موسمیاتی تبدیلی سےمتعلق بین حکومتی کمیٹی کی جانب سے جاری رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر اخراج میں تخفیف نہ کی گئی تو ہندوستان کوانسانی بقا کےنظریے سے ناقابل برداشت گرمی سے لے کراشیائے خوردونوش کی قلت اور سمندر کی آبی سطح میں اضافے سےشدید معاشی نقصان تک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
دی وائر کی جانب سےآرٹی آئی کے تحت حاصل کیے گئے دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ مرکزی حکومت نے ربیع 2020خریداری سیزن میں20ریاستوں سے کل58.71 لاکھ ٹن دال اور تلہن خریدنے کا ہدف رکھا تھا، حالانکہ اس میں سے صرف 29.25 لاکھ ٹن پیداوار کی خریداری ہو پائی ہے۔
کو رونا بحران سے بڑھتی بےروزگاری میں منریگا ہی واحد سہارا رہ گیا ہے۔ لوگوں کو روزگار دینے کی صحیح پالیسی نہیں ہونے کی وجہ سے مودی سرکار کو اپنی مدت کار میں منریگا کا بجٹ لگ بھگ دوگنا کرنا پڑا ہے اور حال ہی میں اعلان کیےگئے اضافی 40000 کروڑ روپے کو جوڑ دیں تو یہ تقریباً تین گنا ہو جائےگا۔
منریگا کے تحت کام مانگنے والوں کی بڑھتی تعداد یہ دکھاتی ہے کہ گرام پنچایت زیادہ سے زیادہ بے روزگاروں کو کام دے رہے ہیں۔
دی وائر کی خصوصی رپورٹ: آر ٹی آئی کے تحت حاصل کئے گئے دستاویز بتاتےہیں کہ مہاراشٹر، راجستھان، اتر پردیش سمیت کئی دیگر ریاستوں نے مرکز کے ذریعےطےشدہ ایم ایس پی پر اتفاق نہیں کیا تھا۔ ریاستوں نے اپنے یہاں کی پیداواری لاگت کے حساب سے امدادی قیمت طے کرنے کی سفارش کی تھی، لیکن مرکز نے تمام تجاویز کوخارج کر دیا۔
آرٹی آئی کے تحت سامنے آئی جانکاری کے مطابق تقریباً2.51 کروڑ کسانوں کو کسان یوجنا کی دوسری قسط بھی نہیں ملی ہے۔
پی ایم کسان یوجنا کے تحت کسانوں کو ایک سال میں 2000 روپے کی تین قسطوں کے ذریعے کل 6000 روپے دینے تھے۔ حالانکہ آر ٹی آئی کے تحت حاصل کی گئی جانکاری سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً25 فیصد کسانوں کو ہی اس کا پورا فائدہ مل پایاہے۔
ملک کے زیادہ تر شہروں میں پیاز کی قیمت 100 روپے کیلو کے پار پہنچ چکی ہے۔ پیاز پیداکرنے والے اہم مرکز مہاراشٹر کے ناسک میں جمعہ کو اس کی قیمت 75 روپے کیلو تھی۔
لوک سبھا میں وزیرخزانہ نرملا سیتارمن پیاز کی کم پیداوار اور بڑھتی قیمتوں پر این سی پی ایم پی سپریا سلے کے سوال کا جواب دے رہی تھیں۔ اسی دوران ایک ایم پی نے انہیں بیچ میں ٹوکتے ہوئے پوچھا، ‘کیا آپ پیاز کھاتی ہیں؟’
کسان کی تعداد کاپتہ نہیں ہونے اور اس کی صحیح تعریف نہیں طے کئے جانے کی وجہ سے مودی حکومت کی پی ایم-کسان جیسی اسکیموں پر کافی برا اثر پڑ رہاہے اور لوگوں کو اس کا فائدہ نہیں مل پا رہا ہے۔
راجیہ سبھا میں وزیر زراعت پرشوتم روپالا نے کہا کہ سرکار کی جانب سے کسانوں کی معاشی حالت کو ٹھیک کرنے کے لیے کئی پروگرام عمل میں لائے جا رہے ہیں لیکن خودکشی کرنے والے کسانوں کو معاوضہ دینے کا اہتمام موجودہ وقت میں چلائی جا رہی کسی پالیسی میں نہیں ہے۔
مالی سال 2019-20 کے لیے پی ایم -کسان کے تحت 75000کروڑ روپے مختص کیا گیا ہے۔کم خرچ کی وجہ سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ مختص کی گئی رقم کا بڑا حصہ مرکزی حکومت خرچ نہیں کر پائے گی۔
