کیا جامعہ واقعی ’ہندومخالف‘اور’جناح پریمی‘ہے؟
جن کے اکابرین نے خود کبھی انگریزوں سے لوہا نہیں لیا اور اپنی ساری توانائی عوام کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے میں لگائی ، وہی آج ملک میں دیس بھکتی کے “ٹھیکیدار” بن بیٹھے ہیں۔
جن کے اکابرین نے خود کبھی انگریزوں سے لوہا نہیں لیا اور اپنی ساری توانائی عوام کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے میں لگائی ، وہی آج ملک میں دیس بھکتی کے “ٹھیکیدار” بن بیٹھے ہیں۔
ہم بھی بھارت کے اس ایپی سوڈ میں سنیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں محمد علی جناح کی تصویر کو لے کر ہوئے تنازعہ پر یونیورسٹی کے اساتزہ سے عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت
جن گن من کی بات کے اس ایپی سوڈ میں سنیے ملک کے مختلف حصوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھانے کی کوششوں اور راہل گاندھی کے وزیر اعظم بننے کے بیان پر ونود دوا کا تبصرہ
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر طارق منصور نے کہا کہ بامبے ہائی کورٹ اور سابرمتی آشرم سمیت کئی جگہوں پر بھی جناح کی تصویر لگی ہے اور اب تک کسی کو ان تصویروں سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔
زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان چار پانچ دنوں میں یونیورسٹی کا جو نقصان ہوا ہے اس کی بھر پائی کرنے میں برسوں لگ جائیں گے۔
میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں سنیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں محمد علی جناح کی تصویر کو لے کر ہوئے تنازعہ اور اس کی میڈیا کوریج پر سینئر جرنلسٹ صبا نقوی اور پروفیسر سلل مشرا کے ساتھ ارملیش کی بات چیت
بھگوا تنظیموں اور آن لائن پلیٹ فارموں کا یہی ہتھکنڈہ ہے کہ وہ ہندو عوام میں اس بات کو لیکر دہشت پھیلاتے ہیں کہ ہندوستان کا ہندو خطرے میں ہے!
محمد علی جناح کی تصویر کو لے کر اے ایم یو میں ہوئے تنازعہ اور طلبہ پر لاٹھی چارج کے خلاف دہلی کے یو پی بھون پر مظاہرہ
سب سے اہم سوال یہی ہے کہ کانگریس اپنے ہی سینئر رہنما اور سابق مرکزی وزیر کے بیان سے دامن کیوں جھاڑ رہی ہے؟کیا کانگریس سافٹ ہندتوا کی سیاست کے بعد اس وقت یہ خطرہ مول لینا نہیں چاہتی ؟
برقع اور ٹوپی کو مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بتانے والوں کو اپنے تعصبات کے پردے ہٹانے کی ضرورت ہے۔
سال نو کی شروعات پر ہی دی ریپبلک ٹی وی نے کئی ہنگامہ خیز خبریں اپنے چینل پر چلائی ہیں اور ٹوئٹر پر ٹرینڈ شروع کیے ہے ۔
سر سید کے دو صد سالہ جشن میں سابق صدر پرنب مکھرجی کو پوسٹر دکھا ےٴ۔ اور یہ اس وقت ہوا جب دہلی میں CBIکے ہیڈ کواٹر پر نجیب احمد کی ماں مختلف اداروں کے طلبہ-طالبات کے ساتھ احتجاج کر رہی ہیں ۔ علی گڑھ : علی گڑھ […]
1855میں”آئین اکبری”کی تدوین کرنے کے بعد غالب کے پاس تقریظ لکھوانے کے لیےگئے۔غالب نے اس ترجیح کو بے سود قرار دیتے ہوئےسر سید کو مشورہ دیا کہ زوال شدہ ماضی میں جھانکنےکے بجائےیہ دیکھا جائے کہ مغرب نےسائنسی علوم کے ذریعے مادی ترقی حاصل کر کے دنیا پر حکمرانی کر نا شروع کر دیا ہے۔ سر سید کو یہ بات پسند نہیں آئی۔
سر سید احمد خان کی200ویں سالگرہ کے موقع پر سینئر صحافی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی سابق اسٹوڈنٹ عارفہ خانم شیروانی کے ساتھ دی وائر کی با ت چیت