ہندوستان میں کینسر کو لےکر کوئی ضد کسی رہنما میں نظر نہیں آتی۔ کینسر ہوتے ہی مریض کے ساتھ پوری فیملی برباد ہو جاتی ہے۔ کئی ادارے کینسر کے مریضوں کے لئے کام کرتے ہیں مگر اس کو لےکر ریسرچ کہاں ہے، بیداری کہاں ہے، تیاری کیا ہے؟
حکومت کے پاس اگر سپریم کورٹ کے حکم کو نافذ کرانے کا ڈھانچہ اور ارادہ نہیں ہے تو پھر سپریم کورٹ کو ہی حکومت سے پوچھ لینا چاہیے کہ ہم حکم دینا چاہتے ہیں، پہلے آپ بتا دیں کہ آپ نافذ کرا پائیںگے یا نہیں۔
این ڈی ٹی وی کی ویب سائٹ پر مہر شرما نے لکھا ہے کہ ریزرو بینک اپنے منافع سے ہرسال حکومت کو 50 سے 60 ہزار کروڑ دیتی ہے۔ اس کے پاس ساڑھے تین لاکھ کروڑ سے زیادہ کا ریزرو ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ اس ریزرو سے پیسہ دے تاکہ وہ انتخابات میں عوام کے بیچ گل چھرے اڑا سکے۔
راکیش استھانا کے بارے میں آلوک ورما نے سپریم کورٹ سے اپنی فریاد میں کہا ہے کہ یہ آدمی اکثریت کے فیصلے کے خلاف کام کرتا ہے اور کیس کو کمزور کرتا ہے۔
آپ دیوداس کی چندر مکھی آلوک ورما اور پارو استھانا کا ڈولا رے ڈولا رے ڈانس دیکھیے۔ آپ کو مذہب کا نشہ دےکر حکومت کرنے کے سارے گھناؤنے کام کئے جا رہے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ دیوداس پارو کو بچاتا ہے یا چندر مکھی کو۔
کیا لوک پال سرچ کمیٹی کی صدر جسٹس رنجنا پرکاش دیسائی کو ان کو کمیٹی سے ہٹا نہیں دینا چاہیے یا ارندھتی بھٹاچاریہ کو خود استعفیٰ نہیں دینا چاہیے؟
ہندو مسلم بچوں کو الگ الگ بٹھانے کے معاملے میں این ڈی ایم سی کے اسکول انچارج سی بی سہراوت کو معطل کر دیا گیا ہے ،وہیں دہلی حکومت نے جانچ کے حکم بھی دیے ہیں۔
اب کئی لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ خیر منائیے کہ مذکورہ بچی کے ساتھ ریپ کرنے والا مسلمان نہیں نکلا ورنہ کون جانے، 2002 کا اعادہ ہو جاتا۔
سوشل میڈیا پر بھیڑ بنانے کی فیکٹری ہے۔ یہ بھیڑ ہمیں غیر محفوظ کر رہی ہے۔ ہم خود کو اس بھیڑ کے حوالے کر رہے ہیں اور بھیڑ کے نام پر سماج اور سرکار میں غنڈے پیدا کرنے لگے ہیں۔
نریندر مودی نے کم سے کم ایک ایسا اقتصادی سماج تو بنا دیا ہے جو نتیجے سے نہیں نیت سے تجزیہ کرتا ہے۔ حماقت کی ایسی اقتصادی جیت کب دیکھی گئی ہے؟ گیتا گوپی ناتھ جیسی ماہر اقتصادیات کو نیت کا ڈیٹا لےکر اپنا نیا ریسرچ کرنا چاہیے ۔
ستمبر 2016 میں اس وقت کے وزیر دفاع منوہر پریکر اور فرانس کے وزیر دفاع کے درمیان رافیل قرار پر دستخط ہوئے تھے، اس کے ٹھیک پہلے وزارت دفاع کے ایک سینئر افسر نے رافیل لڑاکو ہوائی جہازوں کی قیمتوں کو لےکر سوال اٹھائے تھے اور اس کو فائل میں درج کیا تھا۔