مرکزی حکومت نے این اے ایف ای ڈی کے ذریعےکشمیر گھاٹی سے صرف 7940 میٹرک ٹن سیب خریدے ہیں۔ کسان تنظیموں اور سیب کسانوں میں اس کو لے کر کافی ناراضگی ہے۔
مہاراشٹر جیسی پیازپیدا کرنے والی ریاستوں میں شدید بارش کے بعداس کی فراہمی پر اثر پڑا ہے۔ سرکاری اعداد وشمارکے مطابق پیاز کی قیمتوں میں پچھلے سال کے مقابلے تقریباً تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ نومبر 2018 میں خردہ بازار میں پیاز کی قیمت 30-35 روپے کیلو تھا۔
وزارت زراعت نے شروع میں اندازہ لگایاتھا کہ پی ایم کسان یوجنا کے تحت کل 14.5 کروڑ کسان فیملی کو فائدہ مل سکتا ہے۔حالانکہ صحیح اعداد و شمار نہیں ہونے کی وجہ سے یہ تعداد گھٹکر 10 کروڑ تک آنے کا امکان ہے۔
وزارت برائے امور صارفین کے اعداد وشمارکے مطابق ،دہلی میں پچھلے ہفتے پیاز کی خردہ قیمت57روپے کیلورہی۔وہیں ممبئی میں یہ 56 روپے ،کولکاتہ میں 48 روپے اور چنئی میں 34 روپے کیلوتھی۔گروگرام اور جموں و کشمیر میں پیاز 60 روپیہ کیلو تک پہنچ گی ہے۔
کسی بھی ملک کے لئے اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی جہاں کروڑوں مزدوروں کی بربادی قومی شعور اور سیاسی بحث کا حصہ ہی نہیں ہے۔
آر ٹی آئی کے تحت اسٹیٹ بینک آف انڈیا، بینک آف مہاراشٹر، یوکو بینک، سنڈکیٹ بینک، کینرا بینک جیسے نیشنلائزڈ بینکوں نے قبول کیا ہے کہ کسانوں کے اکاؤنٹ میں ڈالے گئے کروڑوں روپے واپس لے لئے گئے ہیں۔
یہ صورت حال اس وقت ہے جب ہندوستان کم از کم مزدوری کا قانون بنانے والا پہلا ترقی یافتہ ملک 1948 میں ہی بن گیا تھا۔قابل ذکر ہے کہ ہندوستان سماجی تحفظ پر چین،سری لنکا، تھائی لینڈیہاں تک کہ نیپال سے بھی کم خرچ کرتا ہے۔
حکومت نے مالی سال 2019سے20 کے لئے صوبہ وار منریگا مزدوری کا اعلان کیا ہے۔ اس کے تحت چھ ریاستوں اور یونین ٹیریٹری کے مزدوروں کی یومیہ مزدوری میں ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں ہوا ہے۔
رواں مالی سال (25 مارچ تک) میں منریگا کے تحت 255 کروڑ افراد کے لیے کام کا موقع فراہم کیا گیا جو کہ11-2010 کے بعد سے اس اسکیم کے تحت افراد کےکام کے دن کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
اتر پردیش کے آگرہ ضلع کے کسان کا کہنا ہے کہ مجھ پر 35 لاکھ روپے کا قرض ہے اور اگر وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ مدد نہیں کر سکتے تو کم سے کم مجھے مرنے کی اجازت تو دے ہی سکتے ہیں۔
آر ٹی آئی سے ملی جانکاری کے مطابق؛2018-2014 کے دوران ریاست میں ہر دن اوسطاً 8 کسانوں نے خودکشی کی۔
دیہی علاقوں میں نہ صرف زرعی آمدنی گھٹی ہے بلکہ اس سے جڑے کام کرنے والوں کی مزدوری بھی گھٹی ہے۔ وزیر اعظم مودی زرعی آمدنی اور مزدوری گھٹنے کو جوشیلے نعروں سے ڈھکنے کی کوشش میں ہیں۔
گزشتہ سال اگست میں کیرل میں آئے سیلاب کے دوران ایڈوکی اور تریشور ضلع سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔گزشتہ 2 مہینے میں ایڈوکی ضلع میں 8 جبکہ تریشور ضلع میں 1 کسان نے خودکشی کر لی۔
غور طلب ہے کہ جیل بھیجے گئے کسان چھوٹے اور حاشیے کے وہ کسان ہیں جو کہ پنجاب حکومت کی قرض معافی کی اسکیم کے تحت آتے ہیں۔
