عام آدمی پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس کے ترنگے کے رنگ پکے ہیں۔ خالص گھی کی طرح ہی وہ خالص قوم پرستی کا کاروبار کر رہی ہے۔ ہندوستان اور ابھی اتر پردیش کے رائے دہندگان کو قوم پرستی کا اصل ذائقہ اگر چاہیے تو وہ اس کی دکان پر آئیں۔اس کی قوم پرستی کی دال میں ہندوازم کی چھونک اور سشاسن کے بگھار کا وعدہ ہے۔
ترنگے میں لپٹے ایک سابق وزیر اعلیٰ او رگورنر کےجسدخاکی کےنصف حصے پر اپنا جھنڈا ڈال کربی جے پی نے کلی طور پر واضح کر دیا کہ قومی علامتوں کےاحترام کےمعاملے میں وہ اب بھی‘اوروں کو نصیحت خود میاں فضیحت’ کی اپنی پالیسی سے پیچھا نہیں چھڑا پائی ہے۔
جب قومی پرچم کو اکثریتی جرائم کو جائز ٹھہرانے کےآلے کےطورپر کام میں لایا جانے لگےگا تووہ اپنی علامتی اہمیت سےمحروم ہوجائےگا۔ پھر ایک ترنگے پر دوسرا دو رنگا پڑا ہو، اس سے کس کو فرق پڑتا ہے؟
بی جے پی کےسینئررہنما اوراتر پردیش کےسابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کا 20 اگست کوطویل علالت کے بعد انتقال ہو گیا۔ اتوار کو ان کےتعزیتی اجلاس میں وزیر اعظم کی موجودگی میں بی جے پی رہنماؤں کی جانب سے ان کےجسد خاکی پرقومی پرچم کے اوپر پارٹی کا جھنڈا رکھے جانے پراپوزیشن نےاعتراض کیا ہے۔
ترنگا لےکر آپ کانور یاترا میں چل سکتے ہیں۔ گنیش وسرجن میں بھی اس کو لہرا سکتے ہیں۔ بد عنوانی مخالف تحریک میں بڑے ڈنڈوں میں باندھکر موٹرسائیکل پر دوڑا سکتے ہیں۔ ترنگا سے آپ مسلمانوں کے خلاف تشدد کرنے والوں کی لاش ڈھک سکتے ہیں، لیکن اس سے آپ اپنی بےپردگی ڈھک نہیں سکتے!
ملک کے جھنڈے کو بھی کیوں فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کیا جا رہا ہے؟ کیا ہم لڑتےلڑتے اتنے دور آ گئے ہیں کہ ملک کے پرچم کو بھی تقسیم کر دیںگے؟
سچ تو یہ ہے کہ آپ ہندوؤں کی حمایت میں بھی نہیں بول رہے ہیں۔ آپ صرف ایک سیاسی جماعت کے غیراعلانیہ ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ ہندومسلم کشیدگی پیدا کرکے آپ ان کے سیاسی مفاد کو پورا کر رہے ہیں۔