وزیراعظم نریندر مودی 44 سال پہلے یعنی اسی ماہ جون میں لگائی جانے والی ایمرجنسی کے لیے نہرو، اندرا گاندھی اور کانگریس کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ اب مودی اور امت شاہ کی قیادت والی بی جےپی کو ایسے اندیشوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جن کے مطابق ایمرجنسی جیسے حالات بنتے جا رہے ہیں۔ اس سے انہیں بنگال میں ممتا کو کنارے کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
آخر کیا بات ہے کہ زراعتی معاملہ ہو، اقتصادیا ت کے دوسرے پہلوہوں، یونیورسٹی ہوں یا اسکول، ہندی اخباروں یا چینلوں سے ہمیں نہ تو صحیح جانکاری ملتی ہے، نہ تنقیدی تجزیہ؟ کیوں ساری ہندی میڈیا حکومت کی جئے جئے کار میں مصروف ہے؟
پنیہ پرسون باجپئی کو نکالنے والوں نے آپ کو پیغام بھیجا ہے۔ اب آپ پر ہے کہ آپ خاموش ہو جائیں، ہندوستان کو بزدل انڈیا بن جانے دیں یا آواز اٹھائیں۔ کیا واقعی بولنا اتنا مشکل ہو گیا ہے کہ بولنے پر سب کچھ ہی داؤ پر لگ جائے۔
اے بی پی نیوز نے آئی آئی ٹی ممبئی کیمپس سے ‘2019 کے جوشیلے’نام کے ایک پروگرام کو نشر کرتے ہوئے ‘ آئی آئی ٹی بامبے اسپورٹس مودی’ لکھا تھا۔ آئی آئی ٹی طلبا کا کہنا ہے کہ اس شو میں شریک ہونے والے 50 لوگوں میں سے 11 باہری لوگ تھے، جو مودی حکومت کی حمایت میں بولنے کے لئے چینل کے ذریعےمدعو کیے گئے تھے۔
وزارت اطلاعات و نشریات کا کہنا ہے کہ 22 فروری کو اے بی پی نیوز اور ترنگا ٹی وی نے پلوامادہشت گردانہ حملے کو لےکر پاکستانی فوج کے ترجمان آصف غفور کی پریس کانفرنس کو نشرکیا تھا، جو پروگرام کوڈ کے اہتماموں کی خلاف ورزی ہے۔
جسٹس کاٹجو کی تجویز پر ٹی وی چینلس کے مالکان نے زبردست واویلا مچایا اور اسے میڈیا کی آزادی پر حملہ قرار دیا۔ ان کی تجویز سرد خانے میں پڑ گئی۔ مگر یہ مسئلہ اب بھی باقی ہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ اور بھی سنگین ہو گیا ہے۔
ری پبلک چینل کے ایڈیٹر ان چیف ارنب گوسوامی نے ایک شخص پر جنوری میں ہوئی وڈگام ایم ایل اے جگنیش میوانی کی یووا ہنکار ریلی میں چینل کی رپورٹر سے بد سلوکی کا الزام لگایا تھا، جس کو نیوز براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈ اتھارٹی نے غلط بتاتے ہوئے معافی مانگنے کو کہا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اظہاررائے کی آزادی کو بچائے رکھنے والے ہر قانون کی اپنی جگہ پر ہونے کے باوجود اخباروں اور ٹیلی ویژن چینلوں نے بنا مزاحمت کے خود سپردگی کر دی ہے اور اوپر سے آرڈر لینا شروع کر دیا ہے۔
پتنجلی کے ترجمان نے اے بی پی نیوز چینل سے اشتہار ہٹانے کی بات قبول کرتے ہوئے سینئر صحافی پنیہ پرسون باجپئی اور ملند کھانڈیکر کے استعفیٰ میں ہاتھ ہونے سے انکار کیا۔
مانیٹرنگ کےطریقوں پر غور کرنے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ مانیٹرنگ کا چہرہ مودی حکومت کی ہی دین ہے ایسا نہیں ہے،لیکن مودی حکومت کے دور میں مانیٹرنگ کے معنی اور مانیٹرنگ کے ذریعہ میڈیا پر نکیل کسنے کا انداز ہی سب سے اہم ہو گیا ہے۔
صحافیوں اور ایڈیٹرس کی تنظیموں نے میڈیا مالکان سے حکومت کے دباؤ کے سامنے نہ جھکنے کی درخواست کی۔
اپنے اس مضمون میں ماسٹراسٹروک پروگرام کے اینکررہے پنیہ پرسون باجپئی ان واقعات کے بارے میں تفصیل سے بتا رہے ہیں جن کی وجہ سےاے بی پی نیوز چینل کے منیجمنٹ نے مودی حکومت کے آگے گھٹنے ٹیک دئے اور ان کو استعفیٰ دینا پڑا۔
اپنی پارٹی، اپنا سیاسی نظریہ، اپنے نظریات اور اپنے تعصبات کے موتیابند سے باہر نکلکر دیکھیے کہ آپ مستقبل میں کس طرح کی جمہوریت کی زمین تیار کر رہے ہیں؟
ملک کے مختلف صوبوں میں اسمبلی انتخابات اور پھر اس کے بعد 2019 میں لوک سبھا کے انتخابات ہونے والے ہیں ۔ وقت سے پہلے ہی سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر افواہوں کا بازار گرم ہے۔ اے بی پی نیوز نے اپنی ویب سائٹ پر 30 اگست 2017 […]