اس کے ساتھ ہی دو دیگر رہنماؤں پر بھی اس قانون کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے، جن میں نیشنل کانفرنس کے سنیئر رہنما علی محمد ساگر اور پی ڈی پی کے سرتاج مدنی شامل ہیں۔ گزشتہ سال اگست میں جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کئے جانے کے بعد سے ہی عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نظربند ہیں۔
جن 26 لوگوں پر سے پبلک سیفٹی ایکٹ ہٹایا گیا ہے ان میں سے کچھ یونین ٹریٹری سے باہر اتر پردیش اور راجستھان جیسی ریاستوں میں بند ہیں۔ ان میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر نذیر احمد رونگا بھی شامل ہیں، جنہیں اتر پردیش کی مرادآباد سینٹرل جیل میں حراست میں رکھا گیا ہے۔
سالانہ ہیومن رائٹس رپورٹ کہتی ہے کہ 662 لوگوں نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں ہیبیس کارپس عرضی داخل کی اور اپنے خلاف لگائے گئے پی ایس اے کو رد کرنے کی مانگ کی۔
جموں و کشمیر کےحکام نے بتایا کہ رہا کئے گئے پانچوں رہنما نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے ہیں، جنہیں احتیاطاً حراست میں رکھا گیا تھا۔ 5 اگست سے سابقہ ریاست کےتین سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے ساتھ مین اسٹریم اور علیحدگی پسند خیمے کے سینکڑوں رہنماؤں کو احتیاطاً حراست میں رکھا گیاہے۔
فاروق عبداللہ نے یہ خط تھرور کی طرف سے اکتوبر میں لکھے گئے خط کے جواب میں لکھا ہے۔ عبداللہ نے تھرور کا شکریہ اد اکرتے ہوئے کہا کہ مجھے مجسٹریٹ کی طرف سے خط تاخیر سے ملا۔
کانگریس ، ڈی ایم کے اور دوسری اپوزیشن پارٹیوں کے اراکین نے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نیشنل کانفرنس کے رہنما فاروق عبد اللہ کی نظربندی کی مخالفت کی اورلوک سبھا اسپیکر سے ان کی فوری رہائی کا حکم دینے کی درخواست کی۔
گزشتہ اکتوبر ماہ میں جموں وکشمیر ہائی کورٹ کی جووینائل جسٹس کمیٹی نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ پانچ اگست سے اب تک 9 سے 17 سال کے 144 نابالغوں کو حراست میں لیا گیا۔
جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو پانچ اگست کو جموں و کشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ واپس لئے جانے سے پہلے حراست میں لیا گیاتھا۔
آر ٹی آئی کے تحت مانگی گئی جانکاری میں وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ اس بارے میں ہمارے پاس کوئی جانکاری نہیں ہے۔یہ جانکاری جموں و کشمیر حکومت کے پاس ہو سکتی ہےلیکن اس درخواست کو وہاں ٹرانسفر نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ سینٹرل آر ٹی آئی قانون وہاں نافذ نہیں ہے۔
جموں و کشمیر میں ہائی کورٹ کی جووینائل جسٹس کمیٹی نے سپریم کورٹ میں سونپی اپنی رپورٹ میں یہ جانکاری دی ہے۔ رپورٹ میں پولیس نے کسی بھی بچے کو غیر قانونی طور پر حراست میں لینے کے الزامات سے انکار کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 پر مرکزی حکومت کے فیصلے کو چیلنج دینے والی نئی عرضی پر روک لگا دی ہے۔
دی وائر کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں صفیہ عبداللہ خان نے بتایا کہ ان کے والد فاروق عبداللہ پر پی ایس اے لگائے جانے سے پوری فیملی حیران ہے۔
جموں و کشمیر میں جاری پابندی کے خلاف داخل عرضی کی سماعت کر رہے دونوں ججوں-سی جے آئی رنجن گگوئی اور جسٹس ایس اے بوبڈے، ایودھیا بنچ کے بھی حصہ ہیں۔ بنچ نے ایودھیا معاملے کی سماعت ختم کرنے کے لئے 18 اکتوبر کا وقت طے کیا ہے۔
راجیہ سبھا ممبراور ایم ڈی ایم کے رہنما وائیکو نے اپنی ہیبیس کارپس عرضی میں پچھلی چار دہائیوں سے خود کو جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبدااللہ کا قریبی دوست بتاتے ہوئےکہا تھا کہ نیشنل کانفرنس کے رہنما کو غیر قانونی طریقے سے حراست میں رکھ کر انہیں آئینی حقوق سے محروم کیا گیا ہے ۔