2019 کا انتخاب عوام کے وجود کا انتخاب ہے۔اس کو اپنے وجود کے لئے لڑنا ہے۔جس طرح سے میڈیا نے ان پانچ سالوں میں عوام کو بے دخل کیا ہے، اس کی آواز کو کچلا ہے، اس کو دیکھکر کوئی بھی سمجھ جائےگا کہ 2019 کا انتخاب میڈیا سے عوام کی بے دخلی کا آخری دھکا ہوگا۔
50 سال تک انتخاب آپ ہی جیتیںگے۔تمام ہندوستانیوں کو بنگلہ دیشی بتاکر بھی آپ انتخاب نہ جیتے تو یہ ہندوستانیوں کے عقل و دانش کی بے عزتی ہوگی۔
اگر وزیر دفاع کو یونیورسٹیوں میں اتنی ہی دلچسپی ہے تو جیو اانسٹی ٹیوٹ پر ہی ایک پریس کانفرنس کر دیں۔ بہت سی یونیورسٹی میں استاد نہیں ہیں۔ جو عارضی استاد ہیں ان کی تنخواہ بہت کم ہیں۔ ان سب پر بھی پریس کانفرنس کریں۔
یو پی اے نے 06-2005سے14-2013 کےدرمیان جتنا پیٹرول-ڈیزل کی ایکسائز ڈیوٹی سے نہیں وصول کیا اس سے تقریباًتین لاکھ کروڑ روپے زیادہ اکسائزڈیوٹی این ڈی اے نے 4 سال میں وصول کیا ہے۔
وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کے شروعاتی اصولوں میں امبانی کے جیو انسٹی ٹیوٹ کو مشہور ادارے کا ٹیگ نہیں مل پاتا۔ یہاں تک کہ وزارت خزانہ نے بھی خبردار کیا تھا کہ جس ادارے کا کہیں کوئی وجود نہیں ہے اس کو’ انسٹی ٹیوٹ آف ایمننس ‘ کا درجہ دینا دلیلوں کے خلاف ہے۔
وزیر ریل کے ٹوئٹر ہینڈل پر جاکر دیکھیے ۔وہ انہی ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرتے ہیں جس میں مسافر تعریف کرتے ہیں۔ مگر سیکڑوں کی تعداد میں طالب علم امتحان کے سینٹر کو لےکر شکایت کر رہے ہیں،ان پر کوئی رد عمل نہیں ہے۔
بہار کی نتیش کمار حکومت اس معاملے میں خاموش رہی۔ وہیں بہار کا میڈیا اور مظفرپور کا شہری سماج بھی 29 بچیوں کے ساتھ ہوئے ریپ کے اس معاملے کو لےکر خاموش ہے۔
وزیر دفاع نرملا سیتارمن بول چکی تھیں کہ وہ کچھ بھی نہیں چھپائیںگی، ملک کو سب بتائیںگی۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد مکر گئیں اور کہہ دیا کہ فرانس اور ہندوستان کے درمیان خفیہ قرار ہے اور وہ معاہدے کی معلومات عام نہیں کر سکتی ہیں۔
نوبل ایوارڈ یافتہ ماہر اقتصادیات نے اپنی کتاب An Uncertain Glory : India And Its Contradictions کے ہندی ایڈیشن کے اجرا کے موقع پر کہا کہ سرکار نے عدم مساوات اور کاسٹ سسٹم کے مدعوں کو نظر انداز کیا ہے۔ایس سی ایس ٹی کے لوگوں کو الگ رکھا جا رہا ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن(ڈبلیو ایچ او) کہتا ہے کہ 1000 کی آبادی پر ایک ڈاکٹر ہونا چاہیے لیکن ہندوستان میں 11082 کی آبادی پر ایک ڈاکٹر ہے۔ مطلب 10000 کی آبادی کے لئے کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔ ملک میں 5 لاکھ ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ ایمس جیسے اداروں میں پڑھانے والے ڈاکٹر اساتذہ کی 70 فیصدی کمی ہے۔
