ڈی جی پی نے کہا،فیلڈ کے بعد ہمارا سب سے زیادہ دھیان سوشل میڈیا پر ہے اور اس کے لیے باقاعدہ ایک ٹیم کو تعینات کیا گیا ہے۔ ابھی تک ایسے 1659 لوگوں کے سوشل میڈیااکاؤنٹ کو ہم نے نگرانی میں رکھا ہے، جن سے سماجی ہم آہنگی کو خراب کرنے والی پوسٹ کی جا سکتی ہیں۔
اتر پردیش شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی کا کہنا ہے کہ ایودھیا تنازعہ کے حل کے بعد ایسے اور مسئلے اٹھ کھڑے ہوںگے کیونکہ ملک میں ایسے گیارہ اور متنازعہ مقامات ہیں۔ اس لئے آباواجداد کی غلطیاں سدھارتے ہوئے مسلمانوں کو ملک میں امن و آشتی کے لئے ان کو ہندوؤں کو دے دینا چاہیے۔
سپریم کورٹ نے 16 اکتوبر کو ایودھیا معاملے کی شنوائی پوری کر لی ۔ کورٹ نے سیاسی طور پر حساس اس معاملے میں اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے اور یہ ایک مہینے کے اندر آنے کی امید ہے۔
جمعہ کو مسلم فریقوں کے پانچ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ، اعجاز مقبول ، شکیل احمد سید ، ایم آر شمشاد ، ارشاد احمد اور فضیل احمد ایوبی کی طرف سے داخل ایک حلف نامے میں زمین پر دعویٰ چھوڑنے کی پیشکش سے اپنے آپ کو الگ کر لیا ہے۔
ایودھیا تنازعہ کے فیصلے کے مدنظر نیوز براڈ کاسٹنگ اسٹینڈرڈ اتھارٹی نے سبھی چینلوں سے کہا ہے کہ وہ اس معاملے میں خبر دیتے وقت احتیاط برتیں اور تناؤ پیدا ہونے والی بھرکاؤ بحث سے دور رہیں ۔
ویڈیو: ایودھیا معاملے پر سپریم کورٹ میں شنوائی پوری ہو گئی ہے۔ اب فیصلے کا انتظار ہے جو اگلے مہینے آئے گا۔ اسی مدعے پر سپریم کورٹ کی وکیل اونی بنسل اور دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
ذرائع کے مطابق، اتر پردیش سنی سینٹرل وقف بورڈ نے یہ صلح نامہ ثالثی کمیٹی کے ممبر شری رام پنچو کے ذریعے داخل کیا ہے۔
ایودھیا میں رام جنم بھومی -بابری مسجد زمین معاملے کی شنوائی کرتے ہوئے آخری وقت میں مداخلت کو لے کر داخل کی گئی ایک درخواست کو نامنظور کر تے ہوئے ہندوستان کے چیف جسٹس رنجن گگوئی نے بدھ کو کہا کہ اس معاملے میں بحث شام 5 بجے ختم ہو جائے گی۔
اترپردیش کے کو آپریٹو منسٹر مکٹ بہاری ورما نے کہا کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر ہماراعزم ہے۔ سپریم کورٹ ہمارا ہے۔عدلیہ،یہ ملک اور مندر بھی ہمارا ہے۔
نئی دہلی میں ایک پروگرام میں چیف جسٹس رنجن گگوئی نے کہا کہ سی بی آئی کو زیادہ خود مختار بنانے کے لئے کیگ کی طرح درجہ ملنا چاہیے، جس سے وہ انتظامی کنٹرول سے الگ ہو سکیں۔
اکھل بھارت ہندو مہاسبھا کی کیرل اکائی نے مسجدوں میں خواتین کو داخلے کی اجازت دینے کی عرضی دائر کی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس کو سستی تشہیر پانے کا ذریعہ کہتے ہوئے خارج کر دیا اور کہا کہ مسلم خواتین کو ہی اس کو چیلنج کرنے دیجیے۔
وشو ہندو پریشد نے اپنے خط میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ معاملہ عدلیہ کی ترجیحات میں نہیں ہے،اس لیے اس میں تاخیر ہو رہی ہے۔عدلیہ اپنی ذمہ داری سے منھ نہ موڑے،وہ اس معاملے میں جلد سے جلد شنوائی پوری کرے،جس سے معاملہ حل ہو سکے۔
چیف جسٹس رنجن گگوئی نے کہا کہ آئین حاشیے پر پڑے لوگوں کے ساتھ اکثریت کے ادراک کی بھی آواز ہے اور یہ مشکل وقت میں ہمیشہ رہنمائی کرتا ہے۔