رپورٹ میں ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وادی میں 2015میں تقریباً 18 لاکھ بالغ افراد بھی ذہنی بیماری میں مبتلا تھے۔یہ مجموعی آبادی کا 45 فیصدی ہے۔
جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے حراست میں رکھے گئے نابالغوں کے اہل خانہ کی طرف سے دائر ہیبیس کارپس عرضیوں میں سے ایک معاملے میں 10 دن کے اندر جانچ مکمل کرنے کاحکم دیا گیا ہےجبکہ دوسرے معاملے میں حکومت سے جواب طلب کیاگیا ہے۔
جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ اور کانگریس رہنما غلام نبی آزاد سپریم کورٹ کے حکم سے جموں و کشمیر کے دورے پر گئےہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں وادی میں ٹھہرنے کے دوران جن مقامات پر جانا چاہتا تھا، اس کے 10 فیصد مقامات پر بھی انتظامیہ نے مجھے جانے نہیں دیا۔
سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے بعد سے مبینہ طور پر غیر قانونی طریقے سے نابالغوں کو حراست میں رکھے جانے کو لےکر ایک ہفتے کے اندر جواب دینے کو کہا ہے۔
وادی کے کئی شہریوں نے کہا کہ انہیں ٹیلی کام کمپنیوں نے بل بھیجا ہے جب کہ انہیں خدمات دی ہی نہیں گئی ہیں۔
جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت درج معاملے میں ان پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگایا گیا ہے۔
ویڈیو: جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے رہنما فاروق عبداللہ کو پبلک سیفٹی ایکٹ(پی ایس اے)کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔ پی ایس اے کے تحت بنا ٹرائل کے کسی شخص کو دو سال تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔اس مدعے پر دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کا نظریہ۔
ایک رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے سری نگر بنچ میں 14 فروری 2019 کو ہوئے پلواما حملے سے لےکر پانچ اگست تک 150ہیبیس کارپس کی عرضیاں داخل کی گئی ہیں۔ ان میں پبلک سیفٹی ایکٹ سے جڑے 39 معاملات میں سے تقریباً 80 فیصدی معاملات ایسے تھے جن میں عدالت نے حراست میں لئے گئے لوگوں کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 اور 35 اے ہٹانے کی بحث کے دوران بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے دلتوں کو ریاست میں ریزرویشن کا پورا فائدہ ملنے کا ذکر کیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ ڈاکٹر امبیڈکر بھی ایسا چاہتے تھے۔ لیکن کیا اصل میں 370 ہٹنے کے پہلے ریاست میں دلتوں کی حالت خراب تھی؟
کشمیر ٹائمس کی ایگزیکٹو ایڈیٹر انورادھا بھسین کی طرف سے جموں و کشمیر میں مواصلاتی ذرائع پر لگی پابندیوں کو ہٹانے کی مانگ کرنے والی عرضی پر عدالت نے یہ تبصرہ کیا۔
راجیہ سبھا ممبر اور ایم ڈی ایم کے کی بانی وائیکو نے اپنی عرضی میں کہا کہ فاروق عبداللہ پر کارروائی پوری طرح سے غیر قانونی ہے۔ یہ ان کے آئینی حقوق کی پامالی ہے۔
سپریم کورٹ نے سوموار کو سینئر کانگریسی رہنما اور جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد کو ریاست میں جانے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ وہاں کوئی سیاسی جلسہ نہ کریں۔
پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے )کے تحت بنا ٹرائل کے کسی شخص کو دو سال تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ 5 اگست سے ہی نظر بند ہیں۔
راجیہ سبھا ممبر اور ایم ڈی ایم کے کے بانی وائیکو نے اپنی عرضی میں کہا کہ فاروق عبداللہ پر کارروائی پوری طرح سے غیر قانونی اور غلط ہے۔یہ ان کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