پیچھے ایک وجہ ہندوستان میں ہندوتوا اور اندھ راشٹریتا کا بڑھنا ہے۔
دنیا کی ٹاپ ٹکنالوجی کمپنی مائیکرو سافٹ کے سی ای اوستیہ نڈیلا نے کہا کہ میں کسی بنگلہ دیشی پناہ گزین کو ہندوستان میں اگلا یونی کارن بنانے یا انفوسس کا اگلا سی ای او بنتے دیکھنا چاہوںگا۔ اگر میں دیکھوں تو جومیرے ساتھ امریکہ میں ہوا میں ویسا ہندوستان میں ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔
گریش کرناڈ ہمارے بیچ سے اتنے ہی سکون اور ایمانداری کے ساتھ وداع ہو گئے، جس طرح سے انہوں نے اپنی زندگی بسرکی۔
ہمیں گریش کرناڈ کو ایک عظیم ڈرامہ نگار، ایک زبردست اداکار کے ساتھ بے حد مہذب انسان کے طور پر یاد رکھنا چاہیے۔ ایک ایسا انسان جو ہندوستانی تہذیب کے بارے میں اتنا تو بھول ہی گیا تھا، جتنا آج بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامیوں کو یاد ہے۔
جلیاں والا باغ : اس قتل عام کے بعد ہندوستانیوں کو بھلے برے کی تمیز ہونے لگی تھی اور وہ اب مزید جی حضوری نہیں کرنا چاہتے تھے۔ 13 اپریل 1919، یعنی آج سے ٹھیک سو سال پہلے، ‘ریجینل ڈائر’ نام کے برٹش بریگیڈیئر جنرل نے جلیاں والا باغ […]
رولٹ کے سو سال بعد ہمیں اپنے لیڈران پر اس ماحول کو دوبارہ بنانے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔ اگر سیاستداں اپریل 1919 میں گاندھی کے ذریعے اٹھائی گئی قسم کو دوبارہ اٹھانے کی کوئی مہم چلاتے ہیں تو ہندوستان یقیناً ایک بہت محفوظ و مسرور ملک ہوگا۔
آمر اور آمریت آنی جانی چیزیں ہیں؛ جبکہ جذبہ حریت و آزادی پائیدار اور مستحکم ہوتا ہے۔ نریندر مودی و امت شاہ کی آمرانہ گرفت میں آنے سے قبل ایک گجرات تھا۔ جیسے ہی یہ گرفت کمزور ہوگی؛ ایک نئے اور آزاد گجرات کا طلوع ہوگا۔ میں اسی گجرات کو دیکھنے اور (اس میں بولنے) کے انتظار میں ہوں۔
عام مغالطہ یہ ہے کہ اقتدار کے لالچ میں جارج فرنانڈیز این ڈی اے سے چپکے رہے؛ لیکن اس معاملے میں اندرا گاندھی والی کانگریس سے ان کی دائمی مخاصمت کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایودھیا میں رام کے بلند و بالا مندر کی تعمیر کو مہاتما ہندوؤں اور ہندوازم کی توانائی افسوسناک طریقے سے برباد کیے جانے کی طرح دیکھتے۔
مؤرخ رام چندر گہا نے کہا کہ چونکہ اب حالات قابو سے باہر ہو گئے ہیں اس لیے ایسا قدم اٹھانا پڑ رہا ہے۔ دو ہفتے پہلے اے بی وی پی نے گہا کو اینٹی نیشنل قرار دیتے ہوئے وائس چانسلر سے ان کی تقرری رد کرنے کی مانگ کی تھی۔
اگر کانگریس پارٹی نرسمہا راؤ کو بھی عزت بخشتی تو شاید نرسمہا راؤ کی وراثت کانگریس کو فائدہ پہنچا سکتی تھی؟
مجھے تو دوسرا کوئی نہیں دکھتا، جس کو شمال سے لےکر جنوبی ہندوستان تک کے آرٹ ، مثلاً موسیقی، ادب، رقص، عوامی ادب اور بصری آرٹ کے ساتھ ہی اپنی گہری کلاسیکی روایت کی بھی اتنی باریک سمجھ ہو۔ وہ کم سے کم 6ہندوستانی زبانوں میں لکھ، پڑھ اور بول سکتے ہیں۔
برقع اور ٹوپی کو مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بتانے والوں کو اپنے تعصبات کے پردے ہٹانے کی ضرورت ہے۔
اگر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسسٹ) نے تریپور ہ میں بھگت سنگھ کے مجسمے نصب کیے ہوتے، تو کیا سی پی آئی (ایم) کی شکست کے بعد، بی جے پی کے کارکن ان مجسموں کو بھی نقصان پہنچاتے؟
یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس بلے باز نے کیا کیا جب اس کی غلطی اس کو بتائی گئی ۔یہ ان کو ایک بہتر اور زیادہ پسند یدہ انسان بنائے گی ۔
ہندوستان کے بےسہارا طالب علموں کو پڑھانا اور پچھڑے دیہی علاقوں میں کام کرنا بطور ماہر اقتصادیات ان کا مذہب بن چکا ہے۔ یہ ان کی راہبانہ فطرت اور سیرت کے مطابق ہی تھا۔ رانچی اگر معروف کرکٹر مہیندر سنگھ دھونی کے لئے مشہور ہے، تو جھارکھنڈ کی […]
ہندوستان میں بچّوں کے تحفظ کو لےکر بنے قانون عالمی سطح کے نہیں ہیں۔ مثلاً،امریکہ کے کوڈ آف فیڈرل ریگولیشن 49،اسٹینڈرڈ نمبر 213 میں ‘چائلڈ رسٹرینٹ سسٹم ‘ کی کمی، یعنی بچّوں کے تحفظ کے لئے گاڑیوں کی سیٹ یا بیٹھنے کا طریقہ ایسا ڈیزائن کیا جانا، جس […]
تریپورہ کی کہانی کچھ ایسی ہے، جیسے یہاں کے لوگوں کو بتایا جا رہا ہو کہ ان کے لئے سب سے زیادہ اہم اور لائق ستائش وہ شخص ہے، جو اپنی زندگی میں کبھی تریپورہ آیا ہی نہیں۔ کوئی دس سال پہلے شانتی نکیتن جانا ہوا۔ وہاں میری […]