حکومت سرکاری بینکوں میں ایک لاکھ کروڑ روپے کیوں ڈال رہی ہے؟ کسان کا لون معاف کرنے پر کہا جاتا ہے کہ پھر کوئی لون نہیں چکائےگا۔ یہی بات صنعت کاروں کے لئے کیوں نہیں کہی جاتی؟
مرکزی حکومت نے راجیہ سبھا میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ ملک بھر میں پبلک سیکٹر کے بینکوں کے 50 فیصدی اے ٹی ایم بند کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ساتھ ہی نوٹ بندی کے بعد چھاپے گئے 2000 روپے اور 500 روپے کے نئے نوٹوں کے خراب معیار کو حکومت نے خارج کیا۔
میں گزشتہ دنوں دہلی اور ممبئی میں کئی لوگوں سے ملا ہوں جن کا نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے پہلے اچھاخاصہ کاروبار چل رہا تھا مگر اس کے بعد وہ برباد ہو گئے۔ کسی کا 60 لاکھ کا پیمنٹ پھنس گیا تو کسی کا آرڈر اتنا کم ہو گیا کہ وہ برباد ہو گیا۔ ان میں سے کئی لوگ اولا ٹیکسی چلاتے ملے جو نوٹ بندی کے پہلے 200سے300 لوگوں کو کام دیا کرتے تھے۔
سابق انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریولو نے صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کو خط لکھکر کہا ہے کہ سینٹرل انفارمیشن کمیشن کو حکومت کے ذریعے اس کے خلاف دائر مقدموں کے خطرے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اوپی راوت نے کہا کہ انتخابات کے دوران بھاری مقدار میں پیسے پکڑے گئے ہیں۔موجودہ وقت میں، پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں تقریباً 200 کروڑ روپے ضبط کئے گئے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، نئے نوٹوں کے کاغذ کی کوالٹی پرانے نوٹوں کے مقابلے بے حد بری ہے اس لیے یہ نوٹ جلدی خراب ہونے لگے ہیں ۔
اگریکلچر منسٹری نے 20نومبر کو پارلیامانی کمیٹی کو دی گئی وہ رپورٹ واپس لے لی ، جس میں کہا گیا تھا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے کسان کھاد اور بیج نہیں خرید سکے تھے ۔ کمیٹی کو دی گئی نئی رپورٹ میں وزارت نے کہا کہ نوٹ بندی کا زراعتی شعبے میں اچھا اثر پڑا۔
گزشتہ اکتوبر مہینے میں سینٹرل انفارمیشن کمیشن نے وزیر اعظم دفتر کو 2014 سے 2017 کے درمیان مرکزی وزراء کے خلاف ملی بد عنوانی کی شکایتوں، ان پر کی گئی کارروائی اور بیرون ملک سے لائے گئے بلیک منی کے بارے میں جانکاری دینے کا حکم دیا تھا۔
انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریولو نے چیف انفارمیشن کمشنر آر کے ماتھر کو خط لکھکر کہا کہ آر بی آئی کے ذریعے جان بوجھ کر قرض نہ چکانے والے لوگوں کی جانکاری نہیں دینے پر سینٹرل انفارمیشن کمیشن کو سخت قدم اٹھانا چاہیے۔
وزارت زراعت نے قبول کیا ہے کہ نوٹ بندی کی وجہ سے کسانوں کو کھاد اور بیج خریدنے میں سخت مسائل کا سا منا کر نا پڑا تھا۔
