ایسی شاعری جس کی ہمہ وقت ضرورت محسوس ہو جس کی لذت، جس کا لطف کبھی کم نہ ہو جو ذہن کو مہمیز کرے۔ بہت معصوم، بہت پیاری ہوتی ہے جو شریانوں میں لہو کی طرح دوڑتی ہے، آنکھوں سے آنسو کی طرح ٹپکتی ہے۔ اکیلی رات میں چاند کا روپ دھار لیتی ہے۔ ایسی کیفیت کیفی اعظمی کی شاعری میں ہے جس کی ساحری میں، میں اب تک قید ہوں۔
شوکت کیفی جہاں اپنے اندر کے انسان اور فنکار کو ایک دقیانوسی سماج میں اس عورت کے طور پر تیار کر رہی تھیں جس کا اپنا سرمایہ ہوجس کا اپنا جیتا-جاگتا وجود ہو، وہیں اپنے پورے وجود کو تلاش کرنے والی شوکت ایک ایسے آدمی سے عشق کرنے کا جرم کر رہی تھیں، اوربعد میں اس کو مثال بنا دینے کی راہ میں قدم اٹھا رہی تھیں-جو ان کے عقیدے کا آدمی تھا ہی نہیں۔
سینئر آرٹسٹ شوکت کیفی 93 سال کی تھیں اور طویل عرصے سے عمر سے متعلق بیماریوں سے جوجھ رہی تھیں۔
صدی تقریبات کے موقع پر کیفی اعظمی کی نظموں کا یہ خیال انگیز انتخاب اور معنیاتی پر کاری سے مملو تراجم کی اشاعت ایک اہم ادبی وقوعہ ہے۔
اپٹا کی بناوٹ اور آرائش و زیبائش ہی ایسی تھی کہ اس کے سوشل ڈسکورس میں سیاسی سمجھ کی تہیں ملی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس لئے اپٹا نے کئی سطحوں پر کامیابی حاصل کی لیکن اس کے 75سالہ سفر میں ایسے موڑ بھی آئے جب اس کو اپنے وجود تک کے لئے جدو جہد کرنی پڑی۔
جن گن من کی بات کے اس ایپی سوڈ میں سنیے حکومت سے سوال پوچھنے کی ہمت اور بابری مسجد انہدام کے 25 سال پر ونود دوا کا تبصرہ