وزیر اعظم درجنوں بار کشمیر جا چکے ہیں۔ وہ جب بھی گئے اسکیموں اور وکاس پر بات کرتے رہے جیسے کشمیر کا مسئلہ سڑک اور فلائی اوور کا ہے۔ کشمیر مسئلے کو انہوں نے سولر پاور پلانٹ اور ہائیڈرو پلانٹ کی سنگ بنیاد تک محدود کر دیا۔ ان کی کشمیر پالیسی کیا ہے، کوئی نہیں جانتا۔
کمیشن نے نوجوانوں کی زندگی برباد کر دی ہے۔ شاید ہی کسی ریاست میں امتحان کا کلینڈر ہوگا۔ امتحان بھی اس طرح سے منعقد ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی تنازعہ پیداہو جاتا ہے۔ ان کا کام نوکری دینا نہیں بلکہ نوکری دینے کے نام پر نوجوانوں کو تیاری میں مصروف رکھنا ہے۔
مودی حکومت نے 2014 میں4 نئےایمس، 2015 میں 7 نئے ایمس اور 2017 میں 2 ایمس کا اعلان کرتے ہوئے 148 ارب روپے کا اہتمام کیا تھا مگر ابتک 4 ارب روپے ہی دئے گئے ہیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس رفتار سے کام ہو رہا ہوگا۔
فیک نیوز:ملک کی نامی گرامی ہستیوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو فیک نیوز کو پھیلاتے رہتے ہیں، ایسے ہی لوگوں میں مدھو کشور کا نام بھی شامل ہے۔اس کے بر عکس جب جگنیش کو معلوم ہوا کہ ان کا ٹوئٹ ایک فیک تصویر پر مبنی ہے تو انہوں نے معافی مانگ لی۔
چھوٹے فنانس بینک کا این پی اے بھی6-5 فیصد بڑھ گیا ہے۔ نوٹ بندی کے پہلے یہ ایک فیصد تھا۔ اس رپورٹ میں آہستہ سے نوٹ بندی اور قرض معافی کو وجہ بتایا گیا ہے۔ بڑے بینک ہوں یا چھوٹے بینک سب کے سب ڈوب رہے ہیں۔
ایک وقت ایسا آتا ہے جب ہمیں بولنا پڑتا ہے۔ چپی توڑنی پڑتی ہے۔ ٹوکنا پڑتا ہے ان کو بھی جو جھوٹ بول رہے ہیں اور ساتھ دینا پڑتا ہے ان کا جو سچ بول رہے ہیں۔ اب وقت ہے ان کو ٹوکنے کا، جنہوں نے کروڑوں روپیوں میں ہمارا اعتماد بیچ دیا ہے۔ کوبراپوسٹ نے یہ ثابت کر دیا ہے، یہ چپی میڈیا نہیں ہے ‘ پپی میڈیا ‘ ہے، جو حکومت کے پھینکے گئے ٹکڑوں پر پل رہا ہے۔
ہر حکومت کے دور میں ایک سیاسی تہذیب پنپتی ہے۔ مودی حکومت کے دور میں جھوٹ نئی سرکاری تہذیب ہے۔ جب وزیر اعظم ہی جھوٹ بولتے ہیں تو دوسرے کی کیا کہیں۔
