’غالب کی شاعری میں زندگی کے بہت سارے رنگ ہیں جن میں ایک رنگ وہ بھی ہے جنہیں عام طور پر ناقدین نظر انداز کرتے رہے ہیں اور وہ ہے عوامی دردوکرب کا رنگ جسے غالب نے اپنی شخصی زندگی کے تجربوں کے حوالے سے شاعری میں ڈھالا ہے۔‘
’’حضرت، روپے کی ادائیگی، شاعری نہیں آپ تکلّف کو برطرف رکھیے۔ میں آپ کا مداح ہوں مجھے آج موقع دیجیے کہ آپ کی کوئی خدمت کرسکوں۔‘‘ غالبؔ بہت خفیف ہوئے؛’’لاحول ولا…آپ میرے بزرگ ہیں…مجھے کوئی سزا دے دیجیے کہ آپ صدرالصدور ہیں۔‘‘
آنکھیں پرنم ہوگئیں اور بے اختیار لوح مزار کو بوسہ دے کر اس حسرت کدے سےرخصت ہوا۔یہ سماں اب تک ذہن میں ہے اور جب کبھی یاد آتا ہے تو دل کو تڑپاتا ہے۔
’یہ کہنا شاید صحیح نہیں کہ ہمیں اپنے اسلاف کے کارناموں کا علم نہیں ‘ لیکن کیا کیجیے کہ ہم اپنے کلچر ہیرو کو کہانیوں میں تلاش کرتے پھرتے ہیں۔منشی نولکشورکو میں کلچر ہیرو کے طور پر جانتا ہوں کہ انہوں نے کتابوں کی صورت آب حیات کے چشمے جاری کیے۔‘
انٹرنیٹ نے موبائل فون میں بھی گھس پیٹھ کر لی ہے، سو ہر کس و نا کس کے ہاتھ یہ جالِ جدید لگ گیا ہے۔ اب ہر ایرا غیرا نتھو خیرا غالب کے نام سے بے تُکی باتیں نیٹ پر ڈال دیتا ہے۔
۔ یہ تراجم محض عبارت کی روانی یا ترجمہ پر اصل کے گمان جیسی مقبول خوش گمانیوں کی بھی تکذیب کرتے ہیں اور ایک نیا علمی محاورہ قائم کرتے ہیں جس کے لیے پروفیسر عبد الرحیم قدوائی داد و تحسین کے مستحق ہیں۔
اس ویڈیو میں دیکھیے وہ نایا ب کتابیں کون سی ہیں اور انہیں کیسے Digitizedکیا جارہا ہے۔
مرزا غالب کے مصرعے ’اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے‘ کو چیلنج کیا احمد فراز نے اور کہا، ’کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے‘۔ 2018 کی آمد پر دونوں شعرا کے الفاظ کی روشنی میں ڈی ڈبلیو اُردو سروس کی […]