خاص رپورٹ : وزارت زراعت نے سینئر بی جے پی رہنما مرلی منوہر جوشی کی صدارت والی پارلیامانی کمیٹی کو بتایا کہ اگر وقت رہتے مؤثر قدم نہیں اٹھائے گئے تو دھان، گیہوں، مکئی، جوار، سرسوں جیسی فصلوں پر آب وہوا کی تبدیلی کا کافی برا اثر پڑ سکتا ہے۔ کمیٹی نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے حکومت کی کوششوں کو ناکافی بتایا ہے۔
اتر پردیش میں آگرہ کے کسان پردیپ شرما نے فصل بیما سے متعلق زراعت محکمہ میں بد عنوانی کا بھی الزام لگایا ہے۔ اس سے پہلے شرما نے صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم سے عزت سے مرنے کی خواہش(Euthanasia)کی اجازت مانگی تھی۔
اتر پردیش میں کسی بھی پارٹی کے ساتھ اتحاد میں نہ رہنا کانگریس کے لیے بھی سودمند رہے گا۔ اس سے اسے راجستھان، مدھیہ پردیش و چھتیس گڑھ میں ایس پی، بی ایس پی کے امیدواروں کا تصفیہ کرنے میں آسانی ہوگی، جہاں پارٹی کو بی جے پی سے سیدھے مقابلے میں زیادہ فائدہ ہونے کی امید ہے۔
کسان حکومت سے بھی ناراض ہیں ۔ ان کو امید تھی کہ حکومت آلو کے لیے بھی ایم ایس پی طے کرے گی،لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اب جو حال ہے اس میں ان کی لاگت بھی نہیں نکل رہی ۔
مہاراشٹر کے ناسک ضلع کے ایک 28 سالہ کسان نیلیش دھرم راج ہیالج نے موضع وزیرکھیڑے گاؤں میں پھانسی لگا لی۔ ان کے اوپر چار لاکھ روپے کا قرض بقایا تھا۔
مودی نے شہری علاقوں سے کچھ وسائل ہٹاکر دیہی علاقوں کی طرف موڑنے کا داؤ چلا، لیکن کیا یہ کامیاب رہا ہے؟
مہاراشٹر کے کسان سنجے ساٹھے نے 750 کلو پیاز کے محض 1064 روپے ملنے سے ناراض ہوکر وزیر اعظم نریندر مودی کومنی آرڈر بھیجا تھا۔
پیاز کی کم قیمت ملنے کی وجہ سے تاتیا بھاؤ کھیر نر اور منوج دھونڈگےنے خودکشی کر لی۔ مہاراشٹر سے لگاتار یہ خبریں آ رہی ہیں کہ پیاز کے کسان اپنی پیداوار کو کم قیمت پر بیچنے کو مجبور ہیں۔
احمد نگر ضلع کے ایک کسان شریس ابھالے نے 2657کلو پیاز بیچی تو ان کو 2916 روپے ملے۔ مزدوری اور ٹرانسپورٹ پر آئے خرچ 2910 روپے ادا کرنےکے بعد کسان کے پاس محض 6 روپے بچے۔
ناسک کی یولا تحصیل میں اگریکلچرل پروڈکشن مارکیٹ کمیٹی میں ایک کسان نے 545 کلوگرام پیاز 51 پیسے فی کلوگرام کی قیمت سے بیچی۔ کسان کا کہنا ہے کہ علاقے میں سوکھے جیسے حالات ہیں۔ اس آمدنی میں کیسے گھر چلاؤں، کیسے اپنا قرض چکاؤں۔
ریاست کی سب سے بڑی نیمچ منڈی میں پیاز 50 پیسے فی کلوگرام اور لہسن 2 روپے فی کلوگرام کی قیمت سے فروخت ہوا۔ منڈی کے سکریٹری کا کہنا ہے کہ کسان بہتر معیار کا مال لےکر منڈی آئیںگے تو بہتر قیمت ملےگی۔
مہاراشٹر کے سنجے ساٹھے نام کے ایک کسان کو اپنے 750 کیلو پیاز کو محض 1.40 روپے فی کیلو کے حساب سے بیچنے پڑے۔ اس بات کو لے کر ناراض ساٹھے نے پورا پیسہ پی ایم او کو عطیہ کر دیا ہے۔
ویڈیو: ملک کے کسان 29 نومبر کو ایک بار پھر اپنی مانگوں کے ساتھ دہلی آ رہے ہیں۔ کیا ہیں ان کے مسائل، اس پر زراعت معاملوں کے جانکار اور سینئر صحافی پی سائی ناتھ سے دھیرج مشرا کی بات چیت۔
ریزرو بینک نے کہا کہ 2008 سے 2009 کے درمیان اور2012 سے 2013کے درمیان میں یو پی اے حکومت کے ذریعے کیا گیا ایم ایس پی میں اضافہ موجودہ دام کے مقابلے میں زیادہ تھا۔