کشمیری صحافت کی حالت زار: کیا سب ٹھیک ٹھاک ہے؟
ہر دو تین ماہ بعد سیکورٹی ایجنسیاں کشمیر میں کسی نہ کسی صحافی کےدروازے پر دستک دینے پہنچ جاتی ہیں،اور یہ منظر خود بخود دوسروں کےذہنوں میں خوف پیدا کر دیتا ہےکہ اگلی باری ان کی ہو سکتی ہے۔
ہر دو تین ماہ بعد سیکورٹی ایجنسیاں کشمیر میں کسی نہ کسی صحافی کےدروازے پر دستک دینے پہنچ جاتی ہیں،اور یہ منظر خود بخود دوسروں کےذہنوں میں خوف پیدا کر دیتا ہےکہ اگلی باری ان کی ہو سکتی ہے۔
شجاعت کا قتل نہ صرف امن مساعی بلکہ کشمیر میں صحافت کے لیے بھی ایک بڑا دھچکا تھا، جس سے کشمیری صحافت ابھی بھی ابھر نہیں پا رہی ہے۔
مرحوم شجاعت بخاری کے فرزند تمہید شجاعت بخاری جو ابھی گیارہویں جماعت میں زیر تعلیم ہیں،ان کا کہنا ہے کہ وہ آگے چل کر صحافت کی تعلیم حاصل کرکے اپنے والد کا پیشہ اختیار کریں گے۔
پارٹی چھوڑنے کے بڑھتے رجحان ، گورنر اور حریف جماعتوں کی الزا م تراشی ، عسکری تنظیموں کی لوگوں کو محبوبہ کو گھروں میں نہ آنے دینے کی اپیل اور سخت عوامی غم و غصے کے درمیان محبوبہ مفتی کس طرح اپنی پارٹی کوسمیٹ پائیں گی اور انتخابات میں کون سے مدعے لے کر عوام کے بیچ جائیں گی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ سنچر کو ملک کے 70ویں یوم جمہوریہ پر سری نگر مں مختلف پریس اداروں سے وابستہ سنئرق فوٹو گرافروں کو یوم جمہوریہ کی تقریب مں عکس بندی سے روکا گاہ ۔حر ت یہ ہے کہ پولسہ نے خود انہںی تقریب مںٹ شرکت کے لئے سکو رٹی پاس جاری کار تھا۔
کشمیر میں حالیہ واقعات اور اس سے قبل بھی یہ بات تو ثابت ہوگئی ہے کہ وہاں کام کرنے والے صحافیوں کو تلوار کی دھار پر چلنا پڑتا ہے۔
کشمیر ایڈیٹرس گلڈ کے ایک ممبر نے کہا، اداریہ لکھنے والے ہاتھ ہم سے چھین لیے گئے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے مانو ہماری سیاہی سوکھ گئی ہے ،اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنا احتجاج درج کرائیں۔
میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں سنیے صحافی شجاعت بخاری کا قتل، کشمیر کے حالات اور صحافت پر آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے فیلو منوج جوشی اور سینئر صحافی ایم ایم انصاری سے ارملیش کی بات چیت
شجاعت کا سب سے اہم کام یہ تھا کہ وہ کشمیری مسلمانوں اور پنڈتوں کو ملانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے
سینئر صحافی شجاعت بخاری پر 2000 میں بھی ایک حملہ ہوا تھا جس کے بعد ان کو پولیس پروٹیکشن دیا گیا تھا۔