ہم نے امر چتر کہانی میں دنڈ پیلنے کی تمام تصویریں دیکھی ہیں۔ ان میں دنڈ پیلنے والے دھوتی پہنا کرتے ہیں۔ آپ شاید نئے زمانے کے ہیں اس لئے آفس کی مہنگی قالین پر دنڈ پیل رہے ہیں، ویسے اس کی جگہ مٹی کی زمین ہے۔
پیٹرول کی قیمت ریکارڈ سطح پر ہے، پھر بھی آپ میڈیا میں اس کی خبروں کو دیکھئے تو لگےگا کہ کوئی بات ہی نہیں ہے۔ یہی دام اگر حکومت ایک روپیہ سستاکر دے تو گودی میڈیا پہلے صفحے پر چھاپےگا۔
مانا جاتا ہے کہ جو حکومت جی ایس ٹی نافذ کرتی ہے وہ انتخاب ہار جاتی ہے۔ ملائیشیا میں ایسا ہوا لیکن وہاں کے تجربے کو ہندوستان سے جوڑنے سے پہلے ہندوستان کے تجربات اور یہاں کی سیاست کو سمجھنا ہوگا۔
کرناٹک الیکشن کے وقت وہاں کے میڈیا میں ریاست کی حزب اقتدار اور مرکز ی حزب اقتدار کے درمیان کیسا توازن ہے، اس کا تجزیہ روز ہونا چاہئے تھا۔ الیکشن کمیشن کب سیکھےگا کہ میڈیا کوریج اور بیانات پر کارروائی کرنے اور نظر رکھنے کا کام الیکشن کے دوران ہونا چاہئے نہ کہ الیکشن ختم ہو جانے کے تین سال بعد۔
اگر انتخابی جیت میں وزیر اعظم کے جھوٹ کا اتنا بڑا رول ہے تو ہر جھوٹ کو ہیرا اعلان کر دینا چاہئے۔ اس ہیرے کا ایک کنگن بنا لینا چاہئے۔ پھر اس کنگن کو نیشنل میمنٹو اعلان کر دینا چاہئے۔
جو الزامات لگائے گئے ہیں ان پر بات کم ہو رہی ہے۔ ان سے فوکس شفٹ ہو گئی ہے۔ اچھا ہوتا کہ ان الزامات پر گفتگو ہوتی جس سے لوگوں کو پتا چلتا کہ کیا یہ الزامات Impeachmentکے لئے کافی ہیں؟
فرقہ پرستی سے اس لئے مت لڑئیے کہ کانگریس بی جے پی کرنا ہے۔ یہ پارٹیاں یا تو خاموش رہکر فرقہ پرستی پھیلاتی ہیں یا پھر کھلےعام۔ ان کے آنے جانے سے یہ لڑائی کبھی انجام تک نہیں پہنچتی ہے۔
مرکز ی حکومت کے 13 وزیر جس ویب سائٹ کا لنک ٹوئٹ کرتے ہیں، اپیل کرتے ہیں کہ فیک نیوز کے خلاف آواز اٹھائیں، اس ویب سائٹ کو کون چلاتا ہے، کہاں سے چلتی ہے، اس کا پتا دو دنوں تک میڈیا میں بحث ہونے کے بعد بھی نہیں چلتا ہے۔
آپ سے ایک گزارش ہے۔ آپ کسی اینکر کو اسٹار ہونے کا احساس نہ کرائیں۔ مجھے بھی نہیں۔ ایسا کرکے آپ میڈیا کے اندر کے گناہ کو تسلیم کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ اینکر اب عوام مخالف غنڈے ہیں۔
نکلیے چوراہے پر، پڑوسی کا دروازہ کھٹکھٹائیے۔ آواز دیجئے کہ آپ فسادات کی اس ذہنیت کے خلاف ہے۔
مجھے پتا ہے کہ بینک کے ہیڈکوارٹر والے سینئر میرا ہر مضمون پڑھنے لگے ہیں۔اس لئے یہ لائن لکھ رہا ہوں۔بتانے کے لئے کہ جھوٹ کی دکان زیادہ دنوں تک نہیں چلتی ہے۔
میری نوکری نہیں ہوگی تو نہیں ہوگی۔ آپ بس براڈبینڈ کا خرچہ بھیج دینا۔ فیس بک پر پوسٹ لکھکر ہی حضور لوگوں کی حالت خراب کر دوںگا۔