نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق، 2021 میں سیڈیشن ، آفیشیل سیکرٹس ایکٹ اور یو اے پی اے سمیت ملک کے خلاف مختلف جرائم کے الزام میں 5164 معاملے، یعنی ہر روز اوسطاً 14 معاملے درج کیے گئے۔ پچھلے سال ملک میں سیڈیشن کے کل 76 اور یو اے پی اے کے 814 معاملے درج کیے گئے تھے۔
اس بات کا امکان ہے کہ سیڈیشن کے جلد خاتمہ کے بعد صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں ،حزب اختلاف کے رہنماؤں کو چپ کرانے اور ناقدین کو ڈرانے کے لیے ملک بھر کی پولیس (اور ان کے آقا) دوسرے قوانین کے استعمال کی طرف قدم بڑھائے گی۔
سپریم کورٹ کی ایک خصوصی بنچ نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ مرکز اور ریاستی حکومتیں کسی بھی ایف آئی آر کو درج کرنے، جانچ جاری رکھنے یا آئی پی سی کی دفعہ 124 اے (سیڈیشن) کے تحت زبردستی قدم اٹھانے سے تب تک گریز کریں گی، جب تک کہ اس پر نظر ثانی نہیں کر لی جاتی ۔ یہ مناسب ہوگا کہ اس پر نظرثانی ہونے تک قانون کی اس شق کااستعمال نہ کیا جائے۔
سپریم کورٹ کے سابق جج روہنٹن نریمن نے لاء کالج کے ایک پروگرام میں کہا کہ اظہار رائے کی آزادی سب سے اہم انسانی حق ہے، لیکن بدقسمتی سے آج کل اس ملک میں نوجوان، طالبعلم، کامیڈین جیسےکئی لوگوں کی جانب سےحکومت کی تنقیدکیے جانے پر نوآبادیاتی سیڈیشن قانون کے تحت معاملہ درج کیا جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس روہنٹن نریمن نے کہا کہ شاید یہی وجہ ہے کہ ان جابرانہ قوانین کی وجہ سےبولنے کی آزادی پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے۔اگرآپ ان قوانین کے تحت صحافیوں سمیت تمام لوگوں کو گرفتار کر رہے ہیں، تو لوگ اپنے دل کی بات نہیں کہہ پائیں گے۔
سیڈیشن کے معاملوں میں قصور ثابت ہونے کی شرح کافی کم ہونے کو لےکر راجیہ سبھا میں اپوزیشن نے مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وزیر مملکت برائے داخلہ جی کشن ریڈی نے راجیہ سبھا میں بتایا کہ حکومت نے سیڈیشن سمیت مجرمانہ قانون میں اصلاحات کے لیے ایک کمیٹی بنائی ہے اور مختلف جماعتوں سے اس سلسلے میں تجاویزطلب کی گئی ہیں۔
مرکزی وزیر مملکت برائے امور داخلہ جی کشن ریڈی نے راجیہ سبھا کو بتایا کہ 2019 میں 76 لوگوں کے خلاف چارج شیٹ دائر کیےگئے، جبکہ 29 لوگوں کو عدالتوں کی جانب سے بری کر دیا گیا۔ سب سے زیادہ معاملے کرناٹک میں درج کیے گئے۔
سال2019 میں سیڈیشن کے 93مقدمات درج کیے گئے تھے، جو سابقہ سالوں کے مقابلے زیادہ ہیں، حالانکہ صرف تین فیصدی سیڈیشن معاملوں میں ہی الزامات کو ثابت کیا جا سکا۔
راجیہ سبھا میں وزارت داخلہ کی جانب سے بتایا گیا کہ سال 2017 میں غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق قانون یو اے پی اے کے تحت سب سے زیادہ گرفتاریاں اتر پردیش میں ہوئیں۔
مودی حکومت جمہوریت کی جن علامتوں کو سنجونے کا دعویٰ کرتی ہے، وہ ان کوختم کر چکی ہے۔
خصوصی رپورٹ : آرٹیکل 370 کے زیادہ تراہتماموں کو ہٹاکر جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے سےمتعلق آر ٹی آئی کےتحت دی وائر کی طرف سے مانگی گئی جانکاری دینے سے بھی وزارت داخلہ نے منع کر دیاہے۔
عرضی گزاروں کی مانگ ہے کہ اس بل کو غیر قانونی قرار دیا جائے کیونکہ یہ آئین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
مرکزی حکومت کے ذریعےیو اے پی اے 1967 میں ترمیم کو منظوری دیے جانے کے تقریباً ایک مہینے بعد یہ فیصلہ لیا گیا ہے۔ نیا قانون مرکزی حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی آدمی کو دہشت گرد قرار دے سکتا ہے، اگر وہ دہشت گرد سرگرمیوں کو انجام دیتا ہے یا اس میں شامل ہوتا ہے یا اس کو بڑھاوا دیتا ہے۔
نیا یو اے پی اے قانون حکومت کو غیرمعمولی اختیارات دینے والا ہے، جو اس کی طاقت کے ساتھ ہی اس کی جوابدہی کوبھی بڑھاتا ہے۔
یو اے پی اے ترمیم بل کو راجیہ سبھا نے 42 کے مقابلے 147 ووٹ سے منظوری دی۔ کانگریسی رہنما پی چدمبرم نے کہا کہ اس ترمیم بل کے ذریعے این آئی اے کو اور زیادہ طاقتور بنانے کی بات کہی گئی ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ اس کے ذریعے زیادہ طاقتیں مرکزی حکومت کو مل رہی ہیں۔