ہندوستان اس وقت کورونا وبا کی بدترین گرفت میں ہے۔ اس سال تو شایدہی کسی افطار پارٹی میں جانے کی سعادت نصیب ہوگی۔ امید ہے کہ یہ رمضان ہم سب کے لیےسلامتی لےکر آئے اور زندگی دوبارہ معمول پر آئے۔ اسی کے ساتھ دہلی میں حکمرانوں کو بھی اتنی سمجھ عطا کرکے کہ ہندوستان کا مستقبل تنوع میں اتحاداور مختلف مذاہب اور فرقوں کے مابین ہم آہنگی میں مضمر ہے، نہ کہ پوری آبادی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے اور ایک ہی کلچر کو تھوپنے سے۔
افطار پارٹیوں کو قصہ پارینہ بنایا گیا۔گو کہ بی جے پی نے اپنے دفتر میں بس 1998میں ہی واحد افطار پارٹی کا انعقاد کیا تھا، مگر وزیر اعظم بننے کے بعد واجپائی اپنی رہائش گاہ پر ہر سال اس کا نظم کرتے تھے۔ 2014سے قبل ماہ مبار ک کی آمد کے ساتھ ہی سیاسی و سماجی اداروں کی طرف سےافطار پارٹیوں کا ایک لامنتاہی سلسلہ شروع ہوتا تھا۔
اہم سوال مسلمانوں کے سامنے ہے کہ کیا وہ سیکولر پارٹیوں کا دامن تھامے رکھیں، جنہیں ان کی تعلیم و ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں اور جو ان کو صرف ووٹ بینک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
2015 میں آر ایس ایس کی جانب سے اس کی شروعات کی گئی تھی ۔واضح ہوکہ وزیر اعظم نریند رمودی کے پی ایم ہاؤس میں اس طرح کی تقریبات نہ کیے جانے کے فیصلے کے فوراً بعد یہ قدم اٹھایا گیا تھا۔