وزیر اعظم نے کہا ؛آج مودی کی طاقت دیکھیے کہ پائی پائی بینک میں جمع کرنے کو مجبور کردیا ۔ کانگریس کے راج سے اس طرح بدعنوانی پھیلی کہ مجھے نوٹ بندی جیسی کڑوی دوا کا استعمال کرنا پڑا، تاکہ غریبوں کو لوٹ کر لے جایا گیا پیسہ ملک کے خزانے میں واپس آئے ۔
اسپیشل رپورٹ : سپریم کورٹ نے تین سال پہلے دسمبر 2015 میں آر بی آئی کی تمام دلیلوں کو خارج کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آر بی آئی ملک کے ٹاپ 100 ڈفالٹرس کے بارے میں جانکاری دے اور اس سے متعلق اطلاع ویب سائٹ پر اپلوڈ کرے۔
مرکز کی نریندر مودی حکومت نے نوٹ بندی نافذ کرتے وقت بتا یا تھا کہ اس سے بلیک منی اور نقلی نوٹ ختم ہو جائیں گے ۔ حالاں کہ آر بی آئی کے ڈائریکٹر نے اس دلیل کو خارج کر دیا تھا۔
مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا کہ نوٹ بندی نے کروڑوں لوگوں کی زندگی اور معیشت کو برباد کر دیا۔ جن لوگوں نے یہ کیا ہے لوگ ان کو سزا دیںگے۔ وزیر ریل نے کہا کہ نوٹ بندی نے بد عنوانی کی کمر توڑ دی۔
ریزرو بینک آف انڈیا نے آر ٹی آئی ایکٹ کے ایک اہتمام کا حوالہ دیتے ہوئے یہ ظاہر کرنے سے انکار کر دیا کہ 500 اور 1000 روپے کےان بند ہو چکے نوٹوں کو تباہ کرنے میں سرکاری خزانے سے کتنی رقم خرچ ہوئی۔
سینٹرل انفارمیشن کمیشن (سی آئی سی) نے 50 کروڑ روپے اور اس سے زیادہ کا قرض لینے اور جان بوجھ کر اس کو ادا نہیں کرنے والوں کے نام کے بارے میں اطلاع نہیں مہیا کرانے کو لے کر آر بی آئی گورنر ارجت پٹیل کو وجہ بتاؤ نوٹس بھیجا ہے۔
دی وائر کی اسپیشل رپورٹ: ایک آر ٹی آئی کے جواب میں آر بی آئی نے بتایا کہ سابق آر بی آئی گورنر رگھو رام راجن نے وزیر اعظم نریندر مودی سمیت وزارت خزانہ کو این پی اے گھوٹالےبازوں کی فہرست بھیجی تھی۔ فہرست کے تعلق سے ہوئی کارروائی پر جانکاری دینے سے مرکزی حکومت نے انکارکیاہے۔
مودی حکومت کے 4 سالوں میں21سرکاری بینکو ں نے 3 لاکھ 16 ہزار کروڑ کے لون معاف کئے ہیں۔یہ ہندوستان کی صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے کل بجٹ کا دو گنا ہے۔ سخت اور ایماندار ہونے کا دعویٰ کرنے والی مودی حکومت میں تو لون وصولی زیادہ ہونی چاہیے تھی، مگر ہوا الٹا۔ ایک طرف این پی اے بڑھتا گیا اور دوسری طرف لون وصولی گھٹتی گئی۔
وجے مالیا نے ہر پارٹی کی مدد سے خود کو راجیہ سبھا میں پہنچا کر ہندوستان کی پارلیامانی روایت پر احسان کیا ۔میں مالیا کا اس وجہ سے احترام کرتا ہوں ۔ اس معاملے میں میں پرو-مالیا ہوں ۔کیا مالیا بہت بڑے سیاسی مفکر تھے؟ جن جن لوگوں نے ان کو پارلیامنٹ پہنچایا وہ آکر سامنے بولیں تو ون سنٹینس میں !
