پاکستان کی ایک اسپیشل عدالت نے جب سابق صدر پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تو پہلے خوشی اس لیے ہوئی کہ شاید اب آئندہ طاقت کے نشے میں چور کوئی آمر پاکستان میں من مانی کرنے یا جمہوریت کی قبا چاک کرنے کی جرأت نہیں کر پائے گا۔ کم سے کم کچھ اور نہیں تواداروں کے عہدوں کا وقار برقرار رہےگا۔ مگر جب تفصیلی فیصلہ منظر عام پر آیا، تو تمام تر خوشی اورپر امیدی کافور ہوگئی۔
پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف یہ معاملہ 2007 میں آئین کو رد کرنے اور ملک میں ایمرجنسی لگانے کے لیے چل رہا ہے۔ اس معاملے میں ان کے خلاف 2014 میں الزام طے کیے گئے تھے۔76 سالہ پرویز مشرف فی الحال علاج کے لیے دبئی میں مقیم ہیں۔
انتخابات کے مدنظر سیاسی جماعت پاپولر،تیز اور متاثر کن نتائج چاہتے ہیں۔لیکن فوج کی قیادت کو وہ نہیں کرنا چاہیے، جو کوئی حکمراں پارٹی چاہتی ہے۔
لوگوں کا ماننا ہے کہ آگرہ سربراہ کانفرنس اور رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ حل کرنے میں اٹل بہاری واجپائی کو کامیابی ملی ہوتی تو ملک کی صورتِحال آج کچھ اور ہوتی۔ لیکن تاریخ میں اگر مگر کی گنجائش ہی کہاں ہوتی ہے!
کانگریس رہنما سیف الدین سوز کی کتاب کی رسم اجرا میں شوری نے مودی حکومت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس کی کشمیر یا پاکستان پر کوئی پالیسی نہیں ہے۔ وہ بس ایک ہی بات جانتے ہیں کہ کس طرح ملک کے ہندو اور مسلمانوں کو بانٹا جائے۔