رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال کے دوران 12سے 15ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔مصنفین کے مطابق ایک شخص کو گرفتار کرکے آگرہ جیل میں بس اس وجہ سے پہنچایا گیا کہ کسی فوٹو میں اس کو کسی کی نماز جنازہ ادا کرتے ہو ئے دیکھا گیا تھا۔
مرکزی حکومت نے راجیہ سبھا میں جموں و کشمیر انتطامیہ کی طرف سے دیے گئے اعداد وشمار کی بنیاد پر بتایا ہے کہ جموں و کشمیر میں لاء اینڈ آرڈر بنائے رکھنے کے لیے وادی میں 4 اگست سے 5161 لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ ان میں سے 609 لوگوں کو احتیاط کے طور پر حراست میں لیا گیا ہے۔
کسی شخص کے تحفظ کو خطرہ میں ڈال سکنے والی اطلاع ہونے کا حوالہ دےکر آر ٹی آئی کے تحت آگرہ سینٹرل جیل کی طرف سے جانکاری دینے سے انکار کیا گیا ہے۔
اسی سال اپریل مہینے میں افسپا قانون کو 3 ضلعوں سے عارضی طور پر ہٹا دیا گیا تھا۔ حالانکہ تراپ،چانگ لانگ اور لونگ ڈنگ ضلعوں کے ساتھ کچھ تھانہ حلقوں میں اس کو 30 ستمبر تک نافذ رکھنے کا فیصلہ کیا تھا، جس کو اب 31 مارچ 2020 تک بڑھا دیا۔
گجرات کے وڈودرا واقع ایم ایس یونیورسٹی کا ہےمعاملہ۔ یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے ایک بی جے پی ممبر نے کہا کہ ہم نے طلبا اور ملازمین سے اپنی مرضی سے ریلی میں شامل ہونے کو کہا ہے، کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کی گئی۔
ضلع ایجوکیشن افسر راکیش ویاس نے بتایا کہ اس کا مقصد طلبا کو آرٹیکل 370 اور 35 اے کے بارے میں بتانا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ،ہمیں کسی ایک دن اس کوکرنا تھا اس لیے وزیر اعظم مودی کے یوم پیدائش کو اس کے لیے منتخب کیا گیا۔
جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کیے جانے کے بعد حراست میں لیے گئے 285 لوگوں کو اتر پردیش کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا ہے ۔ آگر ہ سینٹرل جیل میں 1933 قیدیوں میں 85 کشمیری قیدی ہیں حالاں کہ جیل کی صلاحیت محض 1350 کی ہے۔
جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کئے جانے کے ایک مہینے بعد ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس دلباغ سنگھ نے کہا کہ اگر کچھ پابندیوں سے آپ کسی کی زندگی بچا سکتے ہیں تو اس سے اچھا کیا ہو سکتا ہے؟ لوگ زندگی کے ساتھ آزادی کی بات کہتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ زندگی پہلے آتی ہے، آزادی بعد میں۔
اے ایف ایس پی اے فوجیوں کو امن کے لئے خطرہ مانے جانے والوں پر گولی چلانے کی آزادی دیتا ہے،لیکن یہ ان کو فرضی انکاؤنٹریا دوسرے طرح کے ظلم کرنے کا حق فراہم نہیں کرتا۔
پولیس والوں نے عرضی دائر کر کے الزام لگایا تھا کہ بنچ نے کچھ ملزموں کو پہلے ہی اپنے تبصرے میں ’قاتل‘بتایا تھا۔ کورٹ نے کہا کہ ایس آئی ٹی کے ذریعے ان معاملوں میں کی جا رہی جانچ پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
یہ قدم اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ فوجیوں کو یہ لگتا ہے کہ افسپا نافذ ہونے کے باوجود اس پر غیرمنصفانہ طریقے سے مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔سپریم کورٹ کا فیصلہ چاہے جو بھی آئے، مگر ایسا لگتا ہے کہ فوجی اپنے صبر کے آخری نقطے پر پہنچ گیا ہے۔
9 اپریل 2017 کو فوج کے ذریعے جیپ پر باندھکر گھمائے گئے فاروق احمد ڈار سال بھر بعد بھی اپنی عام زندگی میں لوٹنے کے لئے جوجھ رہے ہیں۔
منی پور میں 2000 سے 2012 کے درمیان محافظ دستوں اور پولیس کے خلافمبینہ طور پر 1528 فرضی انکاؤنٹرغیرعدالتی قتل کا الزام ہے۔
منی پور میں سال 2000 سے 2012 کے درمیان محافظ دستوں اور پولیس پر مبینہ طور پر کی گئی 1528 فرضی مڈبھیڑ کا الزام ہے۔