اگر یہ سیاسی تنازعہ کسی بھی طرح سے اقتصادی جرم کا ہے تو دس لاکھ کروڑ روپے لےکر فرار مجرموں کے نام لئے جانے چاہیے۔ کس کی حکومت میں لون دیا گیا یہ تنازعہ ہے، کس کو لون دیا گیا اس کا نام ہی نہیں ہے۔
آر ٹی آئی کارکن سبھاش اگروال نے ریزرو بینک سے آر ٹی آئی کے تحت نوٹ بندی سے متعلق بینک افسروں کے خلاف شکایتوں ، مختلف کھاتوں میں جمع رقم اور لوگوں کے ذریعے لین دین کی گئی کل کرینسی کے بارے میں جانکاری مانگی تھی۔
کچھ امیر صنعت کار اور امیر ہوتے رہے، عوام ہندو-مسلم کرتی رہی، اس لئے کانگریس بھی نہیں بتاتی ہے کہ وہ جب اقتدار میں آئےگی تو اس کی الگ اقتصادی پالیسی کیا ہوگی۔ بی جے پی بھی یہ سب نہیں کرتی ہے جبکہ وہ اقتدار میں ہے۔
پارلیامنٹ کی Estimates Committee کو بھیجے خط میں آر بی آئی کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے ان طریقوں کے بارے میں بتایا ہے جن کے ذریعے بےایمان بزنس گھرانوں کو حکومت اور بینکنگ نظام سے گھوٹالہ کرنے کی کھلی چھوٹ ملی۔
ریزرو بینک نے یونین بینک آف انڈیا ، بینک آف انڈیا اور بینک آف مہاراشٹر پر یہ جرمانہ فرضی واڑہ پکڑنے میں تاخیر اور وقت پر اس کے بارے میں جانکاری نہ دینے کی وجہ سے لگایا ہے۔
اسپیشل رپورٹ :آر ٹی آئی کے ذریعے یہ سامنے آیا ہے کہ سال 2016 میں 615 کھاتوں کو اوسطاً 95 کروڑ سے زیادہ کا زراعتی لون دیا گیا ہے۔ ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ سستی شرح اور آسان اصولوں کے تحت کسانوں کے نام پر بڑی بڑی کمپنیوں کو بھاری بھرکم لون دیا جا رہا ہے۔
ریزرو بینک کے دعوے کے برعکس ایس بی آئی کے اکانومسٹ کا کہنا ہے کہ 2000 اور 500 کے نئے نوٹ آنے کے باوجود نقلی نوٹوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
رپورٹ میں بتا یا گیا ہے کہ این پی اے 31مارچ 2018تک بڑھ کر 10لاکھ کروڑ روپے کے اوپر پہنچ گیا ہے ،جو 31مارچ 2015تک 3لاکھ کروڑ روپے تھا۔
سینئر کانگریسی رہنما ایم ویرپا موئلی کی قیادت والی فنانس پر پارلیامنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی اس رپورٹ کو منظور کرلیا ہے ۔ اس کو پارلیامنٹ کے ونٹر سیشن میں پیش کیا جا سکتا ہے۔
ریزرو بینک آف انڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق ،گزشتہ 4 مہینوں میں غیر ملکی کرنسی ذخیرے میں تقریباً ایک لاکھ 80ہزار کروڑ روپے کی کمی آئی ہے ۔ڈالر کے مقابلے روپیہ کمزور ہونے کی وجہ ریزرو بینک نے روپے کو مضبوطی عطا کرنے کےڈالر کی ‘بک والی ‘ کی ہے۔
ریزرو بینک نے اپنیFinancial Stability Report(ایف ایس آر)میں کہا ہے کہ بینکنگ شعبے پر این پی اے کا دباؤ بنا رہے گا۔ آنے والے وقت میں یہ اور بڑھے گا ۔ مارچ 2019 تک 11.6فیصد سے بڑھ کر 12.2فیصد ہوگا۔
انڈین ریزرو بینک کے ذریعے فروری 2018 میں جاری ایک سرکلر اس کے اور نریندر مودی حکومت کے درمیان تکرار کی وجہ بن گئی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ تمام بڑے کارپوریٹ گروپ،جو بینکوں سے لئے گئے قرض کی دوبارہ دائیگی کرنے میں ناکام رہتے ہیں،ان کو1اکتوبر، 2018 سے دیوالیہ کئے جانے کے پروسس میں شامل ہونا پڑےگا۔